اخوت فاونڈیشن اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی کہانی لوگوں کی زندگیاں بدل دینے کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب اسٹنٹ کمشنر کی خدمات انجام دیتے ہیں اور پھر ایک بیوہ کا کہا ہوا جملہ ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیئے بدل دیا۔ اس کہانی میں کسی مقام پر کسی بیوہ کو اس کے پاون پر کھڑا کرتا ہیں تو کسی مقام لاچار باپ کسی روزگار سے جڑ جاتا ہے۔
مزید تفصیل ڈاکٹر امجد ثاقب سے انٹرویو کی شکل میں پڑھیں
قلندر تنولی
ہماری ساری جدوجہد کی بنیاد محبت، بھائی چارہ اور اخوت کی سوچ پر مبنی ہے۔ بھیک نہیں صرف اشتراک عمل ہی غربت کو ختم کرسکتی ہے۔ ہم ایک ایسے پاکستان اور دنیا کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں جس میں ہر ایک کے پاس اپنے وسائل موجود ہوں۔ بلا سود قرض حسنہ دے کر ابتک پچاس لاکھ لوگوں کو اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کہنا ہے اخوت فاونڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا،جنھیں سال 2022 کے امن نوبل انعام کے لیئے پاکستان سے نامزد کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پہ پوری دنیا بھر سے نوبل انعام کے لئے 343 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایسے مواقع بہت ہی کم آئے ہیں جب اس ایوارڈ کے لیئے پاکستان سے کسی کی نامزدگی ہوئی ہو۔
بین الاقوامی سطح پر انتہائی اہم سمجھے جانے والے نوبل انعام کے لیئے آج تک پاکستان سے صرف دو شخصیات ملالہ یوسفزئی اور ڈاکٹر عبدالسلام کو اس ایوارڈ کا حق دار سمجھا گیا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اخوت فاونڈیشن تنظیم کے سربراہ ہیں۔ اخوت فاونڈیشن پاکستان میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے کاروبار جس میں کھیتی باڑی بھی شامل ہے کے علاوہ گھروں کی تعمیر کے لیئے قرض حسنہ فراہم کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
زیتون کا تیل ویاگرا تو نہیں مگر ویاگرا کا نعم البدل
کیا تعلیمی وظیفے کے ساتھ بین الاقوامی اسکالر شپ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔ تو پھر جانیے
امن نوبل انعام کے لیئے ان کی نامزدگی کی وجہ غریب اور پھسے ہوئے طبقے کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا ہے کہ ہمارا سفر درحقیقت امن کی طرف سفر کرنا ہے۔ تھیوری، کتابیں لکھنے اور تبلیغ سے امن کے راستے پر سفر نہیں کیا جاسکتا بلکہ تھیوری پہ عملی طور پہ کام کرنے سے کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب ایک معاشرے میں لوگوں کی بڑی اکثریت کو آسودہ معاشی ماحول معیسر نہیں ہوگا تو امن کیسے آئے گا۔
ہم نے امن کو قرض حسنہ کو کاروبار سے جوڑ کرتبدیلی کی بنیاد رکھی ہے۔ جس میں ہم نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ اُس وقت جو کام ہم نے دس ہزار روپیہ قرض حسنہ سے شروع کیا تھا وہ اب ایک سو باسٹھ ارب روپیہ تک پہنچ چکا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کون ہیں؟۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے کمالیہ سے ہے۔ انھوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کررکھی ہے۔
میڈیکل کی تعلیم کے علاوہ انھوں نے لمز اور ہاروڈ یونیورسٹی سے لیڈرشپ اور ترقی پر مختلف کورسز بھی کیئے ہیں۔ وہ مختلف بین الاقوامی تنظیموں کو کنسلٹنسی سروس بھی فراہم کرتے ہیں۔ انھیں اس سے پہلے رامون مگسیسے جیسے بین الاقوامی ایوارڈ کے علاوہ مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے پیشہ ورانہ کیئریر کا آغاز سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد مینجمنٹ گروپ میں شمولیت سے اختیار کیا ہے۔ مینجمنٹ گروپ کی تربیت کے بعد وہ پنجاب ہی کے مختلف علاقوں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ وہ چینٹوٹ میں اسٹنٹ کمشنر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ جہاں پر انھوں نے دیکھا کہ بہت ہی زیادہ غریب اور پھسے ہوئے لوگ سود پر قرضے حاصل کرنے کے بعد مزید تباہ حال ہوجاتے ہیں۔ کئی لوگوں کی اس تکلیف دہ صورتحال کا وہ عینی شاہد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال پر اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر قرض حسنہ دینے کا منصوبہ بنایا۔ شروع میں یہ منصوبہ انفرادی سطح ہی پر تھا۔ جس میں میرے کچھ دوستوں اور ساتھیوں نے فنڈ فراہم کیا تھا۔ اس کام شروع کرنے اور چلانے میں ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح کام چل رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
بر طانیہ طلباء کو کون کون سے اسکالر شپ فراہم کررہا ہے؟
ماضی کی طاقت ور اور خوشحال ریاست امب آج کا بدحال تناول
2001 میں، میں ڈپٹی سیکرٹری لاہور تعنیات تھا۔اس دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس کے بعد میں نے سوچا کہ معاشرے کو کچھ لوٹانے کا وقت آچکا ہے۔ ملازمت سے استعفی دے کر اخوت فاونڈیشن کی بنیاد رکھی تھی۔
بیوہ نے کہا کہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے 2001 میں ایک خاتون کو دو سلائی مشین کے لیئے دس ہزار روپیہ قرضہ دیا تھا۔ اس خاتون نے چھ ماہ بعد وہ دس ہزار روپیہ ہمیں لوٹائے اور ساتھ کہا کہ یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ ان پیسوں کو جیب میں نہیں ڈالنا بلکہ اس کو آگے بڑھانا۔
کوئی لمحہ کوئی بات ایسا ہوتا ہے جو دل کو لگ جاتا ہے۔ میرے دل کو بھی یہ بات لگ گئی۔ اب چونکہ میں تجربہ کار بھی ہوگیا تھا اور یہ جان گیا تھا کہ کام کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے،تو میں نے ملازمت کو خیر آباد کہہ کر کام کو آگے بڑھانا شروع کردیا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ ہمیں فنڈز فراہم کرنے میں جہاں پر مخیر لوگوں کا ہاتھ ہے۔ وہان پر مختلف حکومتوں کا بھی ہمیں تعاون حاصل رہا ہے۔ وہ بھی ہمیں فنڈز فراہم کرتے رہے ہیں۔ جب میں نے کام شروع کیا تھا تو ایک رضا کار تھا اب پورے ملک کے اندر چار ہزار افراد ہمارے ساتھ کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ چھوٹے کاروبار کے لیئے ایک لاکھ روپیہ تک قرضہ دیتے ہیں۔ کھیتی باڑی کے لیئے ایک لاکھ بیس ہزار تک جبکہ گھروں کی تعمیر کے لیئے دس سے پندرہ لاکھ قرضہ فراہم کرتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا مزید کہنا تھا کہ جس کو بھی قرضہ دیتے ہیں اس کو صرف احساس دلاتے ہیں کہ یہ رقم آج تمھارے کام آرہی ہے اگر پیسے واپس نہیں کریں گے تو یہ سلسلہ رک جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہمارے پاس قرضہ واپس کرنے کی شرح 99.9 فیصد ہے۔ ایسی مثال بڑے سے بڑے مالیاتی ادارے میں بھی نہیں مل سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارا ایک دفتر تھا اب 836دفاتر کام کررہے ہیں۔ پہلے ہم فنڈز کی قلت کا شکار تھے۔ اب ہمارے پاس فنڈز بھی موجود ہے۔ ایسا صرف اس لیئے ممکن ہوسکا کہ ہم نے عملی طور پہ لوگوں کی زندگیاں تبدیل کی ہیں۔
بچہ آدھی روٹی کھاتا تھا اب پوری کھاتا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ میں کئی لوگوں کی ناکام اور تباہ حال زندگیوں سے کامیاب زندگی کا عینی گواہ ہوں۔ ایک خاتون کو قرضہ فراہم کیا تھا تو اس نے وہ قرضہ اپنے کسی کام میں استعمال کیا۔ اور پھر وہ قرضہ واپس بھی کیا۔
قرضہ واپسی کے وقت اس سے پوچھا کہ اس سے تمھاری زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ قرضہ ملنے اور کام شروع کرنے سے پہلے میرے بچوں کو صرف آدھی روٹی ملتی تھی۔ اب وہ پوری روٹی کھاتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ یہ قرضہ ان خودار لوگوں کے بھی کام آیا جنھیں بھیک نہیں اشتراک عمل اور معاشرے میں جینے کا حوصلہ چاہیے تھے۔ ایک خاتون جس کے خاوند کسی حادثہ میں مفلوج ہوگیا۔ اس کو قرضہ فراہم کیا تو اس نے اپنے علاقے میں سبزی فروخت کرنے کا کام شروع کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خاتون روزانہ صبح ریڑھی پر اپنے خاوند کو لے کر منڈی جاتی تھی۔ جہاں پر وہ سبزی خرید کرلاتی اور چوک میں ریڑھی پر اپنے خاوند کو چھوڑ کر اپنے گھر چلی جاتی پھروہ گھر کے کام کے علاوہ بچوں کی دیکھ بھال اور اسکول بیجھتی۔
ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ وہ خاتون درمیاں میں اپنے خاوند کی پتا گیری بھی کرتی تھی۔ اس خاتون کو بھیک دینے والے بہت ملتے مگر وہ انکار کرتی تھی کہ وہ محنت کرکے ہی اپنے خاندان کا بار اٹھائے گئی۔ یہ مدد اس کو اخوت نے فراہم کی۔وقت گزرنے کے ساتھ اس خاتون نے نہ صرف قرضہ واپس کیا بلکہ اب اس کے بچے بڑے ہوکے قابل ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے جب زندگیاں بدلتی دیکھیں تو انھوں نے فنڈز بھی فراہم کیا۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ یہ کام چلتا جارہا ہے بلکہ اور بڑھتا بھی جارہا ہے۔ اب جب ہمارے اعداد وشمار بین الاقوامی ادارے بھی دیکھتے ہیں تو وہ بھی حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوگیا تو ہم ان کو بھی بتاتے ہیں کہ قرضہ دیتے نہیں پیش کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیئے یہ کاروبار نہیں بلکہ نیکی کا سرکل ہے جو ہر ایک کی احساس ذمہ داری سے چلتاجارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی
گلگت بلتستان سیاحت کریں مگر جانوروں اور درختوں کو نقصاں نہ پہنچائیں