نورین محمد سلیم
ڈیمنیشا ایک دماغی بیماری ہے جو یاداشت، سوچ اور رویے میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ اس بیماری کے شکار افراد کے لیے روز مرہ کے معمولات زندگی ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں دنیا بھر میں 55 ملین سے زائد افراد اس کا شکار ہیں، سائنسدان پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2050 تک یہ تعداد 152 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
ہر سال تقریباً 10 ملین نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کا شکار ہونے والوں میں غریب اور کم آمدن افراد شامل ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ ڈیمینشیا کا شکار 60 فیصد سے زائد افراد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ یعنی اس کے بڑھتے مریض آئندہ مختلف معاشروں میں انتہائی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے تو ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں کہ ڈیمنشیا کے کتنے مریض ہوسکتے ہیں مگر ماہرین کی رائے ہے کہ اس کے مریض بڑھتے جارہے ہیں جو کہ خطرے کی علامت ہے۔
عضو تناسل کا فریکچر، ‘ہسپتال اس لیے نہیں گیا کہ ڈاکٹر کو کیا بتاؤں گا’
اس مرض کی مختلف علامات ہیں جن میں سے ایک اہم علامت نیند کا نہ آنا بھی ہے۔
نیند اور خواب زندگی کا اہم حصہ
ماہرین زندگی میں نیند کی اہمیت کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں کہ اگر تصور کریں کہ کسی کی زندگی 73 سال ہے تو اس کی زندگی کے 6 سال خواب دیکھ کر گزرتے ہیں مگر اس کے باوجود کہ ہماری زندگی میں خوابوں کی بہ اہمیت ہے۔ ہم ابھی بھی ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، جیسے کہ ہم سوچتے کیوں ہیں؟ ہمارا دماغ خواب کیسے بناتا ہے؟ خوابوں کا ہماری صحت پر کیا اثر ہوتا ہے؟۔
ایک تحقیق جو کہ دی لینسیٹ کی ایکلیکل میڈیسن جرنل میں 2022 میں شائع ہوئی سے پتہ چلتا ہے کہ خواب ہمارے دماغ کی صحت کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
یہ تحقیق بتاتی ہے کہ درمیانی عمر یا بڑی عمر میں اکثر برے اور خوفناک خواب آنے کا مطلب ہے کہ ڈیمنیشاکی بیماری کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
اس مطالعے میں تین بڑے امریکی تحقیقی منصوبوں کے اعداد و شمار پر غور کیا، جس میں 35-64 سال کی عمر کے 600 سے زائد افراد، 79 سال اور اس سے زائد عمر کے 2,600 سے زائد افراد شامل تھے۔ مطالعے میں شامل تمام افراد شروع میں ڈیمینشیا سے محفوظ تھے۔ درمیانی عمر کے گروپ کو 9 سال اور بوڑھے افراد کو 5 سال تک زیر تحقیق رکھا گیا۔
مطالعے کے آغاز میں مختلف سوال نامے دیے گئے تھے جس میں ایک سوالنامہ یہ بھی شامل تھا کہ وہ کتنی بار برے اور بدترین خواب کا تجربہ کرتے ہیں۔
اعدادوشمار کا تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ بدترین یا ڈراؤنے خواب دیکھنے والوں میں ڈیمینشیا کا خطرہ زیادہ تھا۔
ان اعداد و شمار اور مطالعے سے پتا چلا کہ وہ درمیانی عمر کے افراد جو ہر ہفتے برے خواب دیکھتے ہیں ان میں ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ بوڑھے افراد میں یہ خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔
اس میں ایک اور اہم بات سامنے آئی کہ مردوں میں یہ خطرہ عورتوں کے مقابلے میں زیادہ سامنے آیا ہے۔ ایسے بوڑھے مرد جو کہ ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں ان میں ڈیمینشیا کا خطرہ ایسے افرا کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہوتا ہے جو یہ خواب نہیں دیکھتے۔ اگر عورتوں اور مردوں میں جائزہ لیا جائے تو عورتوں میں یہ خطرہ صرف 41 فیصد ہوتا ہے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ڈراؤنے یا بدترین خواب ڈیمینشیا کی پہلی علامت ہوسکتی ہے۔ ایسا عموماً ڈیمینشیا سے متاثر ہونے سے کئی سال یا کئی دہائیاں پہلے ہوسکتا ہے۔
ممکنہ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اکثر بدترین یا ڈراؤنے خواب دیکھتے رہنا ڈیمینشیا کی وجہ ہوسکتی ہے۔
اب اس مطالعہ کے نتیجے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کس چیز پر یقین کیا جائے کہ ڈراؤنے خواب ڈیمینشیا کی پہلی علامت ہیں یا اس کی وجہ مگر بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ڈراؤنے خواب ڈیمینشیا کی علامت ہوسکتے ہیں۔
اس سے واضح طورپر پتا چلتا ہے کہ ڈراؤنے خواب اور ڈیمینشیا میں ایک تعلق ضرور موجود ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ ڈراؤنے خوابوں کا علاج ممکن ہے۔ ڈراؤنے خوابوں کے علاج کے بعد کئی کیسز میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ڈراؤنے خوابوں کا علاج کرنے کے بعد کچھ لوگوں میں ڈیمینشیا کو روکا جا سکتا ہے یا کم کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ابھی تحقیق جاری ہے اور اس حوالے سے بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس کا اردو ترجمہ اس آرٹیکل سے کیا گیا ہے۔