ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومپاکستانکوئٹہ چرچ حملے میں ٹانگ کھو دینے والی طالبہ کی کہانی

کوئٹہ چرچ حملے میں ٹانگ کھو دینے والی طالبہ کی کہانی

سال 2017  میں کوئٹہ کے چرچ میں دھشت گردانہ حملے میں آٹھ افراد ہلاک جبکہ تیس زخمی ہوگئے تھے۔ زخمیوں میں شمیم بانو اور اس کی کم عمر بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ جس میں دودھ پیتی الیزا عاشق اپنی ٹانگ سے محروم
ہوگئی تھی۔ جو اب مصنوعی ٹانگ کے سہارے اپنی زندگی گزار رہی ہے۔
الیزا اپنے مان باپ کے ساتھ
پاکستان سٹوریز رپورٹ
چرچ پر حملے کے ایک  ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد  ڈیڑہ سالہ الیزا سے ملاقات ہوئی تھی۔   یہ ملاقات بھی
اس وجہ سے ہوسکی کہ  اب الیزا کا پاؤں کٹنا  تھا۔  میں اپنی شدید زخم اور تکلیف بھول گئی تھی۔ اس وقت بس یہ ہی سوچ رہی تھی کہ اس کا کیا بنے گا۔آگے کیا ہوگا۔ مگر پھر لوگوں نے مدد کی اور اب الیزا تقریبا چھ سال کی ہے۔ اس کو سال میں دو مرتبہ مصنوعی ٹانگ  لگتی ہے۔ جن کی مدد سے وہ چلتی پھرتی ہے۔
یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کے دار الحکومت  کوئٹہ میں 2017 کے چرچ حملے کے متاثرین کوئٹہ کی رہائشی  سات بچوں کی ماں شمیم عاشق کا۔
شمیم عاشق سال 2017 میں اپنی  دو بیٹیوں صدف عاشق اور الیزا عاشق کے ہمراہ جب  کوئٹہ  کے چرچ میں آنے والے کرسمس کی تیاریوں کے میں  مصروف تھی تو اس وقت وہ دھشت گرد حملے کا نشانہ بن گئیں تھیں۔
سال 2017  میں کوئٹہ کے چرچ میں دھشت گردانہ حملے میں آٹھ افراد ہلاک جبکہ تیس زخمی ہوگئے تھے۔ زخمیوں میں شمیم بانو اور اس کی کم عمر بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ جس میں دودھ پیتی الیزا عاشق اپنی ٹانگ سے محروم ہوگئی تھی۔ جو اب مصنوعی ٹانگ کے سہارے اپنی زندگی گزار رہی ہے۔
الیزا عاشق کے والد  عاشق مسیح  سوئیپر  کی ملازمت کرتے ہیں۔ ان کے لیئے اپنی بیٹی کے لیئے مصنوعی ٹانگ کا انتظام  کرنا اور پھر ٹانگ کو کاٹے جانے کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔  ایسا کیسے ممکن ہوا یہ آگے چل کر بتاتے ہیں۔ پہلے شمیم عاشق اور عاشق مسیح کی روداد پڑھتے ہیں کہ انھوں نے دھشت گردی کے وقت کیا دیکھا اور اس کے بعد ان پر کیا بیتی تھی۔
الیزا کو  گود میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتی رہی
شمیم عاشق کو 17دسمبر 2017 کا دن  آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ اس دن وہ چرچ میں اپنی بیٹیوں کے ہمراہ
کرسمس کی تیاریوں کے لیئے گئی تھیں۔صدف عاشق اُس وقت تقریبا آٹھ سال کی تھی۔
شمیم عاشق کہتی ہیں کہ صدف نے چرچ میں کرسمس کی تیاریوں کے لیئے ریہرسل کرنی تھی جبکہ مجھے  اپنی معمول کی      عبادت کرنی تھی،جس کے لیئے ہم لوگ بروقت ہی چرچ چلے گے تھے۔ میں الیزا کو لے کر   چرچ کے ہال  جب کہ صدف بچوں کے لیئے مخصوص کمرے میں چلی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی دعائیہ کلمات جاری ہی تھے کہ میں نے یک دم ہی  فائرنگ کی آوازیں سُنی۔یہ فائرنگ شدید تر ہوتی جارہی تھی۔ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ میری گود میں الیزا تھی۔ مجھے اپنی پرواہ تو نہیں تھی مگر الیزا  کے لیئے بہت پریشان ہوگئی تھی اور تو کچھ سمجھ نہ آیا میں بینچ سے اتر  کر زمین پر بیٹھ گئی
.اچانک زوردار دھماکہ ہوا
شمیم بانو کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دھماکا ہوا یہ انتہائی شدید دھماکا تھا۔   الیزا  اب بھی میری گود میں تھی۔ میں اس کو بچانے کی پوری کوشش کررہی تھی۔ اس کوشش میں اس پر  جھکی ہوئی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں  بہت زخمی ہوں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں اپنی حواس کھو رہی ہوں۔ اس وقت فکر تھی تو صرف اور صرف
اپنی ڈیڑہ سالہ الیزا کی۔
  • ہماری دیگر رپورٹیں پڑھیں
اس سے پہلے کہ میں اپنے حواس مکمل طور پہ کھو بیٹھتی ایک  ایف سی اہلکار میرے قریب پہنچا اور اس نے کہا کہ یہ بچی مجھے دے دیں اور ہم اپ کو ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہوگئی تھی۔
اہلیہ اور بیٹیوں کو دیوانوں کی طرح تلاش کرتا رہا
شمیم بانو بے ہوش ہوگئی تھی۔  ان کو سیکورٹی اہلکاروں نے ہسپتال پہنچا دیا تھا۔
یہاں سے عاشق مسیح کی کہانی شروع ہوتی ہے۔  وہ بتاتے ہیں کہ جب چرچ میں دھشت گردی ہوئی تو اس وقت میں گھر سے چرچ کی طرف جارہا تھا۔ جب چرچ کے قریب پہنچا تو وہاں پر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے مجھے آگے جانے سے روک دیا۔ اس موقع پر میں نے فائرنگ کی آواز سنی اور ایمبولینس آتی جاتی دیکھیں۔
عاشق مسیح کا کہنا تھا کہ میں نے آگے جانے کی کوشش کی میری اہلیہ اور دو بیٹیاں چرچ میں تھیں مگر مجھے جانے نہیں دیا گیا۔ میں وہاں پر ہی بیٹھ گیا ہر ایک سے اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کی بارے میں پوچھ رہا تھا۔ کسی کو کسی کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ میں سول ہسپتال چلا جاوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ سول ہسپتال میں کہرام مچا ہوا تھا۔ زخمیوں پر زخمی آرہے تھے۔ میں نے اپنی اہلیہ اور بیٹیوں کو تلاش کیا مگر نہ ملیں۔ میں ان کو پورے ہسپتال میں کئی گھنٹوں تک دیوانہ وار تلاش کرتا رہا مگر کوئی اتا پتا نہیں مل رہا تھا۔ میں مایوس ہوچلا تھا۔ ایسے میں میری اہلیہ کا نام لے کر اعلان ہوا تھا۔
عاشق مسیح کہتے ہیں کہ جب میں اہلیہ کے پاس پہنچا تو ان کو آپریشن تھیڑ لے جانے کے لیئے تیار کیا جارہا تھا۔ وہ انتہائی زخمی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ کئی گھنٹے سے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھیں جہاں پر ڈاکٹروں نے   آپریشن کا کہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اہلیہ  کا پتا چل گیا تھا۔ اب بیٹیوں کا کوئی پتا نہیں چل رہا تھا۔ اہلیہ جب آپریشن تھپڑ  کے اندر گئی تو اس وقت دوبارہ الیزا کے بارے میں اعلان ہوا اور جب میں دوڑا ڈوڑا الیزا کے پاس پہنچا تو وہ شدید زخمی تھی۔ ڈیڑہ سال کی بچی اور زخم اتنے زیادہ کے میری چیخیں نکل گئیں تھیں۔
عاشق مسیح نے بتایا کہ اتنے میں ڈاکٹر آئے اور انھوں نے کہا کہ الیزا کا بھی آپریشن کرنا ہے اور اس کو آپریشن تھیڑ میں لے گئے۔اب میں نے صدف کی تلاش شروع کی،اس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ آپریشن کے بعد وارڈ میں منتقل ہوگئی ہے۔ اس کو دیکھا تو وہ ابھی نیم بے ہوش تھی۔
میری اہلیہ اور دونوں بیٹیوں کو گولیوں اور دھماکے کے پارچے لگے تھے۔ اہلیہ کو پیٹ میں تیس ٹانگے لگے، صدف کو بیس جبکہ الیزا کی ٹانگ پر پلستر کیا گیا تھا۔
چھپ کر روتا رہتا تھا۔
عاشق مسیح بتاتے ہیں کہ میں تو مزدور پیشہ آدمی ہوں۔ پیسے تو پہلے ہی نہیں تھے بس دال ساگ کھا کر گزر بسر ہوتی تھی۔ اب تو ہسپتال میں تین مریض تھے۔ میں نے اہلیہ اور صدف کو نہیں بتایا تھا کہ الیزا کی ٹانگ پر پلستر ہوا ہے بس اس سے کہہ دیتا تھا کہ وہ ٹھیک ہے ہسپتال میں لانا مناسب نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ دونوں میں صدف اور اہلیہ بہتر ہوتی جارہی تھیں مگر الیزا کا پلستر نہیں اتر رہا تھا۔ پہلے صدف کو ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تھا مگر اہلیہ ایک ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہی تھی۔ اس کے ایک سے زیادہ آپریشن ہوئے تھے جبکہ الیزا کا زخم خراب سے خراب تر ہوگیا تھا۔
عاشق مسیح کہتے ہیں کہ مجھے سول ہسپتال میں بتایا گیا کہ الیزا کا زخم بہت خراب ہوچکا ہے۔ اس کی زندگی بچانے کے لیئے اس کی ٹانگ کاٹنا پڑے گئی۔   ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ الیزا کا زخم خراب ہوچکا ہے اب کوئی حل نہیں ہے۔ یہ سننے ہی میری آنکھوں میں آنسو آگے تھے۔ میں چھپ ہوگیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں علاج معالجے کی تمام ادوایات ملتی تھیں  کہ میری پاس تو زخمیوں کی ہسپتال میں عیادت، دیکھ بھال اور آنے جانے کے خرچے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ میں نے تو اہلیہ کو الیزا کی صورتحال بھی نہیں بتائی تھی کہ اس بارے میں جان کر اس کی طبعیت زیادہ خراب  نہ ہوجائے۔
  اعاشق مسیح کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ الیزا کی ٹانگ کو جلد کاٹنا بہت ضروری ہے جب کہ یہ کام کوئٹہ میں ہونا بہت خطرناک ہے۔ میں کوئٹہ کے ایک پرائیوٹ ہسپتال بھی گیا تھا۔ انھوں نے بھی کہا کہ  یہ آپریشن کراچی کے بڑے اور مہنگے ہسپتال ہی میں ممکن ہے۔
اس صورتحال پر میں چھپ چھپ کر روتا تھا اور سوچتا تھا کہ اب کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ ایسے میں اچانک ہماری ہی  کمیونٹی کے ناصر مسیح مجھے تلاش کرتے ہوئے پہنچے اور انھوں نے کہا کہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے بس جلد از جلد کراچی جانے کی تیاری  کرو،سارے انتظامات ہوگئے ہیں۔مجھے ایسے لگا جیسے خدا نے مدد بھیجی ہو۔
آپریشن اور مصنوعی ٹانگ
عاشق مسیح کہتے ہیں کہ   ناصر مسیح نے ہمارے لیئے جہاز کے  ٹکٹ کا انتظام کیا جبکہ کراچی میں تمام اخراجات ہماری ہی کمیونٹی کی جیولئیٹ چوہدری جو کہ برٹش ایشین کرسچن ایسوسی ایشن کی رہنما ہے نے کیئے تھے۔ اب تک مصنوعی ٹانگ کا انتظام وہ ہی کررہی  ہیں۔
جیولئیٹ چوہدری بتاتی ہیں کہ وہ 2002 میں شادی کرکے  پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئی ہیں۔ اس وقت سے لے کر ابتک پاکستان کے لوگوں کی خدمت کررہی ہیں۔ پہلے یہ کام انفرادی سطح پر کرتی تھی اب ایک این جی او برٹش کرسچن ایشین ایسوسی ایشن  بنا لی ہیں۔
      الیزا کی کہانی ہم تک فیس بک پوسٹ کے زریعے سے پہنچی تھی۔ یہ دل کو لرزا دینے والی کہانی تھی کہ ایک بچی کی زندگی بچانے کے لیئے ٹانگ کاٹنے کی ضرورت تھی اور اس وقت کوئٹہ میں یہ سہولت میسر نہیں تھی  جبکہ کراچی کے کسی بھی بڑے ہسپتال میں اس کا خرچہ لاکھوں میں تھا۔
جیولئیٹ چوہدری کہتی ہیں کہ میں پاکستان ہی سے تھی ہم نے فوری طور پر مقامی کمیونٹی کو فعال کیا۔ کئی لوگ اخلاقی اور مالی  مدد کے لیئے تیار ہوگئے،کوئٹہ ہی سے کچھ لوگوں کو متاثرہ خاندان تک پہنچایا گیا۔ جنھوں نے فوری طور پر اندازہ لگایا کہ اس متاثرہ خاندان کی کس طرح مدد ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کی رضا مندی کے ساتھ ان کو فی الفور کراچی پہچانے کا انتظام کیا گیا۔ وہاں پر پہلے سے ہی  ڈاکٹرز سے اپائٹمنٹ لی ہوئی  تھی۔ اب ٹانگ کٹنے کے بعد بچی کو سال میں دو مرتبہ مصنوعی ٹانگ لگتی ہے۔ جس کے لیئے ان کو کوئٹہ سے کراچی سفر کرنا پڑتا ہے۔
الیزا بہت پیاری بچی ہے۔  وہ اس وقت ٹانگ سے محروم ہے۔ ہم  کوشش  کررہے ہیں کہ اس کے کم از کم اٹھارہ سال تک اس کے تمام اخراجات براشت کریں۔ ہم اس  کے اچھے مستقبل کے لیئے بہت پُرامید ہیں۔
شمیم بانو بتاتی ہیں کہ میں ایک ماہ سے ہسپتال ہی میں تھی۔ صدف کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ عاشق بہت زیادہ پریشان رہتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ اپنی الیزا کا پوچھا تو کہتے کہ ٹھیک ہے یہ ہے وہ ہے۔ الیزا میری بیٹی ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ کچھ ہوا ہے اُس کے ساتھ جو ٹھیک نہیں ہے۔ مگر عاشق بتاتے نہیں تھے۔
شمیم بانو کا کہنا تھا کہ جب الیزا کو علاج کے لیئے کراچی لے کر جانے کا وقت آیا تو اس وقت عاشق نے مجھے کہا کہ الیزا کو کراچی لے کر جانا ہے۔ جس پر میں نے اصرار کیا کہ جانے سے پہلے مجھے میری بچی ایک مرتبہ دکھا دو۔ جب میری بچی میرے پاس آئی تو میں نے  اپنی  بچی کو اپنے ساتھ لیپٹا لیا اور کہا کہ جہاں میری بچی جائے گئی وہاں میں بھی جاوࣿں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر عاشق نے بتایا کہ اس کی ٹانگ کٹنا ہے لمبا عرصہ کراچی میں رہنا ہے۔ تمھاری طبیعت بھی ٹھیک  نہیں ہے۔ جس پر میرے تو ہوش ہی اُڑ گئے۔میں ایک دم ہسپتال کے بستر سے اٹھ گئی اور نیچے اتر کر کہا کہ اس موقع پر ایک بچی کو سب سے زیادہ ضرورت ماں ہی کی ہوتی ہے۔
شمیم بانو کا کہنا تھا کہ کراچی کے سب سے بڑے اور مہنگے ہسپتال میں الیزا  کا آپریشن ہوا۔ تمام خرچہ جئیولئیٹ چوہدری اور ان کے ساتھیوں نے برداشت کیئے۔ اس  کے بعد الیزا کے لیئے مصنوعی ٹانگ کا بھی انتظام ہوا ہے۔ الیزا کا قد بڑھ رہا ہے۔ جس وجہ سے اس کو سال میں دو  مرتبہ ضرورت پڑتی ہے۔
لوگوں کے رویے سے تکلیف
ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات الیزا کو دیکھنے والی لوگوں کی نظریں دل چیر کررکھ دیتی ہیں۔ بہت برا لگتا ہے۔ میں کوشش کوتی ہوں کہ الیزا کوبہادر بنا سکوں۔ وہ ابھی تقریبا چھ سال کی ہے میں اس کو ہر وقت سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ اس نے اپنا مستقبل خود بنانا ہے۔ وہ بھی بہت سمجھدار ہے بہت کچھ سمجھ رہی ہے اور بہت کچھ وقت آنے  پر خود سمجھ جائے گئی۔
الیزا عاشق نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ  دوسرے بچوں کی ٹانگ تو نہیں اترتی مگر مجھے اپنی ٹانگ اتارنی پڑتی ہے۔ مجھے مما او ڈیڈی نے بتایا ہے کہ مجھے اس کا عادی بننے کے علاوہ بہت پڑھائی کرنا ہوگئی تاکہ میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکوں۔
الیزا عاشق کا کہنا تھا کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھیلتی ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے چرچ جانا، پڑھائی کرنا او سکول جانا اچھا لگتا ہے۔ میرا زیادہ وقت پڑھائی میں گزرتا ہے۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنی کلاس میں اچھے نمبر لوں۔ پہلے میں ایک اور سکول میں پڑھتی تھی۔ ڈیڈی نے کہا ہے کہ اس سکول کی فیس ادا نہیں کرسکتے اس لیئے اب مجھے سرکاری سکول میں داخل کیا گیا ہے۔
میں بہت محنت کرتی ہوں۔ بہت زیادہ پڑھائی کرتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں بڑی ہو  کر ڈاکٹر بنوں،تانکہ لوگوں کی خدمت کرسکوں اور  مجھے سفید گاؤن بہت اچھا لگتا ہے۔
ہماری دیگر رپورٹیں پڑھیں
متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین