گلگت بلتستان جادو کی نگری ہے۔ جہاں پر جانے والے سیاح اس جادو کی نگری کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہاں پر ٹک ٹاکر اور سیاح ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ جن سے نہ صرف مقامی لوگ نالاں ہوتے ہیں مگر ماحول دوست غصے کا بھی اظہار کرتے ہیں۔
حالیہ دونوں میں ایک واقعہ پیش آیا جب ایک ٹک ٹاکر نے گولڈن مارموٹ کے ساتھ اپنی وڈیو بنائی اور اس سے پہلے کچھ سیاح پھل دار درختوں کی ٹہنیاں اورپھل توڑتے پائے گے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں مگر ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔
گولڈن مارموٹ کے ساتھ منظر عام پر آنے والی وڈیو بڑی دلچسپ ہے۔ واضح طو رپر لگ رہا ہے کہ موصوف اپنی وڈیو کو وائرل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ وڈیو ڈیلیٹ کردی گی ہے۔ مگر مختلف لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔ وڈیو کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت تیز بھاگ رہا تھا۔ اتنا کہنے کے بعد بتاتے ہیں میں نے اپنی سپیڈ بڑھائی اور اسے پکڑ ہی لیا۔
سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا یہ زندہ ہے؟
تو ٹک ٹاکرکہتے ہیں کہ ہاں ہلکا سا زندہ ہے، تھوڑا بے ہوش ہے۔ اب مجھے اس سے ڈر بھی لگ رہا ہے۔ یہ کیا چیز ہے؟
اس کے بعد وہ نوجوان اپنے دیکھنے والوں سے کہتا ہے کہ ’آپ کو پتا ہے تو مجھے بھی بتانا۔
اس وڈیو پر ماحولیات اور جنگلی حیات سے محبت کرنے والے لوگ شدید تنقید کررہے ہیں۔
یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسے اور واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ کچھ دن قبل ایک اور وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں سیاح درختوں سے پھل توڑ رہے تھے۔
نقصاں نہ پہچائیں ہم سب ماحول کے مالک ہیں۔
ماحولیات کے لیئے کام کرنے والے ممتاز قانون دان مہدی زمان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بدقسمتی یہ ہے کہ گگلت بلتستان جانے والے سیاح وہاں پر جا کر نہ صرف یہ کہ گند ڈالتے ہیں بلکہ نقصاں بھی پہنچاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے ہمیں اس زیادتی سے بچنا چاہیے۔ ہمیں خیال کرنا چاہیے کہ یہ ماحول، خوبصورت، درخت، پھل پھول، جنگلی حیات گلگت بلتستان ہی کا اثاثہ نہیں بلکہ ہم سب اس کے مالک ہیں۔ ہمیں اس کا خیال رکھنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گولڈن مارموٹ کے ساتھ وڈیو اس کو پکڑنا اور پھر درختوں میں سے پھل توڑنا یہ بداخلاقی کی انتہا ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس پر گلگت بلتستان کے اندر واضح طورپر قوانین متعاف کرونا چاہیے۔ نہ صرف اس پر بلکے گند، کوڑا کرکٹ پھینکنے والوں پر بھی جرمانے ہونے چاہیں تاکہ اس میں کمی پیدا ہوسکے۔
گلگت بلتستان کے مقامی صحافی ارسلان علی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ یہ سیاحوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اگر کوئی سیاح خود کسی باغ سے پھل مانگ لے تو مقامی لوگ ان کو خود توڑ کردے دیں گے۔ مگر جب وہ ٹہنیوں سمیت پھل توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور تورٹے ہیں تو اس سے نا قابل تلافی نقصاں پہنچتا ہے۔ درخت اور پھل ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیئے ایسا نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ سیاح گاڑیوں میں سے کھانے پینے کی ڈبے، پلاسٹک باہر پھینک رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکا گیا ہے۔ گلگت بلتستان تو ماحولیات کے حوالے سے حساس علاقے ہیں یہاں پر پھینکا جانے والا گند، کوڑا کرکٹ ماحولیات کے لیئے زہر قاتل بن جاتا ہے۔ اس لیئے سیاحوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاحت ضرور کریں مگر ماحول کو نقصاں پہچانے والے نہ بنیں۔
ارسلان علی کا کہنا تھا کہ دیوسائی کے علاقے میں اب جانوروں کو پکڑنا اور گند پھینکنا اگریہ یورپ وغیرہ ہوتا تو ابھی تک مذکورہ ٹک ٹاکر کو سزا مل چکی ہوتی ہیں۔
گولڈن مارموٹ کیا ہے؟
گولڈن مارموٹ سارا سال دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ یہ سال کے کچھ عرصے ہی نظر آتے ہیں۔ سردیوں میں سوئے رہتے ہیں۔ گرم موسم میں باہر نکلتے ہیں۔ اسی موسم میں اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ خوراک کھا کر طاقت حاصل کرتے ہیں جو سردیوں میں ان کو توانائی قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
مارموٹ کی کم سے کم 15 اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک سبزی خود جانور ہے جو زیادہ تر صرف گھاس کھاتا ہے۔
مارموٹ عموماً 12000 فٹ کی بلندی پر پایا جاتا ہے جہاں انسانی آبادی نہیں ہوتی۔ یعنی اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ انسانی آبادی سے دور رہتا ہے۔
مارموٹ فوڈ چین کا اہم حصہ ہے۔ یہ ریچھ کا شکار بنتا ہے۔ یہ انسانوں کے لیئے باکل بھی خطرہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کی فلاح کا کام انجام دیتے ہیں۔
دیو سائی اور محفوظ علاقوں میں لاگو قوانین
دیوسائی اور تمام نیشنل پارک کی حدود میں ر وائلڈ لائف لا کا سیکشن 7 لاگو ہے جس کے جانوروں کو ہراساں یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کرنے کی صورت میں دو ہزار روپیہ جرمانہ اور تین ماہ قید ہے۔
وائلڈ ایف ایکٹ 1975 کے تحت نہ تو جانوروں کو پکڑا جا سکتا ہے نہ انھیں ہراساں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح نیشنل پارک کے علاقے میں رہائش نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ وہان کے کسی بھی چیز، درخت، پرند چرند، جنگلی حیات کو بالکل ہی نقصاں نہیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ محفوظ علاقوں کا مقصد یہ ہے کہ جیسا قدرت نے ان کو بنایا ہے وہ اسی طرح محفوظ رہیں۔
ارسلان علی کہتے ہیں کہ ہم ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں آپ قدرت کا نظارہ کرنے ضرور گلگت بلتستان آئیں مگر قدرت کے ان خزانوں کو نقصاں نہ پہنچائیں۔
یہ بھی پڑھیں
کرکٹ ورلڈ کپ: پاکستان انڈیا میچ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا
کیا اعلیٰ تعلیم کے لیئے بین الاقوامی اسکالرشپ چاہیے؟
سر جیمز ایبٹ جاسوس یا فاتح فیصلہ تاریخ پر