قلندر تنولی
پاکستان سٹوریز
پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں کو ضم کرکے تقریبا تمام ہی ریاستوں کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ مگر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاست امب کو ضلع کا درجہ نہیں دیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اپنے وقت کی عسکری، معاشی اور سیاسی قوت ریاست امب کے مکین انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ دعوی تھا صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع مانسہرہ سے پانچ مرتبہ ایم این اے رہنے والے نوابزادہ صلاح الدین سعید تنولی کا۔ میرے ساتھ نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی کی ملاقات تقریبا دو صدیاں قبل ضلع مانسہرہ کے علاقے شیرگڑھ میں سکھوں سے چھینے گئے قلعے میں ہوئی۔ جہاں پہ اس وقت ان کی رہائش ہے۔
نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی اس دیوان میں موجود تھے۔ جہاں پر کبھی ریاستِ امب کے حکمران اپنا دربار لگایا کرتے تھے۔ اس دیوان اور قلعے کی دیواروں پہ سکھ دور میں کیے گیت نقش و نگار کا کام اب بھی موجودہے۔
نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی خود تو کبھی ریاستِ امب جو کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن میں دریائے سندھ کےکنارے پر واقع تھی کہ سربراہ نہیں رہے مگر انھوں نے اپنے بچپن میں اپنے دادا نواب زادہ محمد
فرید خان تنولی اور والد نواب سعید خان تنولی کو امب پر حکومت کرتے دیکھا تھا۔
نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی کا کہنا تھا کہ محمد علی جناح نے تو وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی ریاستوں کو ممکنہ حد تک خود مختاری دی جائے گئی مگر خود مختاری تو دُور ہماری ریاست کو ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور اور تورغر کے اضلاع میں تقسیم کرکے ہماری سیاسی قوت کو بھی تقسیم کردیا۔
نواب زادہ صلاح الدین تنولی کا کہنا تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی کے بڑے کاروباری مراکز اور مختلف ریاستوں اور علاقوں کو آپس میں ملانے والی مرکزی شاہراہیں اب سنساں ہیں۔ہتکہ بنیادی سہولیات جیسے تعلیمی ادارے، روڈ اور بجلی میسر نہیں ہیں۔ جن کے آباؤاجداد نے عروج دیکھا تھا،ان کی نسلیں آج انتہائی غربت اور پسماندگی میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔
امب کی ریاست کیا تھی؟۔
اس کے متعلق ضلع مانسہرہ سے محقق صاحبزادہ جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ مختلف تاریخی حوالوں کے علاوہ انگریز دور کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق امب کی ریاست ہزارہ ڈویژن میں دریائے سندھ کے کنارے پر 1520کلو میٹر اسکوائر پر مشتمل تھی اور اس کی آبادی 48 ہزار نفوس سے زائد تھی۔ اس ریاست کے بڑے حصے اب ضلع ایبٹ آباد، ہریپور، مانسہرہ اور تورغر میں آتے ہیں۔ اس ریاست کا دارالحکومت امب شہر اور بڑا رقبہ اب تربیلہ ڈیم میں آچکا ہے۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کے مطابق ضلع مانسہرہ میں موجود قصبے اوگی، شیر گڑھ، ضلع ہریپور میں بیٹر وغیرہ، ایبٹ آباد میں شیروان تربیلا ڈیم میں آنے والے علاقے دربند وغیرہ اس کے اہم علاقے تھے۔ امب کی ریاست کا بڑا کاروباری مرکز دربند میں تھا۔ وہاں پر اپنے وقت کی بڑی منڈی لگتی تھی۔ اُس وقت وہاں پر چار سو دوکانیں ہوا کرتی تھیں۔
مورخ ہری رام گپتا لکھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیب سنگھ نے اپنے سپہ سالار ہری سنگھ نلوا سے کہا کہ سردار جی ہمیں پتا چلا ہے کہ دربند میں آم کے درختوں پر انتہائی لذیذ آم ہیں،جس پر ہری سنگھ نلوا نے جواب دیا کہ میرے آقا دربند ہمارے بہت بڑے دشمن پائندہ خان تنولی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ علاقہ دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے۔ جہاں پر رسائی کافی مشکل ہے مگر آپ کا یہ تابعدار غلام اس پھل کو آپ تکپہچانے کی پوری کوشش کرئے گا۔
بعد میں دربند سے آم کا پورا درخت دربار لاہور پہنچایا گیا تھا۔
امب کے بارے میں تاریخی حوالے
ٹیکسلا میں موجود پرانی اور تاریخی کتابوں کے لیبریری قائم کرنے والے راجہ نور محمد نظامی جنھوں نے گندھارا، پوٹھواراور ہزارہ ڈویژن کی تاریخ کے حوالے سے ایک بڑی لائبریری اور تحقیقاتی مرکز قائم کررکھا ہے کہ مطابق امب کی ریاست معاشی اور حربی لحاظ سے انتہائی طاقت ور تھی،اس ریاست کی اپنی طاقت ور فوج ہونے کے علاوہ یہ خود اسلحہ سازی کرتے تھے۔
امب کی ریاست کے زیر استعمال کچھ توپیں تو شیرگڑھ کے تاریخی قلعہ میں موجود ہیں اور کچھ کو کمشنر ہزارہ ڈویژن دفتر میں رکھا گیا اس قلعہ کو سکھوں سے ان کے عین عروج کے زمانے میں چھینا گیا تھا۔یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ حربی طور پہ یہ کتنی طاقت ورڈ ریاست تھی۔اس قلعہ پر اب امب کی ریاست کے حکمرانوں کی اولادوں کی رہائشیں ہیں۔
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق یہ ریاست معاشی طور پر بھی بہت مضبوط تھی۔ انگریز دور میں مرتب کردہ ریکارڈ اور مختلف تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ 1901 میں امب کی آمدن 36 سے 42 لاکھ تھی جب ایک تولا سونا کی قیمت بیس روپیہ تھی۔
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق امب کی ریاست کو جاگیرداران تناول بھی کہا جاتا تھا۔ تاریخ میں مختلف حوالوں کے مطابق یہ ریاست 1688 سے لے کر 1969 تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی تھی۔ انگریز دور میں مرتبہ کردہ ہزارہ گزئیٹر میں بار بار اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ تناول یا تنولیاں کے علاقے میں سرکار کو ان سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہیں۔ یہ جنگ جو لوگ ہیں۔ ان کے مشاغل بھی حربی ہیں۔ ان کو فوج اور پولیس میں بھرتی کیا جانا چاہیے۔
تاریخ کے بہت اہم واقعات میں اس ریاست کا ذکر ملتا ہے۔ زیادہ تر تاریخ سکھوں، درانیوں، انگریزوں اور آپس کی جنگ و جدل سے بھری ہوئی ہے۔ اپنے دور کے کئی حکمرانوں کے اس ریاست کے ساتھ اچھے تعلقات بھی رہے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کا دور اس ریاست کے عروج کا دور تھا۔
احمد شاہ ابدالی اور امب کی ریاست
محقق اور امب کی ریاست کے آخری حکمران کے پوتے نواب زادہ جہانداد خان تنولی کے مطابق اس علاقے میں تنولی کیسے اور کب آئے بات ابھی تک راز ہے۔ مگر میں نے شجرہ نسب معلوم کرنے کے لیئے شجرہ نسب تلاش کرنے میں مدد فراہم کرنے والی مشہور زمانہ امریکہ لیبارٹری سے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا تو پتا چلا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہمارا ڈی این اے ٹیسٹ مغربی یورپ سے ملتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی تھوڑا اور ترقی کرئے تو اس بات کا بھی پتا چل جائے کہ تنولی اس علاقے میں کب، کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے کن کن حالات میں پہنچے ہیں۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کا کہنا تھا کہ ہزارہ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں پتا چلا کہ مغربی یورپ سے ہم لوگوں کے آباواجداد اپنی خواتین کے بغیر آئے تھے۔ اس علاقے میں پہنچ کر انھوں نے مقامی خواتین سے شادیاں کی تھیں۔
تاریخ میں بغیر خواتین کے پہچنے کے دو ہی مطلب لیئے جاسکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ ہوسکتا ہے کہ کسی جنگ وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہوں یا پھر کاروبار کی نیت، پھر اس ہی علاقے میں رہائش اختیار کرلی تھی۔
راجہ نور محمد نظامی کا کہنا تھا کہ امب کی ریاست کو زبردست خان تنولی جن کو افغان حکمران احمد شاہ ابدالی نے صوبہ خان کا خطاب دیا تھا میں زبردست عروج حاصل ہوا تھا۔ ہزارہ گزئیٹر، تاریخ ہزارہ کے علاوہ اکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفسیر ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے اپنی کتاب آ پرنسپلی اسٹیٹ میں بھی احمد شاہ ابدالی کی جانب سے زبردست خان کو خطاب دینے کا ذکر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1757 کی متھرا کی جنگ میں زبردست خان تنولی نے احمد شاہ ابدالی کی فوج میں اپنے لشکر کے ہمراہ شمولیت اختیار کی تھی۔ جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے پر احمد شاہ ابدالی نے نہ صرف امب کی ریاست کو تسلیم کیا بلکہ مزید علاقوں پر بھی زبردست خان تنولی کا حق حکمرانی تسلیم کرلیا تھا۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کے مطابق ان کے پاس نسل در نسل چلنے والا احمد شاہ ابدالی کا نہ صرف خط بھی موجود ہیبلکہ وہ زمبروک کہلانے والی بندوق بھی موجود ہے۔ جس کو زبردست خان تنولی کی افواج نے بڑی کامیابی سے استعمال کیا تھا۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ اس دور میں تاجروں کے قافلے امب کی ریاست سے گزر کر کشمیر اور شمالی علاقہ جات جایا کرتے تھے۔ زبردست خان تنولی اور اس کے بعد آنے والے امب کے حکمران ان سے ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔
اس کا ذکر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسیر اور سیاح جارج فارسٹر نے اپنی کتاب بنگال سے برطانیہ تک کے سفر نامے میں کیا ہے کہ زبردست خان تنولی کا بیٹا تجارتی قافلوں پر ٹیکس عائد کررہے تھے۔ اس سے نہ صرف امب کی ریاست معاشی طور پر انتہائی خوشحال ہوئی بلکہ انھوں نے اپنی فوج کو مضبوط کیا۔
ان کا کہنا تھا کئی مشہور اور تاریخی قصبی آباد کیئے۔ جس میں دریائے سرن کے کنارے پر ضلع ہریپور کا مشہور قصبہ بیڑ ہے۔ ان علاقوں کو تجارتی مراکز بنانے کے لیئے کئی ہندووں اور سکھوں کو بھی بسایا گیا تھا۔ جس میں بسنے والے تنولیوں کی اکثریت کو صوبہ خانی بھی کہا جاتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کی جانب سے تجارتی قافلوں پر ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار مستقبل میں کئی جنگوں کا باعث بنا تھا۔
سکھ دور میں علاقی کی واحد مزاحمت
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق زبردست خان تنولی کے بعد امب کی ریاست میں بغاوتیں بھی ہوتی رہیں، چھوٹے بڑے واقعات بھی پیش آئے۔ مگر تاریخ کے بڑے واقعات اس وقت پیش آئے جب سکھوں کے تخت لاہور نے ہزارہ ڈویژن کا رخ کیا تو علاقے میں واحد مزاحمت امب کی ریاست اور اس کی فوج نے کی تھی۔ سکھ ادوار کے دوران 1818 سے کر 1844 تک پائندہ خان تنولی حکمران تھے۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ طاقت ور رنجیت سکھ دور کے اندر پشاور، اٹک، جمرود، مالاکنڈ، ڈی آئی خان، نوشہرہ اور ہزارہ نے تخت لاہور کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ مگر امب کی ریاست اور دریائے سندھ کے اس طرف موجودہ دور کا مردان، صوابی یوسفزئیوں کے علاقوں سے سکھوں کو شدید ترین مزاحمت کا سامنا تھا۔ پائندہ خان تنولی کی طاقت کم سے کم ہوچکی تھی مگر انھوں نے گوریلا جنگ کی صورت میں مزاحمت جاری رکھی تھی۔
1836 میں تخت لاہور کے تاریخ دان سوہن لال سوری لکھتے ہیں کہ پائندہ خان تنولی کی جانب سے دو دہائیوں پر مشتمل مزاحمت پر مہاراجہ رنجیت سنگھ انتہائی غصے کا شکار ہوگئے تھے۔ انھون نے نے اپنے کمانڈر ہری سکھ نلوا کو اس پر اپنی انتہائی ناراضگی کا پیغام بھجوایا تھا۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کہتے ہیں کہ جرنل آف ایسیٹیک سوسائٹی بنگال 1840 کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی کے کیپٹین ایڈورڈ بیری کونولی نے 1839 میں پائندہ خان تنولی سے ملاقات اور انٹرویو کیا۔ اپنے مشاہدات میں کہا کہ پائندہ خان تنولی کے پاس ایک ہزارہ تنخواہ دار فوجی اور تنولی قبیلے کے چار ہزار رضا کار تھے۔ 1836 میں لیفٹینٹ لیچر نے امب کا دورہ کیا اور پایا کہ پائندہ خان تناول کی فوج دو ہزار پیادہ اور پانچ سو گھڑ سوار فوجی ہیں۔
لیفٹینٹ لیچر نے اپنے مشاہدات میں لکھا کہ پائندہ خان تنولی نے فخر سے کہا کہ میں نے چار مرتبہ غازیوں کی فوج کھڑی کی تھی۔ وہ سب کے سب شہید ہوچکے ہیں۔ جس میں سے ہم صرف تین افراد زندہ ہیں۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کہتے ہیں کہ سکھوں نے امب کے علاقے کو فتح کرنے کے لیئے کم از کم 26قلعے تعمیر کیئے تھے۔ جن میں سے کئی تربیلہ ڈیم کے نیچے آچکے ہیں۔ شیرگڑھ کا قلعہ کشمیر فتح کرنے کے بعد 1819 میں ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کیا تھا۔
اس قلعے کی تعمیر کا مقصد تجارتی قافلوں کی کڑی نگرانی اور امب کی ریاست کو قابو کرنا تھا۔ تجارتی قافلے امب کی آمدن کا بڑا زریعہ تھے۔ تنولیوں اور سکھوں کے درمیاں اصل تنازعہ یہ ہی تھا۔
سید احمد بریلوی، سکھ اور ریاست امب
تاریخ دانوں کے مطابق اس دور کا اہم ترین باب سید احمد بریلوی اور ان کی فوج ہے۔ سید احمد بریلوی اسلامی حکومت قائم کرنے نکلے تھے۔ وہ پشاور سے ہوتے ہوئے کشمیر جانے کے لیئے بالاکوٹ پہنچے جہاں پر کئی علاقے ان کے زیرنگین آگے اور کئی قبائل نے ان کی بعیت کے علاوہ سیاسی اتحاد قائم کیئے۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کہتے ہیں کہ یہ 1830 کا دور تھا۔ پائندہ خان تنولی سکھوں کے خلاف پہلے ہی حالت جنگ میں تھے۔ سکھوں کی جانب سے کئی مرتبہ صلح کے لیئے جرگے بیجھے گئے جن کو پائندہ خان نے مسترد کردیا تھا۔ اب جب سید احمد بریلوی کا علاقے میں عمل دخل بڑھا تو یہ براہ راست پائندہ خان تنولی کی بچھی کچھی طاقت پر وار تھا۔
سید احمد بریلوی نے پائندہ خان تنولی کو خط لکھ کر اطاعت قبول کرنے کا کہنا تھا جو کہ پائندہ خان تنولی نے مسترد کردی تھی۔
تاہم نواب زادہ جہانداد خان تنولی کے برعکس کئی تاریخ دانوں کے نزدیک پائندہ خان تنولی نے سید احمد بریلوی کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ کے نزدیک اطاعت کی تھی اور کچھ کے نزدیک اتحاد قائم کیا تھا۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کے مطابق کئی تاریخی حوالوں اور نسل در نسل ہم تک پہچنے والی معلومات کے مطابق پائندہ خان تنولی کے لیئے یہ ایک نازک موقع تھا۔ ابتدائی جھڑپوں کے بعد پائندہ خان تنولی نے خود ہی اپنا دارالحکومت امب کو خالی کردیا تھا۔
سکھ پہلے ہی پائندہ خان تنولی کو صلح کا پیغام دے رہے تھے۔ اس موقع پر پائندہ خان تنولی نے سکھوں سے رابطہ قائم کرکے اپنا دارالحکومت امب کو آزاد کرنے کے لیئے مدد طلب کی تھی۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کے مطابق تاریخ ہزارہ کے پہلے مصنف لالہ مہتاب سکھ کے مطابق ہری سنکھ نلوا نے دربار لاہور سے اجازت کے بعد دو بٹالین فوج بھجوائی جنھوں نے سید احمد بریلوی کو شکست دی تھی۔
تاہم مختلف تاریخ دانوں کے نزدیک پائندہ خان تنولی نے سید احمد بریلوی کی مدد کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا۔ جس وجہ سے سید احمد بریلوی شکست سے دوچار ہوئے۔ نواب زادہ جہانداد خان تنولی اس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں پائندہ خان تنولی نے کبھی بھی سید احمد بریلوی کی مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا۔
سید احمد بریلوی نے پائندہ خان تنولی سے اس کا آخری ٹھکانہ امب بھی چھین لیا تھا وہ کیسے ان کی مدد کا وعدہ کرسکتے تھے۔
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق پائندہ خان تنولی کو سکھ مدد مشروط تھی۔ اس کے بدلے انھوں نے اپنے بیٹے جہانداد خان تنولی کو بحثیت ضمانت رکھوایا تھا۔ جب سید احمد بریلوی کو شکست ہوئی تو پائندہ خان تنولی نے ایک بار پھر سکھوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ لالہ مہتاب سنکھ اپنی کتاب تاریخ ہزارہ میں لکھتے ہیں کہ پائندہ خان تنولی نے اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیئے ضلع ہریپور کے علاقے کرپلیاں میں قائم قلعے پر حملہ کیا۔
یہ جنگ بارہ روز تک جاری رہی۔ اس دوران قلعے کو بچانے کے لیئے پائندہ خان تنولی کے بیٹے جہانداد خان تنولی کو قلعے کے دروازے پر کھڑا کیا گیا مگر پائندہ خان تنولی نے حملے جاری رکھنے کا حکم دیا اور قلعہ فتح کرکے اپنے بیٹے کو بازیاب کروایا تھا۔
نواب زادہ جہاندار خان تنولی کے مطابق علاقے سے سکھ راج کا عملا خاتمہ 1844 میں ہوا جب پائندہ خان تنولی نے بیس سال کی طویل مزاحمت کے بعد شیرگڑھ کے قلعے کو فتح کرلیا تھا۔ تمام سکھوں کو علاقے سے باحفاظت جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
انگریز سرکار اور امب
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق بحثیت مجموعی امب کی ریاست کے انگریز سرکار کے ساتھ تعلقات اچھے رہے تھے۔ اس دوران کوئی بڑے واقعات پیش نہیں آئے کیونکہ انگریز سرکار کو دریائے سندھ کے اس طرف آج کے مردان اور صوابی میں یوسفزئی پٹھانوں سے خطرات لاحق تھے۔ اس صورتحال میں اگر وہ امب کی ریاست کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے تو حالات قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
راجہ نور محمد نظامی کہتے ہیں کہ انگریزوں نے بہت سوچ سمجھ اور پرکھ کر امب کی ریاست کے ساتھ کبھی بھی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی پالیسی بنا رکھی تھی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو شاید ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کردیتے۔
چارلس ایلن اپنی کتاب میں 1852 کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ انگریز سرکاری کے دو اہلکاروں کو کسی نے امب کی ریاست میں قتل کردیا گیا تھا۔ جس پر انگریز امب کے حکمران پائندہ خان تنولی کے بیٹے جہانداد خان تنولی کے پاس گئےاور اس سے کہا کہ اگر ہمیں قاتل نہ دیئے گے تو ہم تمھارے علاقے کو فتح کرکے تمھاری عمل داری ختم کردیں گے۔
چارلس ایلن لکھتے ہیں کہ اس پر جہانداد خان تنولی مسکرایا اور کہا یہ سوچنا بھی مت،تناول کے لوگ جس طرح تم سے نمٹیں گے اس سے قبل تمھارا اس سے واسطہ نہیں پڑا،اس لیئے بہتر ہے کہ بات کرتے ہیں۔
چارلس ایلن کہتے ہیں کہ صورتحال کو سمجھنے کے بعد معاملے کو جرگے کے زریعے حل کیا گیا تھا۔
راجہ نور محمد نظامی کے مطابق تناول سے معاملات طے کرنے کے لیئے کمشنر پشاور کولیفٹینٹ ایچ بی ایڈورڈ کی جانب سے خط لکھا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ ہمیں حالات کو سمجھ کر چلنا ہوگا۔ جہانداد خان تنولی کو امب کی ریاست کسی نے تحفہ میں نہیں دی۔ یہ ریاست جہانداد خان تنولی کے والد پائندہ خان تنولی نے سکھوں سے جنگ لڑ کر حاصل کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر سکھوں نے ریاست کو فتح کرلیا تھا تو ان کے بعد ہم اس کے بلا شریک غیرے مالک ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا سکھ اس علاقے تک پہنچے ضرور مگر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکے اور تناول کے لوگ مزاحمت کرتے رہے یہاں تک کہ سکھوں کو شکست ہوگئی۔
خط میں کہا گیا کہ ان لوگوں سے اچھے تعلقات ہی ہمارے فائدے میں ہونگے۔
پسماندہ رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی
نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی کہتے ہیں کہ میرے والد اور دادا نے محمد علی جناح کو خود خط لکھ کر دعوت دی تھی کہ ہم امب کی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر جس طرح یہ الحاق ہوا، اس ریاست کے باسیوں اور ہمارے ساتھ جو سلوک ہوا وہ نا قابل فراموش ہے۔
جب ریاست ٰختم ہوئی تو اس وقت میری عمر کوئی گیارہ، بارہ سال ہوگی۔ میرے دادا اور والد بھی وفات پاگئے تھے۔ ہمیں اس وقت خرچے کے لیئے ماہوار چند سو روپیہ ملتے تھے۔ ان ہی روپیوں سے میں نے اور میرے بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ ان ہی پیسوں سے ہم 1985 کا الیکشن لڑ کر جیتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ میں پانچ مرتبہ اس علاقے سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا ہوں۔ یہ سارا دورانیہ صرف دس، گیارہ سال بنتے ہیں۔ جس میں دو دفعہ اپوزیشن میں تھا۔ ایسے میں کس طرح میں علاقے کی محرومیوں کو دورکرسکتا تھا۔ اگر ہمارے پالیسی ساز چاہتے تو ریاست کے ضم ہوتے ہی ضلع بنادیتے تو لوگوں کو آج ان محرومیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
نواب زادہ جہانداد خان تنولی کا دعوی ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ریاست کی طاقت اور سیاسی شعور کے سبب سے پالیسی ساز خوفزدہ تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم مستقبل کی سیاست میں کوئی کردار ادا کریں۔ باقاعدہ منصوبے کے تحت ریاست کو ضلع بنانے کی بجائے چار اضلاع میں تقسیم کیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
ضلع کا مطالبہ اور رکاوٹیں
نواب زادہ صلاح الدین سعید تنولی کہتے ہیں کہ تناول کو ضلع بنانے کے حوالے سے اکثر و بیشتر آوازیں اٹھتی رہتی ہے۔ لوگوں کے علاوہ مختلف حکومتوں نے بھی اس بات کو اصولی طور پر تسلیم کیا ہے کہ ضلع ہونا چاہیے۔ مگر جب بھی ایسی کوئی کوشش ٹھوس شکل اختیار کرنا شروع کرتی ہے تو ضلع کے ہیڈکوارٹر میں اس معامل پہ اختلافات ہوجاتے ہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں ترقیاتی کام سرے سے ہوئے ہی نہیں ہیں۔ مختلف دیہاتوں کے لوگوں کو ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ شہر قریب پڑتے ہیں اب وہ کہتے ہیں کہ اگر تناول ضلع کا ہیڈ کوارٹر تناول میں کسی مقام پہ ہوگا تو وہ مسائل کا شکار ہونگیں جس کی وجہ سے ضلع تناول کا قیام اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔
تنولی اتحاد کے ترجمان قاضی نثار احمد خان تنولی کا کہنا ہے کہ ضلع تناول کے قیام میں سیاسی رکاوٹیں ہیں اورمختلف سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے مفادات وابستہ ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ ہر دفعہ ضلع تناول کے قیام میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔
قاضی نثار کے مطابق ضلع تورغر سے لے کر ضلع ہریپور تک تناول کی ساری پٹی جو کہ اس وقت 27 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔ اس پسماندگی کو دور کرنے کا واحد زریعہ ضلع تناول کا قیام ہے۔