بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق پولیس نے بتایا ہے کہ پولیس نے سویڈن کے شہر مالمو میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے پر 10 افراد کو حراست میں لیا ہے۔قران پاک شہید کرنے کے ردعمل میں کئی افراد جمع ہوئے اور کئی کاروں کو نذر آتش کیا گیا۔ جب سلوان مومیکا قران پاک شہید کررہا تھا تو اس وقت
مسلمان مظاہرین کے ایک گروہ نے اس کو روکنے کی کوشش کی جس پر مظاہرین کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا۔ مالمو میں پولیس کی متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔
اس سال قرآن پاک کو شہید کرنے کے کئی واقعات ہوہیں۔ سلوان مومیکا نے عید الاضحیٰ کے پہلے روز سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن کے ایک نسخے کو شہید کیا تھا۔ سویڈش حکومت نے آزادی اظہار رائے کو بنیاد بنا کر سلوان مومیکا کو مظاہرے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ جنوری میں بنیاد پرست پارٹی ہارڈ لائن کے رہنما راسموس پالودان نے سٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے باہر قرآن کا نسخہ شہید کیا تھا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سٹاک ہوم میں پاکستانی صحافی عارف محمود کسانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’سویڈن میں پہلی مرتبہ قرآن کو ملک کے سب سے بڑے شہر مالمو میں 28 اگست 2020 کو شہید کیا گیا تھا۔ ایسا سویڈن کے سیاستدان راسموس پلوڈن نے کیا تھا۔‘
اس کے بعد سنہ 2022 کو ایسٹر کے موقع پر بھی پلوڈن نے سویڈن کے کئی شہروں میں یہ عمل دہرایا۔ 21 جنوری 2023 میں پلوڈن نے ترکی کے سفارتخانے کے سامنے بھی ایساہی واقعہ ہوا تھا۔
سنہ 2023 میں ہی 28 جون کو عین عید الضحیٰ کے روز سویڈن میں سیاسی پناہ لینے والے 37 سالہ عراقی شہری سلوان مومیکا نے بھی سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن کو شہید کیا۔
بی بی سی ہی کی رپورٹ کے مطابق سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار نہ صرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی۔
قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد اس ضمن میں مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے۔
صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ’ان واقعات کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’سویڈن کی موجودہ حکومت ایک واحد بڑی پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت سے برسراقتدار ہے، جس نے گذشتہ انتخابات میں 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے 349 نشستوں والی پارلیمان میں 72 نشستیں حاصل کیں۔
’سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت تھی جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور ایک حد تک، وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں
سرحد پار محبت: رکاوٹیں عبور کرکے حاملہ اہلیہ اور بیٹے سے ملنے انڈیا جانے والا پاکستانی گرفتار
سوشل میڈیا نے ایک سو دس سالہ بابا کی شادی ختم کروا دی۔
کیا آپ پرشنگ اسکوائر اسکالر شپ چاہتے ہیں تو جانیں مکمل معلومات