ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماضلاعبرفانی تیندوا: چار کھالوں کی قیمت تیس لاکھ جبکہ جُرمانہ صرف چار...

برفانی تیندوا: چار کھالوں کی قیمت تیس لاکھ جبکہ جُرمانہ صرف چار لاکھ

قلندر تنولی

صوبہ خیبر پختونخواہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے دعوی کیا ہے کہ اُن کے عملے نے انتہائی نایاب برفانی تیندووں کی چار کھالیں سمگل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ چاروں گرفتار افراد کو حویلیاں ہزارہ ایکسپریس وے سے اسلام آباد جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے وڈیو دیکھیں

محکمہ وائلڈ لائف ایبٹ آباد کے ایس ڈی ایف او سردار نواز نے پاکستان سٹوریز کو بتایا کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ برفانی تیندوا کی خنوط شدہ کھالوں کو سمگل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ جس پر ہم نے اپنے عملے کے ہمراہ ناکہ بندی کر کے چار افراد کو اپنی حراست میں لیا جن کے قبضے سے چار کھالیں برآمد ہوئیں۔

سردار نواز کے مطابق بر آمد ہونے والی کھالوں میں ایک بڑی اور تین چھوٹی کھالیں شامل ہیں۔

photo Imtiaz Ahmad

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں ہمیں ملزمان نے بتایا کہ یہ چاروں کھالیں وہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے علاقے سے لے کر آرہے تھے اور ان کو اسلام آباد پہنچا رہے تھے۔ جہاں پر اُن کو فروخت کرنا تھا۔

سردار نواز کے مطابق ملزمان نے بتایا کہ انھوں نے یہ چاروں کھالیں تیس لاکھ روپیہ میں حاصل کی تھیں جبکہ ان کا پروگرام تھا کہ وہ ان کو اسلام آباد میں مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے۔

سردار نواز کا کہنا تھا کہ محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختونخواہ نے وائلڈ لائف ایکٹ 2015 کے تحت کاروائی کرتے ہوئے چاروں افراد پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ فی کس تقریبا ایک لاکھ روپیہ کردیا ہے۔ جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ملزمان کو رہا کردیا گیا ہے۔

Photo Science library

گلگت بلتستان محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق انھیں واقعہ کی اطلاع مل چکی ہے۔ ابھی وہ اس پر محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختونخواہ سے معلومات حاصل کررہے ہیں۔ جس پر مکمل تحقیقات ہونگیں۔

ماحولیات کے لیئے کام کرنے والے ممتاز قانون دان ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ دنیا میں اگر منشیات کی سمگلنگ کے بعد کسی غیر قانونی کام میں بہت زیادہ پیسہ ہے تو وہ وائلڈ لائف کا کاروبار ہے۔جس کے باعث جنگلی حیات کی معدومیت کا خطرہ ہے،کیونکہ اس کاروبار میں انتہائی بااثر لوگ شامل ہیں۔جو کسی نہ کسی طریقے سے یہ کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Photo Snow Leopard Trust

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کاروبار کو روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ مجرمان کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔صرف محکمہ وائلڈ لائف ہی نہیں بلکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس حوالے سے حساس ہوں تاکہ جنگلی حیات کی معدومیت روکھنے میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کرسکیں۔

ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قانون میں کم سزائیں بھی اس کاروبار سے منسلک افراد کی حوصلہ افزائی کی سبب بن رہی ہے کیونکہ تیس لاکھ کی کھالیں اورجرمانہ صرف چار لاکھ روپے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے،اور اُن کو پتہ ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں معمولی جرمانہ ادا کر کے جلد رہا ہوگے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کے لیے قانون کی گرفت سخت رکھے سخت سے سخت سزائیں نافذ کریں تان کہ ان کی حوصلہ شکنی ہو کیونکہ جنگلی حیات کا کاروبار کرنے والے ماحول کو تباہ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا امیر اور شوقین لوگ برفانی تیندوا جیسے جنگلی حیات کی خنوط شدہ کھالوں کو اپنے ڈرائنگ روموں میں آویزاں کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ جس کے لیئے وہ منہ مانگے دام دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ جس جنگی حیات کی تعداد جتنی کم ہوتی ہے،اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوجاتی ہے۔ برفانی تیندوا کی نسل معدومیت کا شکار ہے۔ ویسے بھی یہ بڑی بلی جیسی دکھتی ہے اور کئی شوقین افراد بڑی بلیوں کی مختلف نسلوں کے لیے بہت پیسے دیتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف گلگت بلتستان کے مطابق اندازوں کے مطابق گلگت بلتستان میں برفانی تیندووں کی تعداد 97 ہوسکتی ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے مختلف اقدامات کے بعد ان کی تعداد میں تھوڑا بہت اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں مختلف ماہرین کی رائے ہے کہ برفانی تیندووں کی تعداد بہتر ہوئی ہے۔

snow leopard foundation

تاہم بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ برفانی تیندوے کی نسل خطرے کا شکار ہیں کہ نہیں۔ سائنس دانوں کے درمیان اختلافات میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب برفانی تیندوں سے متعلق خطرات کی شدت کو معدومیت سے کم کر کے غیر محفوظ ہونے کی تجویز پیش کی گئی۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ برفانی تیندوے اب معدومیت کے خطرے سے باہر ہیں کیونکہ ان کی تعداد 7400 سے 8000 کے درمیان پہنچ گئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اُن افراد کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے جو اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔

اس سے پہلے برفانی تیندووں کی تعداد 3500 سے 7500 کے درمیان بتائی گئی تھی لیکن یہ اعداد و شمار تقریباً 30 برس پرانے ہیں۔

پاکستان میں برفانی تیندوا صرف گلگت بلتستان اور چترال کے علاقوں میں پائے جاتے ہے۔تیندوؤں کی آمجگاہیں بلندوبالا اور برف پوش پہاڑ ہیں۔ یہ بہت کم نظر آنے والا جانور ہے۔

یہ بھی پڑھیں

گلگت بلتستان سیاحت کریں مگر جانوروں اور درختوں کو نقصاں نہ پہنچائیں

ماحول دوست غاروں میں کیسے زندگی بسر ہوتی ہے؟۔

بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین