ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماہم خبریںماحول دوست غاروں میں کیسے زندگی بسر ہوتی ہے؟۔

ماحول دوست غاروں میں کیسے زندگی بسر ہوتی ہے؟۔

قدرتی آفات کے دوران بھی یہ غار محفوظ رہے ہیں۔ سب سے پہلے قیام پاکستان سے پہلے 1876 میں ایک وبائی مرض پھوٹ جانے کے بعد ہندو کالو شاہ نے کھدوائے تھے۔ قدیم دور میں ایک بھورے کی تعمیر پر صرف چار سے پانچ سو خرچ آتا تھا مگر اب یہ خرچ ہزاروں میں پہنچ چکا ہے۔ مزید تفصیل پڑھیں۔

احسن آبدال میں اپنی رہائش گاہ غار کے باہر موجود مکین، فوٹو پاکستان سٹوریز

ماہ گنج محراب

احسن ابدال میں مٹی کے غار پہلی مرتبہ وبائی امراض سے بچاؤ کے لیئے 1876 میں بنائے گے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1950 سے ان غاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2010 کے بعد یہ مقامی لوگوں میں انتہائی مقبول ہوئے ہیں۔ احسن ابدال کے 84گاؤن کے لوگ ان غاروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ انتہائی محفوظ غار ہیں آج تک ان غاروں میں کبھی بھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔

قدرتی آفات کے دوران بھی یہ غار محفوظ رہے ہیں۔ یہ غار بنیادی طور پر مٹی ٹھیلوں کی کٹائی کرکے بنائے جاتے ہیں۔ قدرتی ماحول میں رہنے والے بہت سے مسائل اور بیماریوں سے محفوظ ہیں۔ ہر خاندان نے اپنی ضرورت کے مطابق ان میں کمرے بنا رکھے ہیں۔ ان میں صحن بھی موجود ہیں جہاں پر کچن، باتھ روم، ٹوائلٹ کی سہولتیں ہیں۔

احسن ابدال میں غار میں رہنے والے مکین فوٹو پاکستان سٹوریز

ضلع اٹک کے علاقے احسن ابدال جو کہ اسلام آباد سے چالیس کلو میٹر کی مسافت پر ہے اور احسن ابدال شہر پاکستان بھر کو شاہراہ قراقرم سے ملانے والا ایک اہم علاقہ ہے جہاں سے ایک سڑک صوبہ خیبر پختوں اور دوسری سڑک شاہراہ قراقرم ہزارہ ڈویثرن، شمالی علاقہ جات کے علاقوں کی طرف جاتی ہے۔ احسن ابدال کے قریب کیڈٹ کالج احسن ابدال بالکل سامنے احسن ابدال کے احسن ابدال کے چھوٹے بڑے دیہات ہیں۔ ان دیہاتوں میں مقامی طور پر مٹی کے ٹھیلے یا چھوٹے پہاڑ ہیں اور مقامی لوگوں نے ان مٹی کے ٹھیلوں اور چھوٹے پہاڑوں کو کاٹ کر رہائش کے لیئے غار بنا رکھے ہیں۔

ان غاروں کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام احسن ابدل کے جنرل سیکرٹری ملک شاید نے بتایا کہ انھوں نے احسن ابدال کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب میں پڑ رکھا ہے کہ ان غاروں کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تقریبا دو سو سال پرانی ہے۔ ملک شاید نے بتایا کہ یہ غار سب سے پہلے قیام پاکستان سے پہلے 1876 میں ایک وبائی مرض پھوٹ جانے کے بعد ہندو کالو شاہ نے کھدوائے تھے۔ اس ہندو نے دو غار کھدوائے تھے جس میں ایک میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ رہتا تھا اور دوسرے میں اس کے مال مویشی ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مذکورہ ہندو خاندان اس علاقے کا واحد خاندان تھا جو اس وبائی مرض سے محفوظ رہا تھا۔ اور اس کے مال مویشی بھی محفوظ رہے تھے۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

ملک شاید کا کہنا تھا کہ مٹی کے ان غاروں کو مقامی زبان میں بھورے اور بھورا کہا جاتاہے اور اب اس کو بھرا بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مٹی کا ٹیلہ یا چھوٹا پہاڑ کھود کر بنایاجاتا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ آٹھ میٹر لمبا اور چار میٹر چوڑا ہوتا ہے اور کوئی چھ میٹر لمباہوتا ہے۔ ان کی تعمیر میں اینٹ، پتھر، چونا، سمینٹ وغیرہ کا استعمال بالکل نہیں کیا جاتا ہے۔ قدیم دور میں ایک بھورے کی تعمیر پر صرف چار سے پانچ سو خرچ آتا تھا مگر اب یہ خرچ ہزاروں میں پہنچ چکا ہے کیونکہ بھورے تعمیر کرنے والے کاریگروں کی مزدور تین ہزار روپیہ فی گز تک پہنچ چکی ہے۔ ان بھوروں میں صرف لکڑی کا دروزہ ہوتا ہے اور یہ ایک پاٹ کا چول پر گھومتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اس میں بڑی جدیت آچکی ہے پہلے صرف بھوروں میں صرف کمرے ہوتے تھے مگر اب اس میں باقاعدہ صحن رکھا جاتا ہے اور صحن کے اندر کچن، ٹوائلٹ ہوتے ہیں جبکہ مال مویشیوں کے لیئے الگ بھورے بنائے جاتے ہیں اور ان کو صحن کے ساتھ الگ باڑے میں بھی رکھا جاتا ہے۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

ملک شاید کے مطابق یہ باہر سے دیکھنے والے ان بھوروں کو بہت حقیر اور بہت زیادہ پرانے زمانے کی باقیات سمجھتے ہیں مگر یہ نہ تو حقیر ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ پرانے زمانے کے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندو کے بعد 1885 کے علاقے کے مسلمان جاگیرداروں منیر ولد بہادرا جاٹ،۔ چوہدری عمیر خان بھٹی ولد ولد نواب خان نے مزید بھورے بنوائے تھے جن میں اب ان کے داماد چوہدری سمندر خان 1972 تک نے اپنے استعمال میں رکھے تھے۔ اب یہ ان کی اولاد کے استعمال میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر 1950 میں ان بھوروں کی تعداد پچاس سے زیادہ نہ تھی۔ سنہ دو ہزار تک ان کی تعداد سو سو زیادہ تھی مگر 2010 کے بعد مقامی لوگوں میں زیادہ استمعال ہوا اور اب تقریبا علاقے کے ہر شخص نے اپنا بھورا بنا رکھا ہے جس کی ملکیت میں کوئی مٹی کا ٹیلہ یا چھوٹا پہاڑ موجود ہے "۔

ملک شاید کا کہنا تھا کہ علاقے میں کئی ایک قدرتی آفات آئی ہیں زلزلے آئے، طوفانی بارشیں ہوئیں ان سب آفات میں یہ مٹی کے بورے یا غار محفوظ رہے ان بھوروں میں رہنے والوں کو کبھی بھی کسی قدرتی آفت سے نقصان نہیں پہنچاہے۔

علاقے میں موجود ڈسپنسر جو کہ لائنس یافتہ میڈیکل سٹور چلاتے ہیں اور ڈاکٹر امجد کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں نے بتایا کہ پورے علاقے میں یہ مشہور ہے کہ ان غاروں یا بھوروں میں رہائش پزیر فراد بیمااریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مشاہدے میں بھی یہ بات آئی ہے کہ ان بھوروں میں رہنے والے عمومی طور پر بڑے امراض سے محفوظ ہیں علاقے میں کینسر جیسے مہلک امراض میں بہت کم لوگ مبتلا ہوئے ہیں جبکہ چھوٹوں، بڑوں میں ویسے بھی امراض کم ہے۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

ان کا کہنا تھا مقامی لوگوں کے اندر یہ بات مشہور ہے کہ اس کی وجہ مٹی کے غارہیں۔ احسن ابدال تحصیل ہسپتال کے زرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان علاقوں کے رہنے والے صحت کے حوالے سے بڑے مسائل سے دوچار نہیں ہیں۔

احسن ابدال سے ایبٹ آباد روڈ کی جانب سے بائین جانب ایک لنک روڈ پر ان بھوروں کومٹی کے غاروں کو دیکھنے کے لیئے سفر کاا آغاز کیا تو آدھ کلو میٹر چلنے کے بعد ہی احسن ابدال کے دیہاتوں کا آغاز ہوچکاتھا اور شروع میں انتہائی سر سبز علاقہ سامنے آیا جس میں روڈ کے دونوں جانب کھیتوں میں لوگ اس وقت مٹر، ٹھپر، مولی کے کھیتوں میں کام کررہے تھے اور انھوں نے روڈ کنارے پر بھی تازہ سبزیاں فروخت کے لیئے رکھی ہوئی تھیں۔

مین روڈ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک عظیم الشان مزار سائین کالا خان دربار موجود تھا۔ یہ ایک پختہ مزار ہے جو کہ مٹی کے ٹیلہ پر بنایا گیا ہے مگر اس سے ملحق بلکہ بیسمنٹ میں عظیم الشان بھورے قائم کیئے تھے۔ ان بھوروں کے بارے میں مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ ان بھوروں میں سینکڑوں کی تعداد میں رہائش رکھنے کی کنجائش موجود ہے اور اس مزار پر آنے والے لوگ ان بھوروں ہی میں رہائش اختیار کرتے ہیں بلکہ اس مزار کے پیر ہدایت اللہ کی رہائش بھی ان ہی بھوروں میں تھی۔

ہم جمعہ کو صبح کے نو بجے اس مزار پر پہنچے تھے۔ جب ان بھوروں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو مزار پر موجود ان کے نگرانوں نے دوٹوک انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پیر صاحب سمیت تمام مرید آرام کررہے ہیں اور حفاظتی نقطہ نظر سے خطرناک کتے کھول رکھے ہیں۔ نگرانوں کا کہناتھا کہ جمعرات کی رات پیر صاحب اور ان کے مرید سارے رات محفل میں مصروف تھے اور جب پیر صاحب آرام کررہے ہوں تو ان سمیت کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ نیچے جاسکیں او ران کے آرام میں خلل ڈالیں۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

نگرانوں کا کہنا تھا کہ وہ پیر صاحب خود ہی اٹھ جائیں گے اور ممکنہ طو رپر وہ اپنے بھورے سے شام چار بجے تک باہر بر آمد ہونگے۔

سائین کالا خان کے مزاار کے بھورے دیکھنے میں ناکامی کے بعد ہم نے اپنا سفر جاری رکھا تو سب سے پہلے دو ملحق دیہاتوں سبز پیر اور نکو پہنچا۔ ان علاقوں کو دور سے دیکھا تو یہ دونوں متفرق اور دور دور تک بکھری ہوئی آبادیاں تھیں۔ دور دور تک مٹی کے چھوٹے بڑے ٹیلے موجود تھے۔ ان علاقوں میں پکے مکانات بھی تھے مگر ہر دوسرے پکے مکان یا ایسے پکے مکانات کے مالکاں جو مٹی کے کسی ٹیلے کے مالک تھے انھوں نے بھورا ضرور بنایا ہوا تھا وہ متفرق طور پر ان بھوروں کو استعمال کرتے تھے جبکہ دوسرے جانب ان بھوروں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھے جن میں کئی ایک خاندانوں نے مستقل طور پر اپنی رہائش رکھی ہوئی تھی۔

احسن ابدال کے بھورے یا مٹی کے غار امیروں، غریبوں اور کم آمدن والے افرادکی مشترکہ پسند ہیں۔ ان غاروں میں گرمیوں کے اندر غار ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہتے ہیں۔ امیر لوگوں نے ان غاروں میں ہر قسم کی سہولتیں فراہم کررکھی ہیں جبکہ غریب لوگ ان غاروں میں رہ کر گھروں کو گرم، سرد رکھنے کے اضافی اخراجات سے محفوظ رہتے ہیں۔

انتہائی محفوظ ہیں قدرتی آفات زلزلہ، طوفان، بارشوں میں بھی محفوظ رہے ہیں، کبھی بھی لینڈ سلائیڈنگ کا شکار نہیں ہوئے۔

لوگ دور دراز سے گرمیوں، سردیوں اور بالخصوص رمضان میں چند دن گزارنے کے لیئے آتے ہیں۔ علاقے میں کم از کم پچاس کاریگر ان کو بنانے اور مرمتی کا کام کرتے ہیں۔ احسن ابدال کے ماڈل کو مد نظر رکھ کر ملک میں ایکو ٹورازم کو فروخت دیا جاسکتاہے۔ احسن ابدال میں ایکو ٹورازم کو فروخت دیا جاسکتا ہے۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

ہم نے سبزپیر اور نکو کے علاقے میں پپو شاہ، اصغر اور نور شاہ کے غاروں کا دور کیا تھا۔ پپو شاہ سبز پیر کے علاقے کے انتہائی معزز شخصیت ہیں اور پیشے کے لحاظ سے کاروبار سے منسلک ہیں۔ پپو شاہ کا سبز پیر میں اپنا پکا دو منزلہ مکان ہے جبکہ مکان کے ساتھ ہی ان کا ایک وسیع رقبے پر مٹی کا ٹیلہ ہے جہاں پر انھوں نے بھورے یا غار بنا کررکھے ہیں۔

باہر سے دیکھنے سے یہ پتا چلتاہے کہ یہ ایک عام یا معمولی سا غار ہے مٹی کا ایک بڑا ٹھیلہ ہے اور اس کا ایک دروازہ ہے۔ مگر جب ہم نے اس میں داخل ہوئے تو وہ صرف ایک غار نہیں تھا بلکہ ایک مکمل رہائش گاہ تھی۔ باہر غار کا ایک دروازہ تھا اس میں اندر ہی اندر انھوں نے چار کمرے بنا رکھے تھے۔ جس میں مقامی رسم و رواج کے مطابق ہر کمرے میں ان کی اپنی ضرورت کے مطابق ایک یا دو چارپائیاں تھیں اور ساتھ الماریاں اور ضرورت کے سامان کے لیئے صندوق وغیرہ موجود تھے۔

ان کمروں میں قارپٹ بھی موجود تھے اور یہ انتہائی صاف ستھرے رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے نکو اور سبز پیر کے علاقے میں اصفر اور نور شاہ کے غاروں کا بھی معائنہ کیا تھا۔ اصغر اور نور شاہ کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

اصغر اپنے خاندان کے ہمراہ باجوڑ ایجنسی سے محنت مزدوری کے لیئے علاقے میں منتقل ہوا تھا جبکہ نور شاہ مقامی تھے۔ ان کے غار پپو شاہ کے غار سے تھوڑے مختلف تھے۔ پپو شاہ کے پاس ملکیت میں وسیع و عریض ٹھیلہ تھا انھوں نے ایک دروازہ نکال کر اندر ہی اندر کمرے بنا رکھے تھے جبکہ اصغر اور نور شاہ کے استعمال میں تین کمرے تھے اور ان تینوں کمروں کے باہر ہی سے دروازے تھے اور انھوں نے صحن چھوڑ رکھے تھے۔

اس صحن میں انھوں نے مال مویشی کے لیئے باڑہ بنا رکھاتھا، صحن میں ہینڈ پمپ، کچن اور باتھ روم تھا۔ ان کے غار بھی انتہائی صاف ستھرے تھے ان میں بھی ان کی ضرورت کا سامان موجود تھے۔

ان غاروں کے دورے کے دوران ہمیں ایک فرحت، خوشگوار ماحول کا احساس ہوا۔ احسن ابدال کے علاقے میں دھوپ موجود تھی مگر ان غار میں جاکر کسی قسم کی گرمی یا سردی کا کوئی احساس نہیں ہوا تھا غار کے اندر موسم انتہائی معتدل تھا۔

پپو شاہ نے بات کرتے ہوئے کہاکہ علاقے میں چند سال پہلے تک ان کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا تھا مگر اب جب لوگوں کو ان کی اہمیت سمجھ میں آئی ہے تو یہ مٹی کے ٹھیلے انتہائی قیمتی ہوچکے ہیں۔ اور وہ لوگ جنھوں نے مٹی کو فروخت کردیا تھا اور اپنے ٹھیلے فروخت کردیئے تھے اب افسوس کرتے ہیں جبکہ اب جن لوگوں کے پاس یہ ملکیت میں موجود ہیں وہ ان کی بہت حفاظت کرتے ہیں۔

احسن ابدال میں غار جہاں پر لوگ خوشی سے رہتے ہیں: فوٹو پاکستان سٹوریز

ان کا کہنا تھا کہ پکا مکان بنانا تو یہ سمجھیں کہ مجبوری ہی میں بنایا ہے مگر یہ غار بہت عرصے کئی سال پہلے بنائے تھے۔ اور ہم ان کی بہت زیادہ حفاظت کرتے ہیں اور بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے بچے، گھر والے اپنابہت سا پکے کمروں میں گزارنے کی جگہ پر ان غاروں ہی میں گزارتے ہیں جبکہ ہمارے بچے رات کو ان غاروں ہی میں سوتے ہیں۔ جب سخت گرمیوں کا موسم ہوتا ہے تو ہمارے رشتہ دار دور دراز سے آتے ہیں اور ان غاروں میں کچھ دن گزار کر فرحت حاصل کرتے ہیں جبکہ رمضان کے ماہ میں تو ہمارے پاس بے انتہا مہمان ہوتے ہیں جو چند روزے انتہائی سکون سے رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقے کے انتہائی متمول لوگ بھی ان غاروں میں رہتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ دوسرے شہروں میں کاروبار، ملازمت کے لیئے مقیم ہیں مگر سخت گرمیوں اور رمضان کی گرمیوں میں وہ ان علاقوں میں جاتے ہیں اور ایسے متمول لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے علاقے میں یہ غار حاصل کررکھے ہیں اور اپنے بچوں کے ہمراہ صرف ویک اینڈ گزارنے کے لیئے آتے ہیں۔

نور شاہ کہتے ہیں کہ یہ مٹی کا ٹھیلہ ان کی ملکیت میں ہے اور ان کا علاقے میں کوئی پکا مکان نہیں ہے۔

اصغر کا کہنا تھا کہ وہ ایک مقامی خان کے کھیتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور اس ہی نے یہ غار ان کو رہائش کے لیئے دے رکھا ہے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ یہ خواہش تو ضرور ہے کہ ہمارے پاس بھی پکا مکان ہو مگر یہ بات طے ہے کہ ہمیں اس غار میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے بلکہ ہمارے بہت سے اخراجات جو دوسرے لوگوں کو کرنے پڑتے ہیں کی بچت ہوتی ہے۔

ہمیں بجلی اور گیس کا بل نہیں دیناپڑتا، ہمارے کمروں میں کوئی ہیٹر اور پنکھا نہیں ہے رات کو گرمی ہو یا سردی درمیانے درجے کا لحاف لینا پڑتا ہے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ روشنی کی ضرورت پوری کرنے کے لیئے انھوں نے شمسی توانائی کا سہارا لے رکھا ہے جو ان کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔

پپو شاہ، اصغر اور نور شاہ نے بتایا کہ ان کو کبھی بھی کسی قدرتی آفت میں نقصاں کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ یہ ہر قسم کے قدرتی آفت میں انتہائی محفوظ ہوتے ہیں۔

علاقے کے اندر ان غاروں کو بنانے کے لیئے کم از کم پچاس کاریگر ہیں جو صرف یہ ہی کام کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک کاریگر گل محمد نے بتایاکہ پہلے تو مستری اور مزدور ہی ان غاروں کا بنایا کرتے تھے اور اس کے لیئے صرف بیلچہ استعمال کرتے تھے مگر اب مشنیری کا استعمال کیاجاتا ہے۔ جس وجہ سے ان کو بنانے والے مستریوں او رمزدوروں کی تعداد کم ہوئی ہے مگر اس کے باوجود کے ان کو قائم کرنے کے لیئے اب مشنیری کا استعمال کیا جاتا ہے مگر مستری مزدور کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہر غار کو چار، پانچ سال بعدمرمتی کام کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور کچھ لوگ تو ہر سال ہی اس پر مرمتی کام کرتے ہیں جو کہ صرف بیلچے ہی سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سالوں میں ان غاروں کو بنانے کے ٹرینڈ میں اضافہ ہوا ہے۔

ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے ممتاز وکیل ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ احسن ابدال کے علاقوں کے مٹی کے غار ملک بھر اور بالخصوص ملک کے پہاڑی سیاحتی علاقوں جہاں پر ہر سال سیاحوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیئے مزید تعمیرات کی جاتی ہیں اور جس وجہ سے ان علاقوں میں ماحولیات کو نقصاں پہنچ رہا ہے کے لیئے ایک ماڈل کے طور پر لیئے جاسکتے ہیں۔

احسن آبدال کا علاقہ جہاں پر لوگ آج بھی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیئے کنکریٹ گھروں کے ساتھ مٹی کے غار بناتے ہیں: فوٹو: پاکستان سٹوریز

ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ احسن ابدال کی طرح ملک کے دیگر علاقوں اور سیاحتی مقامات پر اس طرح مٹی کے ٹھیلے دستیاب نہ ہوں مگر ان کو ماڈل کے طور پر لیاجاسکتا ہے اور ان ہی کی طرح ملک بھر میں اس طرح کے اقدامات کیئے جاسکتے ہیں جو کہ ایکو ٹوراازم کو فروخت دیاجاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ احسن ابدال میں ایکو ٹواراز کو فروخت دے، ان علاقوں میں مٹی کے ٹھیلوں اور ان غاروں کو محفوظ کرنے کے اقدامات کرئے اور مقامی آبادیوں کو ساتھ ملا کر علاقے میں سیاحت کو فروغ دے جس سے مقامی طور پر روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔

یہ بھی پڑھیں

دنیا کے سب سے معمر ترین 101 سالہ ڈاکٹر صحت مند رہنے اور دماغ فعال رکھنے کا طریقہ بتاتے ہیں

بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی

کوئٹہ چرچ حملے میں ٹانگ کھو دینے والی طالبہ کی کہانی

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین