پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے جیل میں تین سال قید کی سزا بھگتنے والے سابق وزیر اعظم خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ابتدائی دستیاب اطلاعات کے مطابق مقدمے میں ایکٹ کی شق نمبر پانچ استعمال کی گئی ہے۔
سیکشن 5 کے تحت جرائم اگر عدالت میں ثابت ہو جائیں تو دو سے 14 سال تک قید کی سزا اور کچھ کیسز میں موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے احکام نے باضابطہ طورپر اس کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری اعلامیہ جاری کیا ہے۔ تاہم کچھ باخبر زرائع کا دعوی ہے کہ ایسا کرلیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے انسداد دھشت گردی ونگ اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عمران خان خفیہ دستاویز کے غلط استعمال کیا ہے۔ جس کی انھیں قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔
جنگ اور دی نیوز اخبار نے بھی دعوی کیا ہے کہ عمران خان پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ جنگ اوردی نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انھیں کچھ باخبر سرکاری زرائع نے تصدیق کی ہے کہ مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کا سیکشن 5 خفیہ دستاوزات اور معلومات سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسی کوئی بھی معلومات جو ریاست کو نقصاں پہچانے یا ریاست کی خفیہ معلومات افشا کی جائیں گئیں تو اس کے تحت کاروائی ہوگی۔ اس میں چودہ سال سے لے کر موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف سائفر کیس ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے مجسٹریٹ اور ایف آئی اے کے سامنے بیان دیا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنیسیاسی فائدے اور اپنی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو روکنے کیلئے امریکی سائفر کا استعمال کیا تھا۔
اقبالیہ بیان میں کہا تھا کہ جب انہوں نے سابق وزیر اعظم کو سائفر فراہم کیا تو وہمسرور نظر آئے تھے اور سائفر میں لکھی زبان کو امریکی غلطی قرار دیا۔
اعظم خان کے مطابق عمران خان نے پھر کہا کہ اس کیبل کو اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اعظم خان نے بیان دیا تھا کہ کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سیاسی اجتماعات میں امریکی سائفر کا استعمال کیا جاتا رہا۔ حالانکہ انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اس اقدام سے گریز کریں۔
اعظم خان نے بیان دیا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں عوام کی توجہ غیر ملکی مداخلت کی طرف مبذول کرنے کیلئے سائفر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں