پاکستان میں نگران نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر نے حلف اٹھا کر اپنے فرائض ادا کرنا شروع کردیئے ہیں۔ آئین کے مطابق نگران حکومت کی پہلی ذمہ داری الیکشن کمیشن سے تعاون اور انتخابات میں ہیں۔ مگر ابھی اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے کہ کب انتخاب ہونگے اور کب نہیں ہونگے۔
کیا انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر مختلف حلقے اور حال ہی میں اپنی مدت پوری کرنے والی حکومت کے اہم وزیر نے انتخاب فروری اور مارچ تک جانے کی پیش گوئی کی ہے۔ انتخاب فروری مارچ تک جائیں گے اس کا جائزہ آگے چل کر لیتے ہیں۔ مگر پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ آئین کیا کہتا ہے۔
آئین کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52 میں سے بتایا قومی اسمبلی کی مدت پانچ برس ہے۔ یہ مدت ہ قومی اسمبلی کی ہے جس کا آغاز ہر پانچ سال بعد الیکشن کے بعد ہوتا ہے۔ یہ مدت پوری ہونے اگر اسمبلی تحلیل نہ کی جائے تو خودبخود تحلیل ہو جاتی ہیں۔
اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوں تو پھر انتخابات ساٹھ روز میں کروانا لازمی ہیں۔
آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔
انتخابات میں تاخیر کے ممکنہ قانونی جواز
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق ’الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 51 کی ذیلی دفعہ 5 کے تحت ازسرنو حلقہ بندیاں کروانا ہوں گی اور نئی حلقہ بندیوں کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری ہوگا۔ یہ آئینی پابندی ہے۔
کنور دلشاد کے مطابق الیکشن کمیشن چار مہینے کے دوران حلقہ بندیاں کروا پائے گا اور اس سے زیادہ جلدی شاید ممکن نہیں ہو پائے گا۔
ماہرین اس جواز کو بڑا مضبوط سمجھ رہے ہیں کہ سابقہ حکومت نے اپنے آخری دونوں میں نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے جو کونسل آف کامن انٹرسٹ کے حالیہ اجلاس میں دی گئی۔ اس منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے تزہ تخمینے کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات تاخیر کا شکا رنہیں ہوسکتے ہیں۔ نگران وزرائے اعلی کو بٹھا کر مردم شماری کی منظوری دینا کا طریقہ کار ہی غلط ہے
انتخابات کب ہونگے
پہلے ہی انتخابات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ انتخابات ممکنہ طور پر فروری، مارچ میں ہوسکتے ہیں۔
سابقہ حکومت کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کئی مرتبہ میڈیا کے سامنے یہ کہہ چکے ہیں الیکشن سال مارچ کے مہینے میں ہو سکتا ہے۔
ایک بار پھر انھوں نے جیو نیوز کے ٹاک شو آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں کہا کہ پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو بھی فروری 2024ء میں الیکشن کا پورا یقین ہے۔ انتخاباتاکتوبر میں ہوتے تو نواز شریف اب تک واپس آچکے ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کیلیے ستمبر یا اکتوبر مناسب وقت ہے لیکن وہ کب آئیں گے۔ یہ اعلان قائد خود کریں گے۔
بیرسٹر ظفر اللہ جیسے ماہر آئین اور قانون کا بھی خیال ہے کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 254 کے مطابق الیکشن لیٹ بھی ہوئے تو بھی یہ درست عمل ہو گا خلاف قانون نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
دنیا کے سب سے معمر ترین 101 سالہ ڈاکٹر صحت مند رہنے اور دماغ فعال رکھنے کا طریقہ بتاتے ہیں
جرمنی میں ملازمت، رہائش کے وسیع مواقع سے کیسے فائدہ اٹھائیں؟
کوئٹہ چرچ حملے میں ٹانگ کھو دینے والی طالبہ کی کہانی