ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
ہومٹاپ اسٹوری70 لوگوں کا قاتل، عاطف زمان کا 'عاطی لاہوریا' اور 'قصاب' کہلائے...

70 لوگوں کا قاتل، عاطف زمان کا ‘عاطی لاہوریا’ اور ‘قصاب’ کہلائے جانے تک کاسفر

محمد نوید خان

سال 2017 میں عاطف زمان عرف عاطی لاہوریا کو ہنگری کی پولیس نے گرفتار کیا تو اس وقت ہنگری اور یورپی اخبارات نے بڑی سرخیاں شائع کیں کہ ہنگری میں پاکستانی قصاب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ہنگری اور یورپ کے اخبارات نے بتایا کہ عاطی لاہوریا کی ہنگری میں داخل ہونے کی اطلاع آسٹریا کی پولیس نے ہنگری پولیس کو دی تھی جس کے بعد اس کے خلاف جاری ہونے والے بین الاقوامی ریڈ پول وارنٹ کی بنیاد پر ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ہنگری کی پولیس نے عاطی لاہوریا کو گرفتار تو کر لیا مگر اس کو پاکستان لانے کئی برس لگ گئے تھے اور پاکستان میں وہ کم از کم 70 افراد کے قتل کے مقدمات میں مطلوب تھا جب کہ دیگر جرائم اس کے علاوہ تھے۔ عاطی لاہوریا  کی گرفتاری کے لیے پنجاب پولیس کی خصوصی ٹیم یورپ میں بھی اس کا تعاقب کر رہی تھی۔

عاطی لاہوریا نے ایک دور میں پنجاب کی پولیس کو تنگی کا ناچ دیا تھا۔ سفاکی میں اس کی مثالیں دی جاتیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عاطی لاہوریا سے زیادہ خطرناک گینگسٹر شاید ہی کوئی ہو۔

عاطی لاہوریا نے کن کن لوگوں کو اور کیوں قتل کیا تھا اس بار ے میں آگے چل کر دیکھتے ہیں پہلے یہ دیکھیے کہ عاطی لاہوریا تھا کون؟

5 کروڑ روپے دیت، کارساز حادثے میں جاں بحق باپ بیٹی کے لواحقین کا ملزمہ نتاشا کے ساتھ معاہدہ

عاطف زمان سے عاطی لاہوریا

عاطی لاہوریا گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنے جرائم کا آغاز گوجرانولہ ہی سے کیا تھا مگر اس کے آبا و اجداد کا تعلق لاہور سے تھا۔ جس وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ لاہوریا لگانا پسند کرتا تھا۔ جرائم کی دنیا میں وہ بچپن ہی سے آ گیا تھا۔ پہلی مرتبہ صرف 16 سال کی عمر میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جیل گیا۔

کہتے ہیں نا کہ جیلیں اصلاح خانے نہیں بلکہ جرائم سکھانے والی تربیت گاہیں بن چکی ہیں۔ ایسا ہی کبھ عاطف زمان کے ساتھ ہوا۔ جب وہ  جیل گیا تو وہ عاطف زماں تھا اور جب جیل سے رہا ہوا تو وہ عاطی لاہوریا بن چکا تھا۔ جیل میں کچھ ایسے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ اس کا رابطہ ہوا جنھوں نے اس کو ایک کینگسٹر بنا دیا تھا۔

پولیس ریکارڈ اور عاطی لاہوریا کے حجاننے والوں کے مطابق جیل سے رہائی کے چند سال بعد عاطی لاہوریا ایک خوفناک منظم گینگ کا سرغنہ بن چکا تھا۔ بنیادی طور پر عاطی لاہوریا کرائے کے قاتلوں کا گینگ چلاتا تھا۔ جس میں اس کے ساتھ کئی سفاک اجرتی قاتل اور شوٹر موجود ریتے تھے۔

اس کا رعب اور دبدبہ پورے پنجاب میں پھیل چکا تھا، لوگ اس سے ڈرنے لگے تھے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق پہلی مرتبہ پولیس نے عاطی لاہوریا اور اس کے گینگ پر سنجیدگی سے توجہ سال 2011 میں دی جب 5 افراد کو نا معلوم افراد نے قتل  کر دیا تھا۔ یہ بڑا واقعہ تھا اس کی تفتیش جب جدید انداز میں ہوئی تو پتا چلا کہ اس کے پیچھے عاطی لاہوریا اور اس کا گینگ ہے۔

پنجاب میں کم عمر طالبات کے ساتھ زیادتی کرنے والا سیریل ریپسٹ گرفتار

عاطی لاہوریا کو قتل کی سپاری مقتولین کے دشمنوں نے دی تھی۔  یہ کوئی ایک سپاری خوفناک قتل کی واردات نہ تھی بلکہ اس کے بعد عاطی لاہوریا کا گینگ تاجروں سے بھتے مانگتا، پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دیتا تھا۔

پولیس اہلکار بھی نشانہ بننے لگے

پولیس ریکارڈ کے مطابق سال 2011 میں جب پولیس 6 افراد کے قاتل عاطی لاہوریا کو گرفتار کرنے کی اور اس گینگ کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی تو اس وقت ایک اور خوفناک واردات ہوئی جس نے پولیس کو ہلا کررکھا دیا۔

پولیس کی جانب سے خصوصی تفتیش ٹیم قائم کی گئی تھی۔ اس میں پولیس کانسٹیبل محمد نسیم بھی شامل تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد نسیم کو عاطی لاہوریا اور اس کے گینگ کے حوالے سے کافی معلومات دستیاب ہوئی تھیں جس پر عاطی لاہوریا کے گینگ کے شوٹر مہران عرف چندو نے محمد نسیم کی ٹارکٹ کلنگ کر دی تھی۔

پنجاب اور پاکستان بھر میں پولیس والوں پر ہاتھ اٹھانا عموماً ریڈ لائن کی تمام حدیں پار کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے جبکہ یہاں تو عاطی لاہوریا گینگ کے ہاتھوں پولیس اہلکار قتل ہوچکا تھا۔ مگر پولیس عاطی لاہوریا تک نہیں پہنچ پا رہی تھی بلکہ وہ مزید طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔

تاجر بھی نشانہ بننا شروع لگے تھے

عاطی لاہوریا اب صرف کرائے کا قاتل ہی نہیں رہا بلکہ اس نے بھتہ وصول کرنا بھی شروع کر دیا تھا۔ تاجروں کو بھتے کی پرچیاں بھجنا اور رقم وصول کرنا معمول بن چکا تھا۔

گوجرنوالہ کے ایک تاجر ملک حنیف کھوکھر کی جانب سے بھتہ نہ دینے پر ان کو دن دھاڑے قتل کردیا گیا۔ اس کے چند سال بعد ایک اور تاجر کاشف شہزاد کو قتل کردیا گیا جبکہ اس سے پہلے کاشف شہزاد کے والد کو بھی بھتہ نہ دینے پر قتل کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ڈرانے دھمکانے کے لیے کئی لوگوں کے گھروں پر فائرنگ ہوئی۔ کچھ کی ٹانگوں میں گولیاں ماری گئی تھیں۔

بچوں کو بچانے کیلئے 100 فٹ گہرے کنویں میں کودنے والا پلمبر بچوں سمیت شہید

اب پولیس پر بے انتہا دباؤ آچکا تھا۔ سال 2016 پولیس کو واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ عاطی لاہوریا کی عدم گرفتاری پولیس افسران کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

عاطی لاہوریا ملک چھوڑ کر فرار

گوجرانولہ پولیس نے خصوصی اقدامات کیے اور وہ عاطی لاہوریا کے بالکل قریب پہنچ گئی تھی۔  یہ طلاع عاطی لاہوریا تک بھی پہنچ رہی تھیں جس پر وہ ملک چھوڑ کر متحدہ عرب امارات فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کا گینگ اب بھی سر گرم تھا اور اس نے گینگ کو بیرونی ملک بیٹھ کر چلانا شروع کردیا تھا۔

عاطی لاہوریا خود بیرون ملک فرار ہوگیا مگر اس کا گینگ بہت مضبوط ہو چکا تھا اس کو غیر قانونی طریقے سے رقوم منتقل کی جاتیں۔ اس کی سفاکی میں بھی اضافہ ہوچکا تھا۔

یہاں تک کہ عمران نامی ایک تاجر نے طلب کردہ رقم سے چند ہزار کم دیے تو اس کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ اس واردات پر گوجراانولہ میں احتجاج شروع ہوگیا اور حکومت کے لیے مسائل پیدا ہوچکے تھے۔

پنجاب پولیس نے عاطی لاہوریا کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے مدد حاصل کی مگر عاطی لاہوریا نے بیرون ملکک بیٹھ کر وہاں بھی رابطے استوار کر لیے تھے۔

متحدہ عرب امارات سے فرار

پنجاب پولیس نے انٹرپول کے تعاون سے متحدہ عرب امارات میں عاطی لاہوریا کے ٹھکانے تلاش کر لیے تھے جبکہ اماراتی پولیس بھی انٹرپول سے تعاون کر رہی تھی۔ اس موقع پر عاطی لاہوریا متحدہ امارات سے ترکی فرار ہو گیا۔

یہ فرار ثابت کر رہا تھا کہ عاطی لاہوریا کے رابطے پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں تک تھے۔ عاطی لاہوریا ترکی سے ہوتا ہوا رومانیہ، بوسنیا اور وسطی یورپ پہنچ چکا تھا۔

پنجاب پولیس انٹرپول کے تعاون سے  پاکستان میں اس کے رابطوں کے ذریعے اس کی لوکیشن کو ٹریس کر رہی تھی اس میں ان کو کامیابی بھی مل رہی تھی۔ مگر وہ ہر جگہ چھاپے سے پہلے فرار ہو جاتا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ چھلاوہ بن چکا ہو۔

ملزم نے پولیس سے بچنے کے لیے سربیا کا رخ کیوں کیا؟

پنجاب پولیس کے خالد واریا اور ان کے ساتھی عاطی لاہوریا کے تعاقب میں تھے۔ پولیس کے مطابق ملزم کو اس کی پیشگی اطلاع مل جاتی تھی۔ کئی ممالک میں انٹرپول کی مدد سے اس کی گرفتاری کے لیے کیے جانے والے ریڈ سے پہلے ہی وہ وہاں سے فرار ہو چکا ہوتا تھا۔

پولیس سے بچنے کے لیے عاطی لاہوریا نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں اس کے خیال میں گوجرانوالہ پولیس کے لیے اس کے تعاقب میں آنا ممکن نہیں تھا۔ وہ جب سربیا میں پہنچا تو سربیا – ہنگری کے سرحدی علاقے کا رخ کیا۔

ہنگری کی سرحد سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں دنیا بھر سے غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ تھا۔ وہ یہاں سے ہنگری یعنی یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تاہم ان کے راستے میں ایک طویل اور پر خطر جنگل آتا تھا جو انھیں عبور کرنا پڑتا۔

پولیس کے مطابق اس علاقے میں ان کی گرفتاری کے لیے آپریشن کرنا ناممکن تھا۔ ایس او سی کے انچارج خالد واریا نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی اطلاعات کے مطابق عاطی لاہوریا اسی راستے سے ہنگری اور پھر آسٹریا جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

’ان کو ڈھونڈنے کے لیے 8 تارکین وطن کے گروہوں میں شامل ہوا‘

خالد واریا اور ان کے ساتھیوں نے ابتدا میں آسٹریا پہنچنے پر عاطی لاہوریا کی گرفتاری کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ صحیح وقت پر اس بات کا علم ہو پائے کہ وہ کب اور کس طرح ہنگری میں داخل ہوگا ورنہ ان کو گرفتار کرنے کے مواقع ختم ہو سکتا تھا۔

تاہم مشکل یہ تھی کہ سربیا میں عاطی لاہوریا کو کیسے تلاش کیا جائے۔ اس کو تلاش کرنے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ اتنا علم تھا کہ انسانی سمگلروں کی مدد سے کسی گروہ کے ساتھ سرحد عبور کرنے کی کوشش کرے گا۔

صدر ایوب کو فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ ڈلوانے والا پاکستان کا رابن ہڈ

اس کے تعاقب میں خالد واریا نے بھی سربیا کے اسی سرحدی گاؤں میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سے انسانی سمگلر گروہوں کی صورت میں تارکینِ وطن کو سرحد پار ہنگری پہنچاتے تھے۔

’ان کو ڈھونڈنے کے لیے میں تقریباً 8 ایسے مخلتف گروہوں میں تارکِ وطن کے طور پر شامل ہوا۔ جب وہ اس ایک گروہ میں نہیں ملتا تھا تو میں ایک دن بعد اس کو چھوڑ دیتا تھا۔‘

’جگہ جگہ کھوپڑیاں اور ڈھانچے پڑے تھے‘

بالآخر 9ویں مرتبہ خالد واریا کو کامیابی ملی۔ ایک گروہ میں عاطی لاہوریا انھیں مل گیا تاہم گوجرانوالہ پولیس کے افسر کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ جس جنگل سے گزریں گے وہ کیسا پوگا۔

ان کے مطابق وہاں نہ صرف بارڈر گارڈز کا خطرہ تھا جو انھیں نشانہ بنا سکتے تھے یا پھر جرائم پیشہ افراد سے بھی سامنا ہو سکتا تھا۔ جنگل کی سختیاں اس کے علاوہ تھیں۔

’ہم نے 6 دن اس جنگل میں گزارے جس میں 4 دن مسلسل بارش ہوتی رہی۔ جنگل میں جگہ جگہ مجھے انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے پڑے نظر آئے۔ جو یہاں مر جاتا اس کی لاش وہیں چھوڑ دی جاتی تھی۔ جرائم پیشہ افراد سے سامنا ہونے کا خطرہ اس کے علاوہ تھا۔‘

خالد واریا کے مطابق یہ 6 دن ان کے تمام تر آپریشن کے کٹھن ترین دن تھے۔ سونے کے لیے جگہ اور موقع کم ملتا تھا اور گروہ کے اندر جرائم پیشہ افراد بھی شامل تھے۔

ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد

پولیس نے خود تعاقب کا فیصلہ کیا۔

عاطی لاہوریا آگے آگے اور پنجاب پولیس، انٹرپول پیچھے پیچھے تھی۔ مگر کامیابی نہیں مل رہی تھی۔  اس دوران پنجاب پولیس نے فیصلہ کیا خصوصی ٹیم بذات خود عاطی لاہوریا کا تعاقب کرے گی اور اس کو انٹرپول اور مقامی ملک کی پولیس کی مدد سے گرفتار کیا جائے گا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق عاطی لاہوریا نے پولیس سے بچنے کے لیے مختلف ممالک کے سرحدی علاقوں کا انتخاب کیا تھا۔ وہ آسڑیا، ہنگری، کی سرحد پر غائب ہوجاتا تھا۔ وہ سربیا کی طرف بھی نکل جاتا، ایسے میں پنجاب پولیس نے اس وقت ایک چال چلی جب اس کو اطلاع ملی کہ اب عاطی لاہوریا آسڑیا سے ہنگری میں داخل ہوسکتا ہے تو انھوں نے ہنگری کی پولیس کو اطلاع فراہم کروائی کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث گروپ ہنگری میں داخل ہو رہا ہے۔

اس اطلاع کو آسڑیا کی پولیس تک پہنچا دیا گیا اور آسڑیا کی پولیس نے یہ اطلاع ہنگری کی پولیس کو بھی فراہم کی تھی۔

11 پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے والا اندھڑ گینگ کیا ہے اور کیسے وجود میں آیا؟

ہنگری کی پولیس اس پر پوری طرح چوکس ہوگئی اور جب عاطی لاہوریا ہنگری میں داخل ہوا تو اس کو ہنگری کی پولیس نے گرفتار کر لیا اور ابتدائی طورپر کہا گیا کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث گروپ گرفتار کیا گیا  مگر گرفتاری کے بعد ہنگری کی پولیس کو بتایا گیا کہ یہ پاکستان کو مطلوب انتہائی خطرناک مجرم ہے۔

مگر اب خطرناک اور چالاک مجرم کے ساتھ قانونی جنگ تھی جو قانون کو اچھی طرح جانتا اور اس کو مقامی نامور وکلاء کی مدد بھی حاصل تھی۔

طویل قانونی جنگ

ہنگری میں عاطی لاہوریا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان میں کوئی جرم کیا جبکہ اس کی جان کو پاکستان میں خطرہ ہے کیونکہ اس سے پہلے اس کے بھائی کو بھی پولیس نے حراست کے دوران قتل کر دیا تھا۔

عاطی لاہوریا نے اس دور کے کچھ اخباری تراشے ثبوت کے طور پر بھی فراہم کیے کہ وہ اس کا بھائی ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا اور یہ کہ اس کے ساتھ بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔

عاطی لاہوریا نے ساتھ میں یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ اس نے یورپ میں کوئی جرم نہیں کیا اور اس کو رہا کرکے تحفظ بھی فراہم کیا جائے۔

اس موقع پر پنجاب پولیس نے اس کی ریکارڈ کی ہوئی مختلف کالیں عدالت میں پیش کیں جس میں وہ اپنے ساتھیوں کو قتل کی ہدایات دے رہا تھا۔ ایک کال ایسی بھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس اس کے تعاقب میں یورپ آئی تو وہ ان کو بھی قتل کر دے گا۔

اس کال نے عدالت کو قائل کرنے میں مدد دی کہ اگر عاطی لاہوریا کو چھوڑا گیا تو پاکستان میں فساد پیدا کرسکتا ہے اور یہ جرائم پیشہ ہے جو یورپ اور ہنگری میں بھی انتشار پیدا کرسکتا ہے۔

ہنگری کی عدالت نے عاطی لاہوریا کو جیل میں رکھنے کا فیصلہ کیا تو شاطر مجرم نے یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔

یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں پنجاب پولیس نے عدالت کو پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے، قتل کی منصوبہ بندی کرنے کے ٹھوس ثبوت دکھائے تھے۔ جس کے بعد پاکستانی سفارت خانے سے ضمانت طلب کی گئی کہ عاطی لاہوریا کو پاکستان میں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کو عدالتوں میں پیش کر کے صفائی کا موقع دیا جائے گا۔

کیا انقلابی بھگت سنگھ عشق میں مبتلا تھے؟

یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت سے بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ ہونے کے بعد عاطی لاہوریا کو گوجرانوالہ لایا گیا۔ جہاں پر اس کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ اس سارے عمل میں 4 سال لگ گئے تھے۔

عاطی لاہوریا گینگ کے تمام ارکان کو پکڑ لیا گیا تھا یا وہ پولیس مقابلوں میں مارے گئے تھے۔ عاطی لاہوریا لاہور، سیالکوٹ، گجرات اور دیگر اضلاع کی پولیس کو بھی مطلوب تھا۔  میڈیا کے سامنے پیش کر کے کہا گیا تھا کہ عاطی لاہوریا اور اس کے ساتھیوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

مگر عدالت میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ پولیس کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ عاطی لاہوریا نے عدالت پیشی کے موقع پر بھاگنے کی کوشش اس کے ساتھیوں نے پولیس ٹیم پر فائرنگ کی اور جوابی کاروائی  میں مارا گیا۔

متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول ترین