پیر, جون 23, 2025
ہومپاکستانایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی...

ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد

محمد نوید خان

سال 2016 کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ بین الاقوامی قوال امجد صابری کو کراچی میں قتل کردیا گیا اور ملزماں فرار ہوگئے تھے۔ اس اطلاع نے پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس وقت مزید ہلا کررکھ دیا جب اس وقت کے تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسوس گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ قوال امجد صابری نے توہین مذہب کی ہے۔

واضح رہے کہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فرقہ ورایت کی لڑائی بھی عروج پر تھی اور اس کا بڑا مرکز کراچی ہی تھا۔

تحقیقاتی ادارے قوال امجد صابری کے قاتلوں کی کھوج میں لگ گئے اور اس کے کچھ عرصہ بعد دعوی کیا گیا کہ قوال امجد صابری کے قتل میں 2 ملزمان عاصم عرف کیپری اور اسحٰاق عرف بوبی کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر کئی سال بعد کہا گیا کہ حافظ قاسم رشید بھی اس میں ملوث ہیں۔

بجلی کا بل ادا کریں یا بچوں کی ایم ڈی کیٹ فیس؟ والدین کا سوال

حافظ قاسم رشید کو کیسے اور کب گرفتار کیا گیا، یہ ہم آگے چل کر دیکھتے ہیں مگر پہلے نظر ڈالتے ہیں کہ حافظ قاسم ہیں کون؟

حافظ قاسم رشید کون ہیں؟

کراچی میں مختلف تحقیقاتی رپورٹ، کراچی پولیس کی تفتیش اور دیگر زرائع کے مطابق حافظ قاسم رشید کراچی کے علاقے تین تلوار میں کراچی میٹرو پولیٹن کے سرونٹ کوارٹرز میں 17 اپریل 1979 کو ضلع ایبٹ آباد کے علاقے قلندر آباد کے گاؤں سیال سے تعلق رکھنے والے تنولی قوم کے عبد الرشید کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی مادری زبان ہندکو ہے۔

کراچی کے بازار حسن کے گمشدہ اوراق، بابرا شریف اور امریکی و برطانوی سیاح

کراچی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1991 میں تین سال کے عرصے میں لاہور کے مدرسے میں قران پاک حفظ کیا۔ واپسی پر وہ رہائش کیلئے کراچی کے علاقے ہجرت کالونی منتقل ہوگئے تھے۔

تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق حافظ قاسم رشید کی 1997 میں سلطان آباد کے علاقے کے ایک امام مسجد سے ملاقات ہوتی ہے اور یہیں سے ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔

حافظ قاسم رشید کو ایک بڑی مسجد کے امام سے ملوایا جاتا ہے جنھوں نے ان کو جہاد کی دعوت دی۔ انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی اور پھر وہ کشمیر کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم لشکر طیبہ کے دفتر لاہور پہنچ گئے۔

2 لاکھ روپے کلو مچھلی

حافظ قاسم نے افغانستان میں ابتدائی تربیت حاصل کی اور پھر واپس کراچی پہنچ گئے۔

کشمیر اور افغاستان کا رخ 

حافظ قاسم رشید اب تربیت یافتہ تھے اور سمجھتے تھے کہ اب انھیں عملا کچھ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں جہاد پر بھیجا جائے۔

تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق وہ انڈین فوج سے لڑنے کشمیر جا پہنچے جہاں پر وہ تقریبا 6 ماہ تک رہے۔ ابھی نئی صدی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

کشمیر سے واپسی پر انھوں نے میٹرک کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور 2001 میں میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد ایک بار پھر جہاد کی عرض سے روانہ ہوئے اور اس مرتبہ ان کی منزل قندھار، افغانستان تھا۔

اب حافظ قاسم رشید طالبان کے ساتھ مل کر جہادی سرگرمیوں میں شریک ہوئے اور یہاں ہی سے ان کا رابطہ جیش محمد کے ساتھ ہوا۔

عمان امام بارگاہ حملہ: بہادر چچا نے سینے پر گولیاں کھا کر بھتیجوں کو بچالیا

جیش محمد اور طالبان افغانستان کے ساتھ مل کر وہ امریکہ کے خلاف جہادی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

یہ وہ دور تھا جب امریکی فوج نے اپنی کاروائی میں تیزی پیدا کی تو حافظ قاسم رشید واپس قلندرآباد ایبٹ آباد پہنچ گئے اور وہاں سے دوبارہ کراچی پہنچے۔

اب حافظ قاسم کے کالعدم سپاہ صحابہصا سے رابطے ہوچکے تھے۔ وہ کراچی کے ناگن چورنگی میں سپاہ صحابہ کے دفتر آتے جاتے تھے۔

عبداللّہ الیاس عرف تیمور, تصویر بشکریہ پولیس ذرائع

یہ وہ دور تھا جب فرقہ واریت میں ملوث شدت پسند تنظیموں نے افغانستان سے نکل کر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنی نئی پناہ گاہیں تلاش کرلی تھیں۔ پاکستان کے اندر بھی مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیاں جنگ کا سا سماں تھا۔ انھیں ان تنظیموں میں پناہ مل رہی تھی۔

مگر یہ حالات زیادہ عرصہ قائم نہیں رہے اور پرویز مشرف کی حکومت کو ان کے خلاف کاروائیاں کرنا پڑیں۔

پہلی گرفتاری پر حافظ قاسم رشید کا کھڑاک

ریکارڈ کے مطابق حافط قاسم رشید کو پہلی مرتبہ کراچی کے کرائم انویسٹی گیشن نے 2002 میں گرفتار کیا تھا۔

حافظ قاسم رشید کی پہلی گرفتاری اور ان سے تفتیش اس دور کے کئی پولیس افسران اور اہلکاروں کو یاد ہے۔

جب حافظ قاسم رشید کو ہتھکڑیاں لگا کر تفتیش والے کمرے میں لے جایا گیا تو انھوں نے پولیس کے سپاہیوں پر حملہ کردیا۔ میز پر موجود شیشے کو توڑا اور اس کو ہتھیار بنا کر پہلے ایک سپاہی کو زخمی کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس کو رہا نہ کیا گیا تو اپنا گلا کاٹ لے گا۔

بھرحال حافظ قاسم رشید کو کسی نہ کسی طرح قابو کر ہی لیا گیا تھا۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حافظ قاسم رشید اس وقت تک کسی بھی پر تشدد سرگرمی میں ملوث نہیں تھے مگر شدت پسندوں کے ساتھ مل کر ریکی وغیرہ کا کام کرتے تھے۔

تفتیشی رپورٹ کے مطابق پہلی گرفتاری کے 6 ماہ بعد کوئی بھی ثبوت دستیاب نہ ہونے پر باعزت رہا کر دیا گیا تھا۔

ان کی دوسری گرفتاری 2003 میں ہوئی کچھ عرصہ جیل میں رہے اور پھر رہا ہوگئے جس کے بعد سپاہ صحابہ کے ساتھ قریبی روابط استوار ہوئے اور ان کی ملاقات عبداللہ الیاس عرف تیمور سے ہوئی۔

تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق ان ہی دنوں سپاہ صحابہ کراچی کے رہنما قاری شفیق الرحمٰن کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ اس موقع پر عبداللہ الیاس عرف تیمور نے کہا کہ ہمارے لوگ قتل ہو رہے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر رہے۔ ہمیں بھی دشمن پر وار کرنا چاہیے۔ یہاں سے حافظ قاسم رشید فرقہ ورانہ پر تشدد گروپ سے جڑ گئے۔

پرویز مشرف اور پولیس پر حملے

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حافظ قاسم رشید کالعدم تنظیم کے جس گروپ سے جڑے تھے وہ انتہائی خطرناک گروپ بن چکا تھا۔ وہ براہ راست پولیس کو نشانہ بناتے تھے۔

کراچی میں سی آئی ڈی کے مرکزی دفتر کو راکٹ سے نشانہ بنایا مگر ہدف میں ناکامی ہوئی اور یہ راکٹ گرومندر کے علاقے میں جا گرا تھا۔ جنرل مشرف پر بھی راکٹ حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

وسیم باردودی

تحقیقاتی اداروں کو ان سب میں حافظ قاسم رشید کا نام مل رہا تھا مگر سراغ نہیں۔ تفتیش کاروں کی پوری ٹیم ان کا تعاقب کر رہی تھی جس نے انھیں 2005 میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔ پولیس پر حملوں کے الزام میں انھیں 4 سال جیل میں گزارنا پڑے۔

کراچی جیل میں حافظ قاسم رشید کا کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے اہم ترین وسیم عرف بارودی کے علاوہ عطا الرحمٰن عرف نعیم بخاری، صالح پٹھان اور دیگر سے تعلق بن گیا۔ جیل ہی میں لشکر جھنگوی کا ایک اور خطرناک گروپ بن گیا جس کے جیل سے باہر بھی رابطے تھے۔

ایم پی اے اور پولیس افسران کا قتل

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اب خطرناک گروپ کراچی میں سرگرم عمل تھا، معلومات صالح پٹھان اکھٹی کرتا تھا جو عطاء اللہ عرف نعیم بخاری اور حافظ قاسم رشید کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتا تھا جبکہ حافظ قاسم ریکی کا کام انجام دینے کے علاوہ شوٹر بھی بن چکے تھے۔

حافظ قاسم رشید کی ریکی پر صالح پٹھان کے لوگوں نے سی آئی ڈی کے ایک ڈی ایس پی پر حملہ کیا۔ جس میں وہ اور ان کا گن مین شدید زخمی ہوا۔ اس حملے دوران حملہ آوروں کو تحفظ دینے اور مدد کرنے کے لیے قریب ہی

سڑک پر موجود رہا۔

حافظ قاسم نے مخالف فرقہ کا ہونے کی بنا پر سب انسپیکٹر اصغر تارڑ کی خو دریکی کی اور فائرنگ کرکے قتل کیا۔

کراچی سنٹرل جیل کے اے ایس پی مسعود احمد، ڈی ایس پی عبدالرزاق عباسی کو بھی حافظ قاسم نے قتل کیا۔

ایم پی اے رضا حیدر دیدہ دلیری سے قتل کیا گیا ، یہ واردات اپنے ساتھیوں وسیم بارودی اور عبداللہ عرف تیمور کے ساتھ مل کر کی تھی۔

رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2010 سے 2020 کے دوران حافظ قاسم رشید نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 34 وارداتیں کی تھیں۔ باقی 10 واردتیں اس کے بعد ہوئی تھیں۔

اس دوران حافظ قاسم رشید منظر عام پر نہیں آئے۔ وہ لشکر جھنگوی کے اہم عہدے دار بن چکے تھے اور کراچی پولیس ان کے تعاقب میں تھی۔

ان کو 2023 میں گرفتار کر کے کہا گیا کہ یہ قوال امجد صابری کے قتل میں بھی ملوث ہیں حلانکہ قوال امجد صابری کے قتل میں ملوث 2 ملزماں کو سزا ہوچکی تھی اور مجرم اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کرچکے تھے۔ ساری پولیس اس بات پر متفق تھی کہ یہ قتل عاصم کیپری اور اسحٰق بوبی ہی نے کیے ہیں۔

پھر کیوں اس کیس میں حافظ قاسم رشید کو ڈال کر کیس کمزور کیا جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین