محمد نوید خان
‘گاؤں میں ہمارے گھر کے قریب ہی رہائش پزیر 50 کی دہائی کے ایک نوجوان کے دل میں پتا نہیں کیا آیا اس نے تھانے کے ایک اہلکار کے ساتھ تعلق بنا لیا تھا۔ اس دور میں محمد خان ڈاکو پر چھاپہ پڑا۔ محمد خان ڈاکو کو تو پولیس گرفتار نہ کرسکی مگر بعد میں محمد خان ڈاکو نے اپنے بندے بھیج کر اس نوجوان کو بلا لیا۔ بعد میں پتا چلا کہ محمد خان ڈاکو نے اس کی ناک کاٹ دی تھی اور وہ ہسپتال میں تھا’
پنجاب میں وادی سون کے رہائشی محمود السلام پاکستان سٹوریز سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ بات مجھے میرے والد مرحوم نے بتائی تھی ، اس بارے میں اکثر وبیشتر ہمارے گاوں میں بات ہوتی رہتی تھی۔
محمود السلام کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان کبھی بھی واپس گاوں نہیں آیا تھا۔ اس کے رشتہ دار کہتے تھے کہ وہ کچھ عرصہ زیر علاج رہا اور پھر کراچی چلا گیا اور اس کے کچھ عرصے بعد کراچی میں ہی وفات پا گیا تھا۔
محمد خان ڈاکو ہی نہیں تھا بلکہ اسے سابق صدر ایوب خان کا دوست بھی سمجھا جاتا تھا جس نے اپنی عدالت لگا رکھی تھی مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، پولیس چھاپوں میں چھلاوے کی طرح فرار ہونے والے محمد خان ڈاکو پر اس وقت مشکل آ پڑی جب اسلام آباد سے ان کے لیے ‘اب اور نہیں’ کا حکم آیا تو اسے کال کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا تھا۔
ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد
یہ سب کیسے اور کیوں ہوا اس کو جاننے کے لیے پاکستان سٹوریز نے کئی فائلوں پر مشتمل پولیس ریکارڈ دیکھا اور کئی مقامی لوگوں سے بات کی۔ ان سب باتوں پر نظر ڈالنے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ محمد خان ڈاکو کون تھا اور کیسے ایک عام سا نوجوان پنجاب میں خوف و دہشت کی علامت بن گیا تھا۔
نمبردار سے دشمنی اور دوسری شادی
محمد خان کا جنم تلہ کنگ کےعلاقے ڈھرنال میں ایک اوسط زمیندار گھرانے میں ہوا تھا۔ خان نے تعلیم صرف پانچویں تک حاصل کی اور پھر روایتی نوجوانوں کی طرح فوج میں بھرتی ہوگیا، کہا جاتا ہے کہ فوج میں اس کی کارگردگی بڑی شاندار تھی۔
پولیس ریکارڈ اور ڈھرنال کے علاقے میں محمد خان کے حوالے سے مختلف کہانیاں بیان ہوتی ہیں مگر اس میں ایک کہانی تو مختلف روایات کی بنیاد پر بالکل ٹھیک لگتی ہے کہ محمد خان کے خاندان کی کسی بات پر نمبردار کے ساتھ دشمنی کا اغاز ہوا تھا۔ اس دشمنی کا آغاز کس بات پر ہوا اس بارے میں بھی کچھ ایسا نہیں مل سکا جو مصدقہ ہو۔
مگر پولیس ریکارڈ کے مطابق محمد خان نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ نمبردار کے گھر پر حملہ کیا۔ جس پر محمد خان اور بھائیوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اس مقدمے کی پاداش میں خان کو بھائیوں سمیت کافی عرصہ جیل میں رہنا پڑا، جیل سے رہائی راضی نامے کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ یہ بات 50 کی دہائی کے آغاز کی ہے۔
بہرحال نمبردار کے گھر پر حملہ معمولی واقعہ نہیں تھا۔ پھر راضی نامے کی بنیاد رہائی اور وہ بھی علاقے کے نمبردار سے، اس بات نے تو محمد خان کا نام ہر طرف مشہور کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد خان جیل گیا تو اس کے رابطے جیل میں کچھ ایسے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ہو گئے جنھوں نے اس کی سرپرستی کی اور راضی نامے کی صورت میں جیل سے رہائی میں مدد دی۔
آسڑیلیا کو ہزاروں ہنر مندوں کی ضرورت، امیگریشن قوانین میں نرمی، مکمل تفصیلات جانیں
اب محمد خان کا علاقے میں نام بھی ہو گیا تھا اور محمد خان ایک شادی شدہ خاتون کو دل دے بیٹھا تھا، دوسری طرف بھی آگ لگی ہوئی تھی۔ خاتون نے پہلے خاوند سے طلاق لے کر محمد خان سے دوسی شادی کر لی۔ یہ محمد خان کی بھی دوسری شادی تھی۔ اس کی پہلی شادی اپنی چچازاد سے ہوئی تھی۔
اب بات عزت پر پہنچ گئی تھی۔ خاتون کے پہلے خاوند اور اس کے خاندان نے محمد خان پر حملہ کیا۔ دونوں طرف لڑائی ہوئی۔ دونوں طرف سے دو دو افراد قتل ہوئے۔ محمد خان پھر جیل پہنچ گیا، اس مرتبہ 8 ماہ بعد ضمانت پر رہائی ہوی لیکن محمد خان کے چچا اور سسر محمد خان کی دوسری شادی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔
چچا نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر محمد خان پر حملہ کیا مگر وہ تو پھر محمد خان نہ ہوتا جو کسی کے قابو آتا۔ محمد خان اس لڑائی میں بھی حاوی رہا اور اس کے ہاتھوں چچا کے بیٹے مارے گئے۔ اب محمد خان کے لیے گاؤں اور علاقے میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ خاندان میں بھی دشمنی پیدا ہوچکی تھی۔ محمد خان اپنے بھائی ہاشم خان کو لے کر وادی سواں کی طرف فرار ہوگیا۔
ایوب خان کی انتخابی مہم اور رُعب و دبدبہ
کچھ ہی عرصے میں محمد خان نے ایک گینگ منظم کرلیا تھا۔ وہ گینگ کی سربراہی کرنے لگا تھا۔ خوف و دہشت پھیلانے کے لیے کئی وارداتیں کیں۔ ان میں اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتیاں سب شامل تھے۔ چند برس مین ہی محمد خان ڈاکو رابن ہڈ بن چکا تھا۔ پولیس پارٹی چھاپے مارتی مگر وہ قابو نہیں آتا۔
محمد خان ایک تیز طرار شخص تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انتظامیہ، حکومت اور پولیس کی مدد کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس لیے خان نے سیاست کا سہارا لیا۔ اپنے علاقے میں امیدواروں کو ہرانے اور جتوانے میں اہم کردار ادا کرنے لگا۔ جس امیدوار کے سر پر ہاتھ رکھتا وہ جیت جاتا اور جس کے سر سے ہاتھ اٹھاتا وہ ہار جاتا تھا۔
یہ سب کچھ وہ اپنے بچاؤ کے لیے کرتا تھا، اسی مارا ماری کے دوران اسے گورنر نواب امیر محمد خان کی سرپستی میسر آگئی، محمد خان کو کون ہاتھ لگا سکتا تھا جب گورنر کو اپنے مخالفین کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ایک سنگدل انسان کی ضرورت تھی یہ ضرورت محمد خان پوری کرتا اور اس کے بدلے وادی سواں میں محمد خان کا طوطی بولتا تھا۔
نواب امیر محمد خان ہی کی ہدایت پر محمد خان نے وادی سواں اور جہاں جہاں پہنچ تھی تاریخی انتخابات میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کو ووٹ دلوائے۔
یہ سب کچھ 1966 تک تو چلتا رہا مگر ایک وقت آیا کہ ایوب خان اور نواب امیر محمد خان کی راہیں جدا ہوگئیں اور یہیں سے محمد خان کا زوال شروع ہوگیا، پولیس اس کے تعاقب میں تھی اور وہ پولیس کے آگے چھلاوہ بنا ہوا تھا۔
ایوب خان کی جانب سے گرفتاری یا قتل کا حکم
محمد خان کے خاندان میں کئی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب نواب امیر محمد خان اور ایوب خان کی راہیں جدا ہوئیں تو اس وقت ایوب خان کو کہا گیا کہ سابق گورنر محمد خان کے ذریعے سے ان کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔ ایوب خان کو بات سن کر غصہ آگیا اور انھوں نے اسی وقت مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ کو سخت ترین احکامات جاری کیے اور اس وقت کے آئی جی صلاح الدین قریشی کو گرفتاری کا حکم دیا۔
یہ احکامات اتنے سخت تھے کہ آئی جی صلاح الدین قریشی نے خود اس آپریشن کی کمان سنبھالی۔ پولیس کی بڑی نفری کو طلب کیا گیا۔ دو ڈی آئی جیز کے ہمراہ فتح جھنگ کے مقام پر ایک عارضی آپریشنل ہیڈ کوارٹر بھی قائم کر لیا گیا۔
محمد خان با اثر تھا سو فرار ہوگیا۔ پولیس کی بڑی پارٹی کئی ایس ایس پیز اور ایس پیز کے ہمراہ اس کا پیچھا کر رہی تھی مگر دو ماہ کے آپریشن کے باوجود بھی محمد خان کو گرفتار نہ کرسکی ، جو حربہ استعمال کر سکتے تھے کیا مگر محمد خان ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر پر سینگ۔
پولیس حیران و پریشان تھی مگر اس دوران محمد خان نے صدر ایوب کے ساتھ رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ ہی اس کی غلطی ثابت ہوئی۔
پولیس ایکشن پر محمد خان مئی 1967 میں روپوش ہوگیا تگا۔ 6 ہفتوں تک پولیس نے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا مگر کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا۔
صدر ایوب کو تار بھجوایا
یہ 1967 کا سال ہے۔ محمد خان نے خوشاب کے کسی علاقے میں پناہ لے رکھی تھی۔ وہ اپنی جگہ ہر تھوڑے دن بعد تبدیل کر لیتا اور اپنے ساتھ صرف اپنے انتہائی وفادار لوگوں کو رکھتا، پتا نہیں محمد خان کے دل میں کیا آیا کہ اس نے براہ راست صدر ایوب کو تار لکھا۔ واضح رہے کہ اس دور میں تیز رفتار رابطے کا ذریعہ تار تھا جو کہ جسے آج کی زبان میں ای میل کہا جا سکتا ہے۔
محمد خان نے اپنے تین مسلح ساتھیوں کے ہمراہ خوشاب ہی کے علاقے سودھی کے پوسٹ آفس میں جا کر انچارج کو حکم دیا کہ صدر ایوب کو تار لکھا جائے۔
اس زمانے کے اخبارات کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ محمد خان نے صدر ایوب کو اپنی رضا کارانہ گرفتاری دینے کی پیشکش کے ساتھ شرط رکھی کہ اس بات کا اعلان صدر ایوب بذات خود اپنی نشری تقریر میں کریں۔ تار میں یہ بھی کہا گیا کہ پولیس مجھے گرفتار کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
اس تار سے پولیس سمجھ گئی کہ محمد خان کہاں ہو سکتا ہے۔ پنجاب پولیس نے اپنا سب سے قابل پولیس افسیر چوہدری عطا حسین تعاقب میں چھوڑ دیا جس کو سراغ رسان کتوں کی بھی مدد حاصل تھی۔
محمد خان پولیس کی وردی پہن کر سرگودھا پولیس کو دھوکا دینے اور فرار میں کامیاب ہونے کے بعد اپنی وردی کو اتار کر پھینک دیتے ہیں اور یہ وردی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو سراغ رسان کتوں کی مدد سے تعاقب کرتی ہے اور اس کو سرگودھا ہی میں ککران والی چوٹی پر جا لیتی ہے۔
محمد خان مقابلہ کرتا ہے ، مقابلے میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہوتے ہیں اس دوران محمد خان کو بھی گولی لگتی ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ایک پولیس اہلکار زمان خان خود زخمی ہونے کے باوجود محمد خان کو دبوچ لیتا ہے۔ گرفتاری اور علاج معالجے کے بعد محمد خان کو شاہی قلعہ منتقل کردیا جاتا ہے جہاں خصوصی تفتیشی ٹیم بنتی ہے۔
پھانسی سے 10 گھنٹے قبل سزا ملتوی
دیگر وارداتوں کے علاوہ محمد خان پر 40 قتل کرنے کا الزام تھا یہ الزمات ثابت بھی ہو جاتے ہیں۔
محمد خان کی گرفتاری پر اپنی تاریخ کی سب سے بڑی انعامی رقم دو مربع زمین اور 34 ہزار روپے نقد انعام رکھا گیا تھا۔ مقدمہ چلتا ہے کئی قتل اور وارداتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور پھر سپریم کورٹ سے بھی اپیلیں خارج اور محمد خان کی پھانسی کی سزا برقرار رہتی ہے۔
1976 کو پھانسی کی سزا دینے کے لیے خاندان والوں سے آخری ملاقات بھی کروا دی جاتی ہے مگر محمد خان کے بھائی عدالتوں میں اپنی لڑائی جاری رکھتے ہیں۔ جب سب امیدیں ختم اور پھانسی میں صرف 10 گھنٹے باقی رہتے ہیں تو ہائی کورٹ سے پھانسی ملتوی کرنے کا حکم نامہ آجاتا ہے۔
ہائی کورٹ سے حکم نامہ کیسے حاصل کیا گیا اس بارے میں کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں کیونکہ سپریم کورٹ سے اپیل خارج ہونے کے بعد کسی انتہائی ٹھوس وجہ کے بغیر سزا ملتوی ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے۔
محمد خان یہاں تک ہی خوش قسمت ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی سزا عمر قید میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔
اتنا ہی نہیں بے سنہ 1989 میں نظیر بھٹو شہید کے دور میں متعارف کروائے گئے ایک قانون جس میں 60 سال سے زائد عمر کے قیدی رہا ہوں گے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد خان بھی رہا ہوجاتا ہے۔
محمد خان کے مخالفیں، دشمن سب حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسا قسمت کا دھنی ہے اور اب کیا ہوگا؟ مگر محمد خان اپنے تمام مخالفین سے صلح کرنے بعد پیلیزپارٹی کا ساتھ دینا شروع کر دیتا ہے۔ 1993 کے انتخابات میں ممتاز ٹمن کی کامیابی میں کردار ادا کیا جس کے دو سال بعد 1995 میں طبعی موت ہوئی۔