نوید خان/حارث ندیم
23 سال کی عمر انگریز سرکار کے ہاتھون سزائے موت پانے والے بھگت سنگھ کو تاریخ دان انقلابی اور انگریز سرکار کے خلاف جدوجہد کرنے والا تو تسلیم کرتے ہی ہیں مگر ان کی ذاتی زندگی جس میں ان کی زندگی کا عشق بھی اکثر و بیشتر تاریخ دانوں کے درمیاں موضوع بحث بنا رہتا ہے۔
پاکستان سٹوریز کی تحقیقاتی ٹیم نے ان کے حوالے سے مختلف تاریخی مواد کا جائزہ لیا ہے جس میں بھگت سنگھ کی زندگی کے حوالے سے کچھ نیا اور تصدیق شدہ مواد پیش خدمت ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان سٹوریز بہت احتیاط سے کام لیتے ہوئے صرف تصدیق شدہ مواد ہی من و عن شائع کیا کر رہا ہے جس کا مقصد بھگت سنگھ جیسے انقلابی کو پیش آنے والے حالات سے آگاہی دینا اور انہیں زندہ رکھنا ہے۔
پہلے جانتے ہیں کہ وہ کیا وجوہات اور واقعات تھے کہ کچھ تاریخ دان اور مصنف یہ سمجھتے ہیں کہ بھگت سنگھ ایک انقلابی خاتون کے عشق میں مبتلا تھے اور پھر بعد میں دیکھیں گے کہ وہ خاتون کون تھیں اور انگریز سرکار کے خلاف انقلابیوں کی جدوجہد میں ان کا کیا حصہ تھا۔
بھگت سنگھ انقلابی تو تھے ہی مگر وہ ایک ملنسار اور محبت کرنے والے بھی تھے۔ پاک برصغیر کی تقسیم سے قبل انڈین پارلیمنٹ پر بم سے حملہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے انھوں نے اپنے ایک ساتھی سکھ دیو کو ایک خط لکھا تھا۔
بھگت سنگھ اس خط میں لکھتے ہیں کہ "محبت ایک تحریک کے سوا کچھ نہیں لیکن یہ حیوانی جبلت نہیں ہے۔ یہ بہت پیارا انسانی احساس ہے۔ محبت میں حیوانیت نہیں ہوسکتی ہے”۔
وہ لکھتے ہیں کہ "محبت انسان کے کردار کو بلند کرتی ہے۔ سچی محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی لیکن کوئی نہیں بتا سکتا کہ کب”۔
بھگت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’ایک مرد اور عورت ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں۔ اپنی محبت کی مدد سے تعلق کی پاکیزگی کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔”
عدالتوں اور تاریخ کے مختلف ریکارڈ کے مطابق یہ خط اس وقت ریکارڈ کا حصہ بنا جب سکھ دیو کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر یہ خط لاہور سازش کیس میں بطور ثبوت پیش ہوا تھا۔
اس سے پہلے ہم اس کے خط کے باقی مندرجہ ذیل کی طرف ہمیں یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ نے یہ خط کیوں لکھا تھا۔ اس کا جواب ہمیں ’میں بھگت سنگھ بول رہا ہوں‘ نامی کتاب میں ملتا تھا۔
مصنف مختلف تاریخی حوالوں سے لکھتے ہیں کہ ’جب انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے رضاکاروں کے انتخاب کے حوالے سے ایک میٹنگ میں بھگت سنگھ کو بم پھینکنے کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی۔
تاہم ایک تاریخی روایت کے مطابق بھگت سنگھ کے قریبی دوست سکھ دیو نے بھگت سنگھ پر طنز کیا کہ وہ محبت کی وجہ سے مرنے سے ڈرتا ہے۔
اس کے بعد بھگت سنگھ نے دوبارہ اجلاس بلایا اور یہ ذمہ داری قبول کی تھی۔
واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بھگت سنگھ اجلاس میں اپنے ساتھی سکھ دیو کی طرف سے کی جانے والی بات پر خفا تھے اور اس ناراضگی کا اظہار بھی کر رہے تھے۔
کچھ تاریخ دان اور مصنفیں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر سکھ دیو اجلاس میں ایسی با ت نہ کرتے تو شاید بھگت سنگھ مذکورہ خط بھی نہ لکھتے اور وہ خط عدالت میں بھی ثبوت کے طور پر نہ پیش ہوتا اور انھیں پھانسی بھی نہ ہوتی۔ مگر یہ صرف ایک رائے، اگر مگر کے ساتھ ہے۔ انگریز سرکاری نے بھگت سنگھ کے خلاف دیگر ثبوت بھی پیش کیے تھے۔
محبت ہمیں بلند کرتی ہے۔
بھگت سنگھ کا لکھا گیا خط محبت ہمیں بلند کرتی ہے کہ نام سے مشہور ہوا تھا۔
بھگت سنگھ نے لکھا ’جس پر ہم بحث کررہے تھے اس پر میں اپنی رائے پیش کرسکتا ہوں۔ میں امیدوں اور امنگوں سے بھرا ہوا ہوں۔زندگی کے رنگوں سے مغلوب ہوں لیکن اگر ضروری ہو تو میں یہ سب چھوڑنے کو تیار ہوں جو کہ واقعی ایک قربانی ہے۔ کسی کے کردار پر الزام لگانے سے پہلے غور کرنا چاہیے کہ کیا محبت نے کسی شخص کی مدد کی؟۔
اس سوال کا جواب وہ کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ’تو میرا جواب ہاں میں ہے، آپ نے مازینی (اطالوی انقلابی اور مصنف جس نے اٹلی کو متحد کرنے کی کوشش کی) پڑھا ہوگا۔ اپنی پہلی بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ یا تو پاگل ہو جاتا یا خودکشی کر لیتا لیکن اس کی محبوبہ کے ایک خط نے اسے مزید مضبوط کر دیا۔‘
’میں نے ایک محبت کو ٹھکرا دیا۔ یہ بھی ایک مثالی دور تھا لیکن محبت کا احساس مضبوط ہونا چاہیے جو ایک شخص سے اوپر اٹھ کر پوری دنیا کے ساتھ بانٹا جا سکتا ہے۔‘
اس خط نے بھگت سنگھ کی محبت کو مزید پراسرار بنا دیا کیونکہ نہ تو انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اس عورت سے محبت کرتے تھے یا نہیں اور نہ ہی اس عورت کا نام لکھا۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھگت سنگھ کسی کی محبت میں گرفتار تھے؟۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی مگر اس کا کوئی واضح جواب موجود نہیں تھا اور نہ ہی مورخین و مصنفین متفق ہیں۔
خط ریکارڈ پر موجود ہے جس میں محبت کے حوالے سے بھگت سنگھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تاہم کہا جاسکتا ہے کہ عورت کا ذکر اور بھگت سنگھ کا عشق ایک حوالہ موجود ہے جو اہمیت کا حامل ہے لیکن کافی متنازع بھی ہے۔
بھگت سنگھ کے عشق پر کلدیپ نیئر کیا کہتے ہیں؟
کتاب سرفروشی کی تمنا کے مصنف کلدیپ نیر مشہور زمانہ صحافی اور تاریخ دان ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’سکھ دیو نے بھگت سنگھ کو دکھ پہنچایا دل کو تکلیف دی تھی۔ سکھ دیو نے کہا کہ اب تمھیں انقلاب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ تم ایک عورت کی زلفوں میں پھنس گئے ہو۔‘
کلدیپ نیئر دعوی کرتے ہیں اور کئی حوالے سے ہمارے نزدیک کلدیپ نیئر جیسا صحافی اور تاریخ دان بغیر کسی واضح ثبوت کہ نہیں لکھ سکتا ہے۔
وہ کتاب میں کہتے ہیں ’درحقیقت سکھ دیو درگا دیوی انقلابی خاتون کی بات کررہے تھے۔ یہ وہ ہی خاتون تھی جس نے برطانوی پولیس افسر سانڈرز کے قتل کے بعد بھگت سنگھ کی بیوی بن کر کلکتہ سے ٹرین تک سفر کر کے بھگت سنگھ کو گرفتاری سے بچایا تھا۔
مصنف بتاتے ہیں کہ ’درگا دیوی شادی شادہ اور ایک بیٹے کی ماں تھی۔ بھگت سنگھ اور درگا دیوی دونوں مل کر انقلاب کے لیے کام کررہے تھے۔ انقلاب کے لیے ہر طرح کا وقت مل کر گزارا تھا۔
تو کیا دونوں کے درمیان کوئی اور رشتہ تھا؟ اس بارے میں بھگت سنگھ نے کبھی کچھ نہیں کہا۔‘
کلدیپ نیئر نے درگا دیوی سے ملاقات بھی کی تھی۔ ان سے اس سلسلے میں کوئی بات چیت ہوئی یا ان کی طرف سے کوئی وضاحت کی گئی اس بارے میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
انھوں نے صرف اتنا ذکر کیا کہ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے درگا دیوی نے بھگت سنگھ کے ساتھ لاہور سے کلکتہ تک ٹرین کے ذریعے دلچسپ سفر کی معلومات دی تھیں۔
کلدیپ نیر بتاتے ہیں کہ ’کبھی کسی نے وہ بات نہیں کہی جو سکھ دیو نے کی تھی۔ چندر شیکھر آزاد نے بھی نہیں، جو بھگت سنگھ کے لیے باپ جیسا تھا۔ شاید چندر شیکھر آزاد کے لیے بھی کہ محبت کوئی ایسا رشتہ نہیں جس کا مذاق اڑایا جائے۔‘
’سکھ دیو کے الزامات کے بعد چندر شیکھر آزاد اندازہ کرسکتے تھے بھگت سنگھ پر کیا گزر رہی ہے۔‘
بھگت سنگھ کی بھانجی کیا کہتی ہیں؟
خط موجود ہے، کلدئپ نیئر جیسا صحافی اور تاریخ دان سکھ دیو کی جانب سے جس خاتون کے بارے میں اشارہ کر رہا ہے نشان دہی کردی گئی ہے۔ مگر یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ بھگت سنگھ درگا دیوی کے عشق میں مبتلا تھے کہ نہیں۔ کیا یہ یک طرفہ محبت تھی یا آگ دونوں طرف لگی ہوئی تھی۔ اس بارے میں کچھ موجود نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی بھانجی وریندر سندھو نے بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں کچھ نہیں لکھا۔
وریندر سندھو لکھتی ہیں کہ ’پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والے انقلابیوں کے ابتدائی گروپ میں بھگت سنگھ کا نام نہ ہونے پر بھگت سنگھ اور سکھ دیو کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اور سکھ دیو نے انھیں بزدل کہا تھا۔‘
دلچسپ ترین یہ ہے کہ انھوں نے بھی اس خط کا ذکر کیا ہے جو محبت ہمیں بلند کرتی ہے کے نام سے شہرت حاصل کرتا ہے۔
انڈیا کے ایک اور مشہور زمانہ پروفیسر جو کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے منسلک رہے اور کئی سال تک بھگت سنگھ پر تحقیق کرتے رہے نے مختلف میڈیا انٹرویو میں کہا کہ بھگت سنگھ کے عشق کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہیھ۔
پروفیسر چمن لال کہتے ہیں کہ ’کچھ کتابوں میں یہ ذکر ہے کہ سکھ دیو اور بھگت سنگھ کے درمیان اس عشق کو لے کر لڑائی ہوئی۔ سکھ دیو ایک سخت مزاج شخص تھا۔ لیکن سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ بھگت سنگھ کا درگا دیوی سے محبت کا رشتہ تھا۔‘
انھوں نے کئی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انقلابی خواتین بھگت سنگھ سے متاثر تھیں۔ بھگت سنگھ ہنر مندذہین انسان تھے جو خواتین کے ساتھ شائستگی سے پیش آتے اور نہایت مہذب تھے۔ جس وجہ سے انقلابی خواتین بھگت سنگھ کے ساتھ کام کرنے میں زیادہبہتر محسوس کرتی تھیں۔
پروفیسر چمن لال سوال اٹھاتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے دوسرے انقلابیوں کی بہنوں سے بھی رابطے میں رہتے اور خطوط لکھے تھے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کہ بھگت سنگھ کہ ان کے ساتھ بھی کے محبت کے تعلقات تھے جن سے وہرابطے میں رہتے تھے؟۔ نہیں، ایسا نہیں۔ ہرگز نہیں۔‘
چمن لال کا دعوی ہے کہ کچھ لوگوں نے ایسی سنسنی خیز معلومات خود گھڑی ہیں جو کہ انتہائی قابل اعتراض بات ہے۔
درگا دیوی اور بھگت سنگھ کے رابطے
تقریبا تمام تاریخ دان ہی اس بات پر متفق ہیں کہ درگا دیوی اور بھگت سنگھ کے رابطے 1928 میں ہوئے تھے۔ ان رابطوں کی وجہ انقلابی تحریک تھی۔ ایک مظاہرے کے دوران ایک انقلابی رہنما ر لالہ لجپت رائے جی کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ زخمی ہوا اور ہلاک ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد انقلابیوں کے اجلاس کی صدارت درگا دیوی نے کی اورانقلابی رہنما کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چار لوگوں بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، راج گرو اور جئے گوپال کو برطانوی پولیس افسیر کو سکاٹ کو قتل کرنے کا مشن سونپا گیا۔ ایک انقلابی کی غلطی کی وجہ سے سکاٹ کی جگہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جے پی سانڈرز مارا گیا۔
اس دوران پولیس نے انقلابیوں کا تعاقب کیا تو ایک اور پولیس اہلکار بھی مارا گیا تھا۔
پولیس اس واقعہ کا ذمہ دار بھگت سنگھ کو سمجھ رہی تھی۔ بھگت سنگھ پر گھیرا تنگ کردیا گیا تھا۔ ہر طرف مخبر چھوڑ دیئے گے تھے۔ بھگت سنگھ چھپتے چھپتے درگا دیوی کے پاس پہنچے تھے۔
تاریخ دانوں کے مطابق درگا دیوی کے خاوند بھگوتی چرن وہرا پہلے ہی سے پولیس کو مطلوب تھے اور فرار تھے جبکہ بھگوتی چرن وہرا ہی نے بھگت سنگھ کے رابطے اپنے بیوی سے کروائے تھے۔ یہاں پر کہانی میں بڑا سپسن آتا ہے کہ سکھ دیو نے مشورہ دیا اور منصوبہ بنایا کہ درگا بھگت سنگھ کی بیوی بنیں اور دونوں سفر کریں۔
تاریخ دان بتاتے ہیں کہ درگا دیوی ’سجاتا‘ اور بھگت سنگھ ’رنجیت‘ بن گئے۔ ایک مکمل خاندان کا تصور دینے کے لیئے درگا دیوی نے تین سالہ بیٹے کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔ راج گرو ان کے نوکر بن گئے۔ انھوں نے ماڈرن نظر آنے اور پولیس کو دھوکا دینے کے لیئے لباس کا انتخاب بھی سوچ سمجھ کر گیا بھگت سنگھ نے پینٹ قیمض پہنی اور درگا دیوی نے اس زمانے کی ماڈرن ساڑھی اور اونچی ایڑی کے سینڈل پہنے۔
دونوں کی منزل کچھ اور تھی۔ مگر ٹرین سفر کے دوران درگا دیوی نے مشورہ دیا کہ کانپور رکتے ہیں۔ جہاں وہ دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔
اس موقع کا درگا دیوی کا اپنے ایک شوہر کو ٹیلی گراف بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں درگا نے اپنے شوہر کو کہا کہ وہ اپنے بھائی کے ہمرا کلکتہ آ رہی ہیں۔ درگا دیوی کے شوہر حیران رہ گئے کیونکہ درگا دیوی کا کوئی بھائی نہیں تھا۔
یہاں پر لازم ہے کہ کلدیپ نیر کی رائے کو بھی سنا اور سمجھا جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے درگا دیوی کو کھل کر اپنی زندگی اور اپنے عقائد کے بارے میں سب کچھ بتایا۔‘
کلدیپ نیر لکھتے ہیں بھگت سنگھ کی مختلف شخصیت جان کر درگا دیوی حیران و پریشان رہ گئیں۔ درگا دیوی بھگت سنگھ کو ایک انقلابی کے طور پر جانتی تھیں جو صرف اپنے سر سے سوچتا ہے نہ کہ اپنے دل سے۔
سکھ دیو نے اصل میں کہا کہا؟
تاریخ دان اس بات پر تو متفق ہیں کہ بھگت سنگھ اور سکدیو کے درمیاں تلخ کلامی ہوئی تھی مگر کچھ کی رائے ہے کہ جو کہا جارہا ہے کہ نہیں کہا گیا۔
بھگت سنگھ کی انقلابی ٹیم کے رکن شیو ورما اپنی کتاب ’سنسمرتیان‘میں لکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کے درمیان لڑائی ہوئی تھی لیکن اس میں کسی عورت کا ذکر نہیں ہوا۔
سکھ دیو کے چھوٹے بھائی متھراداس تھاپر اپنی کتاب ’میرے بھائی شہید سکھ دیو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سکھ دیو نے بھگت سنگھ کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ تم بزدل ہو، موت سے ڈرتے ہو۔ جو بھگت سنگھ کو برا لگا۔ جس کے بعد بھگت سنگھ نے ذاتی کوشش کرکے انقلابیوں کو اس بات پر راضی کیا کہ بم پھینکنے کا مشن اس کو سونپا جائے۔
بھگت سنگھ کے ایک ساتھی انقلابی سکھ دیو راج کی لکھی ہوئی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے (سکھ دیو اور سکھ دیو راج دونوں مختلف انقلابی تھے) کہتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے درگا بھابھی کو لکھا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم رونا نہیں، یہ لکھتے لکھتے میرا قلم رک جاتا ہے۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہ میرے اور آپ کے رشتے کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ آپ میرے دوست کی بیوی بھی ہیں۔‘
تاہم متراداس لکھتے ہیں کہ اس خط کی زبان اور انداز گمراہ کن اور من گھڑت معلوم ہوتا ہے۔ صرف متراداس ہی نہیں بہت سے تاریخ دان کو گمراہ کن قرار دیتے ہیں۔
متراداس لکھتے ہیں کہ یشپال اور سکھ دیو راج جیسے مصنفین نے ’جھوٹ بولا۔ بھگت سنگھ اور درگا دیوی کے درمیان مقدس رشتے پر بھی سوال اٹھایاجو کہ نامناسب ہے۔
متراداس لکھتے ہیں کہ ’اس معاملے پر میری شیو ورما (بھگت سنگھ کے ساتھی انقلابی) سے بات چیت ہوئی جنھوں نے کہا کہ درگا بھابھی بھگت سنگھ اور سکھ دیو دونوں سے یکساں سلوک کرتی تھیں۔‘
’شیو ورما نے واضح طور پر کہا کہ سکھ دیو راج کی لکھی ہوئی بات پر یقین کرنا دراصل غلط ہے کیونکہ سکھ دیو راج کو درگا دیوی کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔‘
مترا داس سکھ دیو راج کہتے ہیں کہ اگربھگت سنگھ اور درگا دیوی کے درمیان ایسی بات ہوتی تو پارلیمنٹ پر بم پھینکنے سے پہلے بھگوتی چرن درگا بھابھی کے ساتھ بھگت سنگھ سے ملنے کیوں جاتا؟۔
درگا دیوی کون تھیں؟
درگا دیوی جو درگا بھابھی کے نام سے مشہور ہیں، 1907 کو الہ آباد کے ایک گجراتیخاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی لاہور میں رہنے والے گجراتی برہمن بھگوتی چرن وہرا سے کم عمری میں ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے کا نام سچن رکھا گیا تھا۔ تاریخ دان اور مصنفیں ان کے ایک بیٹے ہی کا ذکر کرتے ہیں۔
بی بی سی نے بھگت سنگھ پر تحقیق کرنے والے ایک اور مصنف مالویندرجیت سنگھ سے بات کرنے کی کوشش کیمگر انھوں نے صحت کے مسائل کے سبب سے اپنے مدد گار کے ذریعے بی بی سی سے بات کی۔
ان کی یہ بات چیت بی بی سی اردو کی سروس میں بھی شائع ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’درگا بھگت سنگھ کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی تھیں اور اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ کہانی پر توجہ دینے کے بجائے، ملک کی آزادی کے لیے ان کی قربانیوں کو سراہیں۔‘
بی بی سی ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سدھیر ودیارتھی، کتاب ’شہید بھگت سنگھ – ایویڈینس آف ریوولوشن‘ کے ایڈیٹر، درگا دیوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ہتھیار اور بم بھی دینے اور لینے جاتی تھیں۔ ’وہ ایک بار بم لانے ملتان گئی تھی اور پستول لانے جے پور بھی گئی تھی۔‘
’وہ نہ صرف پستول رکھنا جانتی تھی بلکہ اسے استعمال کرنا بھی جانتی تھی۔‘
ان کے شوہر بھگوتی چرن وہرا بم ٹیسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔ درگا دیوی بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کو جیل سے رہا کرنا چاہتی تھیں۔ بھگت سنگھ کی پھانسی رکوانے کے لیے وہ گاندھی جی سے بھی ملیں۔
اپنے شوہر کی موت کے بعد درگا بھابی انقلابیوں کے کام میں پوری طرح سرگرم ہو گئیں۔ اپنے شوہر کی موت اور بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد، چندر شیکھر آزاد نے انھیں انگریزوں سے بدلہ لینے کے مقصد سے بمبئی (ممبئی) بھیج دیا۔
انھوں نے بمبئی کے پولیس کمشنر لارڈ ہیلی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن سارجنٹ ٹیلر اور ان کی بیوی درگا کی گولی سے زخمی ہو گئے اور وہ وہاں سے بھاگ گئیں۔
وہ پولیس سے چھپنے کے لیے بعض اوقات برقع پہنتی تھیں اور ایک بار خود کو ایک مسلمان عورت کا روپ بھی دیا۔
آزاد کی موت کے بعد انھوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ تفتیش کے بہانے انھیں تقریباً 6 ماہ تک قاتلوں کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔ پولیس کے پاس ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا اس لیے بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا تاہم 3 سال تک لاہور سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
انھوں نے بعد میں دلی میں کانگریس پارٹی میں بھی کام کیا اور بعد میں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
ان کا انتقال 15 اکتوبر 1999 کو غازی آباد، اتر پردیش میں ہوا۔