مردان کے علاقے رستم سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ روح الامین دریائے سوات میں آنے والے اپنی نوعیت کے بدترین اور انتہائی المناک سیلاب میں سوات بائی پاس کے قریب پانی میں خاندان کے 6 اور سیالاکوٹ کے خاندان کے 17 افراد میں عمر کے لحاظ سے سب بڑے تھے۔
ہلکی بارش کے بعد جب اچانک تیز بارش اور پانی کا ریلہ آیا اور تو انھوں نے سب کو آواز دے کر دریا میں تعمیراتی کام کے موجود ملبے پر بلا لیا تھا۔
روح الامین کا خیال تھا کہ پانی کا یہ ریلہ جلد ہی گزر جائے گا یا ان تک مدد پہنچ جائے گی کہ سامنے بہت سے لوگ دیکھ رہے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا ریلہ تیز تر اور تعمیراتی کام کا چھوڑا ہوا ملبہ بھی پانی کے ساتھ بہتا چلا گیا جوں جوں ملبہ پانی کے ساتھ بہتا اوپر کھڑے افراد میں سے کوئی نہ کوئی اسی کے ساتھ بہہ جاتا۔
روح الامین کا کہنا تھا کہ میں 26 تاریخ کو اپنے ماموں زاد فرماں حسین، بھتیجے دانیال احمد جو کہ پانی میں بہہ گئے تھے جبکہ کم عمر بھتیجی ماہ رخ اور بھتیجے شیرم جن کو بالکل آخری وقت میں سوات کے رہائشی محمد ہلال نے اپنی جان پر کھیل کر بچایا تھا کے ہمراہ 26 تاریخ کو سوات پہنچے تھے۔
واقعہ یاد کر کے خوف آتا ہے
روح الامین کہتے ہیں کہ ہم اس تعمیراتی ملبے پر کتنا وقت کھڑے رہے مجھے یاد نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ زیادہ تعداد کم عمر بچوں اور بچیوں کی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے تک وہ ہنس کھیل رہے تھے۔ شروع میں تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب پتا چلا کہ ان کے نیچے سے ملبہ سرک رہا تھا تو وہ خوف کا شکار ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر بچوں کو درمیان میں کیا گیا اور پھر جب تھوڑی دیر بعد پہلا بندہ پانی میں گیا تب بچوں کو سمجھ آیا کہ معاملہ بہت خطرناک ہوچکا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ ملبہ بہنے سے جب کوئی پانی میں بہتا تو قریب کھڑا دوسرا اس کو پکڑنے کی کوشش میں پانی میں بہہ جاتا تھا۔ آخری خون کا رشتہ تھا۔
روح الامین کہتے ہیں کہ وہاں پر ایک ایک کر کے سب دریا میں ڈوب رہے تھے۔ آخر میں صرف میں میری بھتبجی ماہ رخ اور بھتیجا شیرم رہ گئے تھے۔ میں نے بھتیجی کو اٹھا لیا تھا۔ یہ آخری کوشش تھی جبکہ بھتیجے کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ کیا سوچ رہا تھا یاد نہیں مگر پھر نا قابل یقین معجزہ ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ بس میری ہمت جواب دے چکی ہے۔ میں اس سے زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ میرے لیئے اور بات کرنا ممکن نہیں ہے۔
سوات سول سوسائٹی کے رہنما افتخار افضل خان موقع پر موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں بے بسی سے بچوں، عورتوں اور مردوں کو پانی میں ڈوبتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ تھا اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ شاہد ہی کوئی موقع پر کوئی ایسا بندہ ہوگا جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔
افتخار افضل خان کا کہنا تھا کہ تین لوگ محفوظ تھے باقی پانی میں بہہ چکے تھے۔ ایسے میں یکدم کسی نے اشارہ کیا کہ کوئی شخص بپھرے ہوئے دریا میں کشتی ڈال رہا ہے۔ یہ مقامی طورپر تیار کردہ کشتی تھی۔ وہاں پر کسی نے کہا کہ ہلال پہنچ گیا ہے۔
معجزہ ہی تھا کہ ہلال اور تین لوگ بچ گئے۔
افتخار افضل خان کہتے ہیں کہ میں سوات کا رہائشی ہوں میں نے اتنا تیز پانی کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہلال خان بہت مہارت سے کشتی چلا رہا تھا مگر پتا چل رہا تھا کہ کشتی ادھر ادھر ڈول رہی ہے۔ یہ معجزہ ہی تھا مگر ہلال نے انتہائی مہارت سے ان تینوں کو کنارے پر پہنچایا اور پھر وہ دوبارہ ایک اور شخص کوبچانے کے لیئے جو دوسری طرف پھنسا ہوا تھا چلا گیا۔
محمد ہلال کہتے ہیں کہ میرا گھر بائی پاس سے کوئی دو اڑھائی کلو میٹر دور ہے۔ اس دن موبائل سگنلز بھی خراب تھے۔ میں گھر ہی پر تھا کہ ایک مہمان (سیاح) میرے گھر کا پتا کرتے ہوئے پہنچا اور مجھے کہا کہ جلدی کرو کہ کبل سوات بائی پاس سے کم از کم چار، پانچ کلو میٹر دور میرے خاندان کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
محمد ہلال کا کہنا تھا کہ میری کشتی گھر کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور میں نے ایک سوزوکی بھی رکھی ہوئی ہے کہ اس میں کشتی کو رکھنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ وہاں پر بہت تیز پانی تھا۔اس آپریشن کے بعد مجھے گھر پہنچنے میں ایک ڈیڑہ گھنٹہ لگ گیا تھا۔ جس کے بعد میں گھر آیا تو اپنے بیٹے کو کہا کہ کشتی سوزوکی سے نہیں اتارنا بہت تیز بارش ہوئی ہے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
یہ کہہ کر میں آرام کرنے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ اچانک باہر سے کوئی آیا اور اس نے کہا کہ جلدی کرو لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ حالات بہت خراب ہیں۔
اتنا بھپرا دریا پہلے نہیں دیکھا۔
محمد ہلال کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹے اور بھائی کے ہمراہ فورا نکل گیا۔ مینگورہ کی ٹریفک بدترین ہوتی ہے مگر وہ کار والا سوزوکی کے آگے چلتے ہوئے لائیٹیں لگا کر راستہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ میں نے بھی اپنے بیٹے کو کہا کہ لائٹ لگاو اور جلدی پہنچو۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم موقع پر پہنچے تو بہت لوگ کھڑے تھے۔ میں فورا کشتی تیار کی اور دریا میں ڈال دی۔ دریا بہت تیز تھا۔ میری زندگی دریائے سوات میں گزری تھی مگر اس سے پہلے اس مقام پر اتنا تیز پانی نہیں دیکھا تھا۔ جس مقام پر وہ لوگ پھنسے ہوئے تھے وہاں پر کچھ عرصہ پہلے تک دریا تھا مگر کچھ عرصہ سے وہ جگہ خشک ہو چکی تھی۔ محکمے والے کوئی بند وغیرہ بنارہے تھے جس کے ملبے پر وہ لوگ کھڑے تھے۔
محمد بلال کا کہنا تھا کہ اس مقام پر سیمنٹ کا ایک پرانا پل بھی گرا ہوا تھا اور اسی جگہ پر سریا بھی موجود تھا۔ وہاں پر بڑے بڑے پتھر بھی تھے۔ کشتی تیز پانی کی وجہ سے بہت تیز چل رہی تھی۔ کئی مرتبہ تیز پانی نے رخ موڑا مگر میں بچپن سے اپنے والد کے ساتھ یہی کام کر رہا تھا اس لیے حوصلہ باقی رکھا اور کشتی کو پھنسے ہوئے افراد تک پہنچایا۔
وہاں پر تین لوگ تھے۔ میں نے جب کشتی دریا میں ڈالی تو جس ملبے پر کھڑے تھے وہ بہت ہی کم رہ گیا تھا۔ جس سے مجھے پتا چل گیا کہ وقت کم ہے۔ جب چند منٹ میں ان کے پاس پہنچا تو وہ ملبہ بھی تقریبا ختم ہوچکا تھا۔ بزرگ شخص نے بچی کو اٹھایا ہوا تھا جب کہ لڑکے کو پکڑا ہوا تھا۔
اس واقعے نے مجھے زیرہ زیرہ کر دیا
محمد ہلال کہتے ہیں کہ بزرگ نے دھکا دے کر لڑکے کو کشتی میں بٹھایا اور خود بھی چھوٹی بچی کو اٹھا کر کشتی میں بیٹھ گیا۔ اس وقت وہ بالکل خواس باختہ تھا اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اس کی حالت بالکل ایسی تھی جس نے موت کو اپنے سامنے دیکھ لیا ہوا۔ بس ایک ہی بات کررہا تھا کہ خدا خیر کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ واپسی کا سفر مزید مشکل تھا کہ پانی کا ریلہ بہت تیز ہوگیا تھا۔ کوئی بھی ریلہ آتا تو وہ کشتی کو اوپر اٹھا دیتا تھا۔ واپسی کے سفر میں کئی مرتبہ ریلے سے کشتی کا بیلنس خراب ہوا مگر پھر چل پڑتی۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک آپریشن کیا تھا مگر مجھے تھکاوٹ کا کوئی احساس نہیں ہو رہا تھا۔
محمد ہلال کہتے ہیں واپس جب میں کنارے پر پہنچا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں بھی بچ گیا ہوں اور یہ تین لوگ بھی بچ گئے ہیں۔ جس کے بعد میں دوبارہ ایک اور شخص کو بچانے کے لیے نکل گیا، وہ دوسری طرف پھنسا ہوا تھا مگر لیکن خطرے سے باہر تھا۔
مجھے بعد میں پتا چلا کہ اس واقعہ میں تو کئی لوگ پانی میں ڈوب گئے تھے۔ سب تماشا دیکھتے رہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ڈوب گئے۔ اس واقعہ نے مجھے زیرہ زیرہ کر دیا ہے کہ کیسے وہ بچے دیکھتے دیکھتے ڈوب گئے اور کوئی کچھ نہ کر سکا۔
محمد ہلال 6 بچوں کے والد ہیں۔ وہ سالوں سے دریا سے لوگوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔ دریا سے واقفیت، تیرنا کشتی چلانا انھوں نے اپنے والد سے سیکھا ہے۔ 10 سال کی عمر میں وہ اپنے والد کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ رات کو مچھلی پکڑ کو صبح سکول جانے سے پہلے فروخت کیا کرتے تھے۔
علاقے میں جب بھی کوئی ایسا حادثہ ہو تو لوگ ان کے والد کو بلاتے تھے اور یہ والد کے ساتھ جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں وہ کئی ریسیکو اپریشن کامیابی سے کرچکے ہیں جبکہ انتہائی خطرناک دریا سے کئی لوگوں کی لاشیں بھی نکال چکے ہیں۔