پاکستان سٹوریز رپورٹ
ایوان صدر نے سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کے معاملے پر صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر نے کا اعلان کردیا۔ ویب سائٹ ٹیوئیٹر پرکہا گیا کہ ’کل کے واضح بیان کے پیش نظر ایوان صدر نے صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔
ایوانِ صدر نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کے نام خط میں کہا ہے کہ صدر مملکت کے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں, لہٰذا ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو صدر مملکت کی سیکریٹری تعینات کیا جائے۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا
دوسری جانب ایوان صدر سے سبکدوش ہونے والے وقار احمد نے صدر عارف علوی کو خط لکھ کر اپنی بے گناہی او رکسی غلطی نہ کرنے پر اصرار کیا ہے۔
وقار احمد نے اپنے دفاع میں کہا کہ بل ایوان صدر کو 2 اگست کو موصول ہوا۔ سیکریٹری کے دفتر سے صدر کے دفتر کو 3 اگست کو نوٹ کے ساتھ بھیجا گیا، جس میں کہا گیا کہ اختلاف یا بل واپس بھیجنے کے لیے 10 دن ہیں جو 11 اگست کو مکمل ہوں گے۔ مگر معزز صدر مملکت نے بل کی نہ تو مخالفت کی اور نہ ہی نظرثانی کے لیے واپس بھیجنے کی تحریری اجازت دی۔ فائل تاحال سیکریٹری کے دفتر کو نہیں بھیجی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 8 اگست کو موصول ہوا۔ سیکریٹری کی جانب سے 9 اگست کو صدر کے دفتر بھیج دیا گیاجس کے ساتھ نوٹ میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی کے پاس بل سے اختلاف یا واپس بھیجنے کے لیے 10 دن ہیں۔
وقار احمد نے خط میں کہا کہ صدر مملکت نے کوئی جواب نہیں دیا اور بل تاحال سیکریٹری کے دفتر کو نہیں بھیجا گیا۔
انہوں نے خط مین دعوی کیا کہ مذکورہ حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ میں نے تو ان بلز کے حوالے سے نہ تو تاخیر کی نہ ہی کسی قسم غفلت یا غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا جبکہ فائلز ابھی تک یعنی 21 اگست تک صدر کے دفتر میں موجود ہیں جبکہ صدر عارف علوی نے وقار احمد کی خدمات واپس کیں جو انصاف کی بنیاد پر نہیں ہے۔
خط میں صدر مملکت سے درخواست کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کہ اس کی تحقیقات ایف آئی اے یا کسی اور ادارے کے ذریعیکروانے کے احکامات صادر کریں تاکہ حقائق کا تعین ہو اور اگر کسی افسر یا عہدیدار کی جانب سے کسی قسم کی غلطی ہوئی ہے تو اس کوتاہی کی ذمہ داری بھی عائد ہو۔
وقار احمد نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ یا کوئی عدالت ان بلز کے حوالے سے وضاحت کے لیے مجھے طلب کرتی ہے تو میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پیش کروں گا۔
وقار احمد نے درخواست کی کہ ان کے بطور صدر کے سیکریٹری خدمات واپس کرنے کا خط بھی واپس لیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاک آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کی منظوری کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری تردید بیان میں کہا تھا کہ ’خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر عارف علوی کیجانب سے کہا گیا تھا کہ میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت کے اس بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں
کینیڈا میں کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیئے بھی ملازمتیں
بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی