برطانیہ میں بے رحمانہ انداز میں قتل ہونے والی دس سالہ بچی سارہ شریف کے قتل میں برطانوی پولیس کو پاکستان میں موجود اس کے والد،چچا اور سوتیلی ماں کی تلاش ہے۔ برطانیہ کی پولیس نے عرفان شریف، فیصل ملک اور بینش بتول کی تلاش کے لیئے پوری دنیا میں تلاش کا کام شروع کردیا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا ہے کہ ان لوگوں نے سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل نو اگست کو برطانیہ چھوڑ دیا تھا۔
برطانیہ کی کاونٹی سرے پولیس کے مطابق عرفان شریف نے ایمرجنسی پولیس نمبر 999 پر کال ملائی تھی۔ عرفان شریف پاکستان اپنی اہلیہ، چچا اور پانچ بچوں کے ہمراہ پہنچے تھے جس کے بعد انھوں نے برطانیہ میں ایمرجنسی سروسز کو کال کی تھی۔
اس کال کے بعد وہ اس گھر گے جہاں پر انھوں نے سارہ شریف کی لاش بر آمد کی تھی۔ لاش پر مختلف اور شدید چوٹیں موجود تھیں جو کہ مختلف اوقات کی ہیں۔ لاش کا پوسٹ مارٹم کرلیا گیا ہے موت کی وجہ تعئین کرنے کے لیئے مزید ٹیسٹ کیئے جارہے ہیں ہیں۔
اس سے قبل برطانیہ کی سرے پولیس نے کہا تھا کہ انھیں ایک کال دس اگست کو موصول ہوئی تھی۔ یہ کال حفاظتی نقطہ نظر کے حوالے سے تھی۔ جس وقت لاش بر آمد ہوئی اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔
پولیس کے تفتیشی اہلکار مارک چیپمین نے بتایا کہ وہ ’کراؤن پروسیکیوشن سروس، انٹرپول، نیشنل کرائم ایجنسی، کامن ویلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ آفس کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ پاکستانی حکام کے تعاون سے تفتیش کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘
بی بی سی نیوز نے ووکنگ میں ایک ٹریول ایجنٹ سے بات کی جس نے بتایا کہ سارہ شریف کے والد عرفان شریف نے منگل (8 اگست) کو ان سے رابطہ کیا اور انھیں کہا کہ وہ جلد از جلد پاکستان کے لیے ٹکٹ بُک کرنا چاہتے ہیں۔ ندیم ریاض نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے، آپ جلد از جلد بکنگ کیوں کروا رہے ہیں، تو انھوں نے کہا کہ میرے کزن کی وفات ہوگئی ہے، اس لیے ہم پاکستان جا رہے ہیں۔‘
ٹریول ایجنٹ نے بتایا کہ عرفان شریف نے اپنے بھائی، بیوی اور پانچ بچوں سمیت آٹھ یک طرفہ ٹکٹ بُک کروائے تھے۔
ندیم ریاض نے تصدیق کی کہ یہی ٹکٹس استعمال کیے گئے ہیں۔
اخبار ’دی سن‘ سے بات کرتے ہوئے سارہ کی والدہ نے اپنی بیٹی کی موت پر غم کا اظہار کیا اور بتایا کہ انھیں یقین نہیں ہو رہا کہ ان کی بیٹی اب زندہ نہیں ہے۔
عرفان شریف (بچی کی والدہ) کی سارہ کے والد سے طلاق ہو گئی تھی اور فی الحال بچی کی کسٹڈی والد کے پاس تھی۔ اب میری زندگی پہلی جیسی نہیں ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری بیٹی ایک شاندار اور بہت چھوٹی لڑکی تھی۔وہ اب واپس نہیں آسکتی ہے میں اب صرف اس اچھے وقت کو یاد کر سکتی ہوں جو میں نے اس کے ساتھ گزارا۔‘
گھر کے بالکل سامنے رہنے والے ایک پڑوسی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ چھ بچوں کے ساتھ ایک پاکستانی خاندان چھ ماہ سے بھی کم عرصے سے اس گھر میں مقیم رہا تھا۔
ایک اور پڑوسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’بچی عموماً اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور خاص طور پر سب سے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال میں مدد کرتی نظر آتی تھی۔‘
قتل کے اس واقعہ نے برطانیہ کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ پولیس تندہی سے ملزماں کو گرفتار کررہی ہے۔ پاکستانی احکام نے نہیں بتایا کہ وہ برطانیہ نے اس سے باضابطہ مدد طلب کی ہے کہ نہیں۔
کوئٹہ چرچ حملے میں ٹانگ کھو دینے والی طالبہ کی کہانی
برفانی تیندوا: چار کھالوں کی قیمت تیس لاکھ جبکہ جُرمانہ صرف چار لاکھ