سر جیمز ایبٹ ایبٹ آباد کے پہلے ڈپٹی کمشنر اور بانی تھے۔ وہ عموماً بھیس بدل کر عام لوگوں میں گھل مل جاتے تھے۔ یہاں تک کے ایبٹ آباد شہر سے تیس کلو میٹر دور شیران کے علاقے میں بھی بھیس بدل کر قیام پذیر رہے تھے۔ تاریخ کے اندر وہ انتہائی دلچسپ کردار تھے۔ انگریز فوج میں اہم خدمات انجام دیتے رہے تھے، مزید جانیں
قلندر تنولی
پاکستان سٹوریز رپورٹ
جب بھی ایبٹ آبا د کا نام آتا ہے تو اس کو جنرل سر جیمز ایبٹ کا نام ضرور ذھن میں کونجتا ہے۔ اس لیئے کہ ایبٹ آباد شہر کو بسانے والے سرجیمز ایبٹ تھے یہ شہر اب بھی ان کے نام پر ہے۔
جیمز ایبٹ اب کہ ڈویثرن اور اس کے دور 1849ء سے 1853 میں ضلع ہزارہ, کے پہلے ڈپٹی کمشنر رہے تھے جس کا ہیڈ کوارٹر ان کا اپنا بسایا گیا شہر ایبٹ آباد ٹھرا تھا۔ ایبٹ آباد اور ہزارہ میں اب بھی سر جیمز ایبٹ کے حوالے سے دلچسپ کہانیاں گردش کرتی رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کہانیوں پر نظر ڈالیں پہلے دیکھتے ہیں کہ سر جیمز ایبٹ کون تھے۔
سکھوں کی عمل داری ختم کرنے والے
دستیاب ریکارڈ کے مطابق سر جیمز ایبٹ 12 مارچ 1807ئکو پیدوا ہئے 6 اکتوبر 1896ء کو ان کا انتقال ہوا۔ وہ ایک برطانوی فوجی افسیر تھے۔ ان کے والد کا نام ہینری الیکسیس ایبٹ تھا۔ جو کلکتہ میں تعینات مرچنٹ نیوی کے بیڑے سے ریٹائر افسر تھے۔
جیمز ایبٹ نے بنگال آرٹلری میں سولہ سال کی عمر میں اپنی خدمات شروع کیں۔ جیمز ایبٹ نے ہندوستان میں کئی مقامات پر اپنی خدمات پیش کیں لیکن ان کی یادگار خدمات ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے میں ہیں جو انھوں نے انیسویں صدی کے وسط میں سر انجام دیں۔
جیمز ایبٹ ہینری لارنس کے مشیران میں سے تھے اور انھوں نے انگریزی افواج کی سکھوں کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم منطقی مشوروں سے برطانوی افواج کو کامیابیاں دلائیں۔
لاہور میں ہوئے معایدے جو سکھوں کے خلاف انگریزوں کی پہلی جنگ کے بعد طے پایا تھا، ہزارہ اور کشمیر کا علاقہ گلاب سنگھ کے حوالے کیا جاتا تھا۔ ہزارہ بہر حال تخت لاہور کے زیر اثر رہا اور جیمز ایبٹ نے اس کی حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی اور صرف ایک سال کے عرصہ میں حکومت پر مکمل قبضہ کر لیا۔
علامہ اقبال ایبٹ آباد اور سربن پہاڑی
ضلع ایبٹ آباد
پاکستان میں حالیہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد جو ضلع ایبٹ آباد کا صدر مقام ہے، کا نام بھی سر جیمز ایبٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔
بھیس بدل کر عام لوگوں میں گھل مل جاتے تھے
دنیا بھر میں اسامہ بن لادن کی وجہ سے شہرت پانے والا ایبٹ آباد تاریخی طور پر کوئی زیادہ پرانا شہر نہیں۔
سر جیمز ایبٹ کو آغاز میں ہری پور میں تعنیات کیا گیا تھا مگر بعد میں سر جیمز ایبٹ نے ایبٹ آباد کی بنیاد رکھ کر پہلی چھاؤنی اور کنٹونمنٹ کی بنیاد رکھی تھی۔
محقق صاحبزادہ جواد الفیضی کے مطابق سر جیمز ایبٹ بنیادی طور پر فوجی اور جنگجو تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مستقبل کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس علاقے میں فوجی چھاؤنی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں ایبٹ آباد کو اہم فوجی مقام حاصل ہو گیا تھا۔
یہاں پر بعد میں انگریز کی فوج کے اہم ڈویثرن، سپلائی لائن اور کئی رجمنٹ قائم ہوئے تھے۔
صاحبزادہ جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ سرجیمز ایبٹ کو ہزارہ میں انگریز حکومت کی عملداری قائم کرنے کے لیے بھجا گیا تھا۔ انھوں نے یہ کام انتہائی حکمت عملی سے کیا تھا۔ وہ عموماً بھیس بدل کر عام لوگوں میں گھل مل جاتے تھے۔ یہاں تک کے ایبٹ آباد شہر سے تیس کلو میٹر دور شیران کے علاقے میں بھی بھیس بدل کر قیام پذیر رہے تھے۔
تاریخ کے اندر وہ انتہائی دلچسپ کردار تھے۔ کئی تاریخی حوالوں میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے لوگوں کے حالات کو سمجھنے کے لیے بھیس بدل کر امام مسجد کا روپ بھی دھارا تھا۔ ہزارہ میں ان کی شہرت ایک رحمدل اور انصاف پسند ڈپٹی کمشنر کی تھی۔
جواد الفیضی کا کہنا تھا کہ سر جیمز ایبٹ سنہ 1853 میں ہزارہ سے تبادلے پر بہت غمزدہ ہو گئے تھے۔ اس موقع پر انھوں نے ایبٹ آباد کے نام ایک مشہور زمانہ نظم لکھی تھی۔ جس کو پڑھ کر ان کی اس شہر سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سر جیمز ایبٹ کو ہزارہ میں امن وامان قائم کرنے کے علاوہ کئی فوجی مہمات میں حصہ لینے پر کئی ایواڈوں سے بھی نوازا گیا تھا۔