ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومدنیافٹ کے شہنشاہ پیلے کی جدوجہد اور کامیابیوں کی کہانی

فٹ کے شہنشاہ پیلے کی جدوجہد اور کامیابیوں کی کہانی

والد سے ورلڈ کپ جیتنے کا وعدہ سترہ سال کی عمر میں پورا کرلیا۔ پچاس سال کی عمر میں پہلی مرتبہ برازیل کی کپتانی کی۔ قومی خزانہ قرار پائے، ساری زندگی کسی بھی یورپین کلب کی جانب سے نہیں کھیلے۔ شہنشاہ کی زندگی کا مزید احوال جانیں۔

پاکستان سٹوریز رپورٹ

پیلے کی وفات کی خبر سن کر برازیل کے سب سے بڑے ہسپتال ساؤ پاؤلو میں ایلبرٹ آئن سٹائن ہسپتال میں ان کے مداح اکھٹے ہو رہے تھے۔ کئی نے 10 نمبر کی شرٹس پہن رکھی تھیں جو پیلے دوران کھیل پہنا کرتے تھے۔

ہسپتال کے باہر ایک بینر آویزاں کیا گیا ہے جس پر ’امر شہنشاہ پیلے‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔

یہ وہ لمحہ ہے جس کی برازیلین لوگوں کے لیے متوقع تو تھا لیکن یہ ان کے لیے درد ناک بھی ہے۔ جب پیلے کے گزر جانے کی خبر آئی تو یہ لوگوں کے لیے ایک بڑا لمحہ تھا۔

ہسپتال نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس کی بڑی آنت کے کینسر کے باعث ایک سے زیادہ اعضا کی ناکامی کے بعد ان کی موت کی تصدیق کی گئی تھی لیکن یہ صرف ایک طبی خبر سے زیادہ تھا، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتال ’فٹ بال کے شہنشاہ‘ کو کھونے پر ان کے خاندان اور عوام کے دکھ میں شریک ہے۔

ہر برازیلین بلکہ فٹ بال کے شائقین ککے لیئے دنیا بھر میں پیلیکی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

پرانی نسلوں نے انھیں ایک کھلاڑی کے طور پر یاد کیا، نوجوان برازیلیوں کو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں بتایا گیا لیکن انھوں نے اس فٹ بالنگ قوم میں لوگوں کو متحد کیا۔

صدی کا بہترین کھلاڑی

پیلے نے اپنے 21 برس کے کیریئر میں 1,363 میچوں میں 1,281 گول کیے، جس میں برازیل کے لیے 92 میچوں میں 77 گول بھی شامل ہیں۔ وہ 1958، 1962 اور 1970 میں تین بار ورلڈ کپ جیتنے والی برازیل کی ٹیم کا حصہ تھے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ پیلے سنہ 2000 میں فیفا کے صدی کے بہترین کھلاڑی قرار دیے گئے۔

پیلے دنیا کے وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے بطور کھلاڑی فیفا ورلڈکپ تین مرتبہ جیتے ہیں اور وہ صرف 17 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی بار 1958 میں یہ ٹرافی اٹھائی تھی۔ پیلے کا یہ ریکارڈ شاید اس دنیا میں اب توڑنا ممکن نہ ہوسکے۔

پیلے نے یہ سب کیسے حاصل کیا۔ اس کے پیچھے ایک طویل کہانی ہے۔ یہ کہانی ہوش سے زیادہ جذبات اور جوش کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب پیلے صرف دس برس کے تھے۔ جب انھوں نے والد کو روتے دیکھا۔

والد سے کیا گیا وعدہ

مختلف میڈیا کو دیے گئے اپنے مختلف انٹرویو میں پیلے نے بتایا تھا کہ جب وہ نو یا دس برس کے تھے تو انھوں نے اپنے والد کو برازیل کی ٹیم کے ہارنے پر دھاڑیں مارتے دیکھا۔

یہ وہ لمحہ تھا جب پیلے سے اپنے والد کا رونا دیکھا نہ جاسکا تھا۔ اس وقت نہ جانے پتا نہیں کون سا لمحہ تھا جب پیلے نے اپنے والد سے ایک وعدہ کیا اور اس وعدے کو پورا کرنے کے لیئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔

پیلے نے بتایا کہ انھوں نے اپنے والد سے کہا آپ پریشاناور خفا نہ ہوں۔ میں اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ جیت کر لاؤں گا۔

ان کے مطابق پھر آٹھ برس بعد 17 برس کی عمر میں خدا نے انھیں وہ تحفہ دیا اور وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو ورلڈ کپ کی فاتح بنی۔

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کے انھوں نے اپنے والد سے یہ وعدہ کس اعتماد کی بنیاد پر کیا تھا مگر وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب رہے۔

مگر ان کے وعدے کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس کے بارہ برس بعد میکسیکو میں کھیلے گے ورلڈ کپ پر نظر ڈالے جائے۔

اسورلڈ کپ میں پیلے کی تعریف میں اٹلی کے ڈیفینڈر ٹارسزیو برگنچ نے ایک ایسی بات کہی جو آج بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ اٹلی کی ٹیم نے برگنچ کو فائنل میں پیلے کی مارکنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاکہ پیلے کو روکا جاسکے۔

ر ٹارسزیو برگنچ نے کہا کہ ’میں نے خود کو میچ سے پہلے یہ بات باور کروائی کہ ’یہ بھی ہم سب کی طرح گوشت پوست سے بنا ایک انسان ہے‘ لیکن میں غلط تھا۔‘

پیلے نے اس میچ میں ایک گول سکور کیا جبکہ دو اسسٹ کیے اور یوں برازیل اور پیلے نے اپنا تیسرا ورلڈکپ جیت لیا۔ یہ گول ان کے کریئر کے 1200 سے زیادہ گولز میں سے ایک تھا۔

یہ اس عظیم فٹ بالر کے کارنامے تھے جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ وہ صرف ایک شاندار فٹ بالر ہی نہیں تھے بلکہ ایک شاندار انسان ہی تھے۔

برازیل کا قومی خزانہ

وہ ایک ایسے فٹ بالر تھے جو صرف برازیل کے ہو کر رہے، بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے بجائے کئی سالوں تک سانٹوس کے لیے ہی کھیلتے رہے۔ ایسا کرنا حقیقت میں بہت مشکل تھا مگر پیلے نے یہ کرکے دکھایا۔

برازیل کے صدر جانیو کواڈروس نے 1961 میں انھیں ایک قومی خزانہ بھی قرار دیا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ برسوں تک انھیں بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے لیے ’برآمد‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی ہیرو والی حیثیت اور اہمیت ایک قومی فخر تھی۔

ایک ایسے ملک میں جہاں نسل پرستی اور طبقاتی تعصب اب بھی غالب ہے، پیلے ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام فٹبالر کی کامیابی کی ایک ناقابل یقین کہانی تھے۔

انھوں نے نسل پرستی کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی، ایک ایسا موقف جس کی وجہ سے انھیں بعض اوقات تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن انھوں نے ملک کو متحد کرنے اور غریب ترین برازیلیوں کو بھی مواقع فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ فٹ بال کی طاقت کو استعمال کیا۔

خانہ جنگی کو رکوا دیا

سنہ 1960 کی دہائی میں پیلے کی سینٹوس ایف سی دنیا کی مشہور ترین فٹ بال ٹیموں میں سے ایک تھی اورانھوں نے اس شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر میں دوستانہ میچ کھیلے جو بہت منافع بخش تھے۔

ان میں سے ایک میچ جنگ زدہ نائجیریا میں چار فروری 1969 کو کھیلا گیا تھا، سینٹوس نے بینن سٹی میں مقامی الیون کو دو کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دی تھی۔

نائجیریا اس وقت ریاست بیفرا کی علیحدگی کی کوشش کے نتیجے میں خونریز خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

سینٹوس ایف سی کے مورخ گیلرمے گارچے کے مطابق برازیل والے اپنے وفد کی حفاظت کے بارے میں پریشان تھے لہذا فریقین کے مابین جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا۔

اس واقعہ کا ذکر پیلے نے اپنی سوانح عمری میں بھی کیا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ کھلاڑیوں کو بتایا گیا تھا کہ ’ان کے نمائشی میچ کے لیے خانہ جنگی روک دی جائے گی۔‘

پیلے نے لکھا: ’ٹھیک ہے، مجھے یقین نہیں کہ یہ مکمل طور پر سچ ہے لیکن نائجیریا نے یہ یقینی بنایا کہ جب ہم وہاں ہوں گے تو بایافران حملہ نہیں کریں گے۔‘

پچاس سال کی عمر میں کپتانی

پیلے نے اپنی جوانی اور عروج کے دور میں کبھی بھی کلب اور اپنے ملک کی کپتانی نہیں کی تھی۔ وہ خود ہمیشہ اس ذمہ داری کو لینے سے انکاری تھی۔ مگر پچاس برس کی عمر میں انھوں نے برازیل کی کپتانی کی تھی۔

یہ واقعہ سنہ 1990 میں قومی ٹیم کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے 19 سال بعد پیش آیا۔

انھوں نے اپنی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر میلان میں برازیل بمقابلہ ریسٹ آف دی ورلڈ کے دوستانہ میچ میں حصہ لیا تھا جس میں پیلے نے میچ کے پہلے 45 منٹ کھیلے۔

برازیل کو 2-1 سے شکست ہوئی مگر اس کی وجہ شہرت کچھ اور بنی۔ فلومینینس کے سٹرائیکر رونالڈو تھے جن کے پاس ایک موقع آیا تھا کہ وہ پیلے کو پاس دیتے اور وہ باآسانی گول سکور کر پاتے لیکن پیلے کے اعزاز میں منعقدہ اس میچ میں رونالڈو نے خود گول کرنے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے۔

درحقیقت برازیل اور پوری دنیا میں ان کو جتنی عزت اور احترام ملا یہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ وہ اب اس دنیا ممیں نہیں رہے مگر جس طرح قوم ان کی موت پر افسردہ ہے ایسا شاید کسی مقبول ترین رہنما کی موت پر بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔

 

 

گزشتہ مضمون
اگلا مضمون
متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین