اپ ڈیٹ 14:30 پر
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سیعمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کا حکم جاری ہونے کے باوجود عمران خان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کے فورا بعد ہی ایک خصوصی عدالت نے انھیں سائفر گمشدگی کیس میں اٹک جیل ہی میں زیر حراست رکھنے اور 30 اگست (بدھ) کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
آفیشل سیکرٹس ایکٹ عدالت کے جج کی جانب سے جاری کردہ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان سائفر گمشدگی کیس میں نامزد ہیں اور زیر تفتیش ہیں چنانچہ انھیں اس کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر اٹک جیل میں ہی رکھا جائے۔
اسلام ہائی کورٹ نے توشہ خانہ میں سزا معطلی کی عمران خان کی درخواست کو منظور کرلیا ہے۔ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دویثرنل بینچ نے سنایا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اگر عمران خان کسی او ر کیس میں مطلوب نہیں تو ان کو فی الفور رہا کردیا جائے۔
پاکستان سٹوریز کو دستیاب معلومات کے مطابق عدالت کی جانب سے معطلی کا فیصلہ آنے کے باوجودفی الحال عمران خان کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ ان کو سائفر کیس میں گرفتار کیا جارہا ہے جبکہ سات دیگر کیسوں میں ان کی ضمانتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔
منسوخ ضمانتوں کے فیصلے خلاف عمران خان کے وکلائی ہائی کورٹز اور سپریم کورٹ سے رجوع کررہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے 5 اگست کو اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالتنے عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ جس پر انھیں گرفتار کرکے اٹک جیل بھج دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف عمران خان کے وکلاء نے اپیل دائر کی تھی۔ جس کی سماعت 9 اگست کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔
عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کے ابتدائی دلائل ے بعد فریقین کو نوٹسز جاری ہوئے اور سماعت کو 10 اگست تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث اگلے روز سماعت نہیں ہوسکی تھی۔
دوسری سماعت 22 ستمبر کو ہوئی۔ جس میں لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے طویل دلائل دیے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی تاہم لطیف کھوسہ کے احتجاج کے باعث سماعت 2 دن تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
اسی دوران 23 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی ایڈیشنل سیشن عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ابتدائی سماعت میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو بادی النظر میں غلط قرار دیتے ہوئے سماعت ایک روز تک ملتوی کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک کوئی حکمنامہ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگلے روز دوبارہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی تو لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے 3 نکات پر اپنے دلائل دیے۔
لطیف کھوسہ کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے سزا معطلی کی درخواست پر ریاست کو فریق نہ بنانے سے متعلق پونے گھنٹے تک دلائل دیے۔ جس کے بعد تقریباً آدھے گھنٹے تک امجد پرویز ایڈووکیٹ نے گوشوارے میں اثاثے چھپانے سے متعلق دلائل دیے۔ سماعت اگلے روز یعنی جمعہ 25 اگست تک ملتوی کردی گئی۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے ایک بار پھر سماعت ملتوی کرنے پر تحفظات کا اظہار کیاتھا۔
اسی روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
جمعہ 25 اگست کو سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے معاون نے عدالت کو بتایا کہ امجد پرویز کو ڈاکٹرز نے بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا ہے ان کی طبیعت ناساز ہے۔
عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کی تو کمرہ عدالت اور احاطے میں پی ٹی آئی کے وکلا نے شدید نعرہ بازی بھی کی۔
اسی دوران لطیف کھوسہ غصے میں کمرہ عدالت سے اور لفٹ میں سوار ہوئے تو لفٹ یکدم خراب ہوگئی اور ایک گھنٹے کے بعد انہیں 2 درجن سے زائد وکلا اور صحافیوں سمیت سی ڈی اے کے عملے نے ریسکیو آپریشن کے ذریعے باہر نکالا۔
پیر کو الیکشن کمیشن کے وکیل نے ساڑھے 3 گھنٹے تک طویل دلائل دیے۔ امجد پرویز کے دلائل مکمل مکمل ہونے کے بعد لطیف کھوسہ نے مختصر جواب الجواب دیے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
بجلی اتنی مہنگی کیوں حقائق جانیں؟، مہنگی بجلی کے خلاف عوامی احتجاج جاری
آسڑیلیا کو ہزاروں ہنر مندوں کی ضرورت، امیگریشن قوانین میں نرمی، مکمل تفصیلات جانیں
سوشل میڈیا نے ایک سو دس سالہ بابا کی شادی اختتام پزیر کروا دی۔