ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماضلاعضلع ایبٹ آباد

ضلع ایبٹ آباد

نوٹ:پاکستان سٹوریز کو ضلع ایبٹ آباد سے صحافت سے دلچسپی رکھنے والے اعزازی رپورٹرز کی ضرورت ہے۔

Picture Credit history pak dot com

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع ایبٹ آباد صوبے ہی کا نہیں بلکہ پاکستان کا اہم شہر ہے۔ اس شہر کی بنیاد انگریز دور میں سر ایبٹ جیمز نے رکھی تھی۔ ان ہی کے نام پر اس شہ رکا نام آباد قرار پایا ہے۔

اصل میں اپنے محل و قوع کی وجہ سے انتہائی پر فضا اور اہم مقام پر ہونے کی وجہ سے اس کو انگریز دور میں چھاونی بنایا گیا ہے۔ اس شہر کا یہ مقام اب بھی بحال ہے۔ پاکستان کی واحد ملٹری اکیڈمی کے علاوہ بلوچ، ایف رجمنٹ کے تربیتی مراکز بھی اس ہی شہر میں موجو دہیں۔

ایبٹ آباد سطح سمندر سے 4120 فٹ بلندری پر واقع ہے ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد سے 101 کلومیٹر دور یہ پاکستان کا پرفضا مقام ہے۔2017 کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 208,491 افراد پر مشتمل ہے اور 94 فیصد افراد کی مادری زبان ہندکو ہے۔اس کے علاؤہ,گجر برادری گوجری بولتی ہے اور پشتو بھی بولی جاتی ہے

 

ایبٹ آباد کی مختصر تاریخ

آبیٹ آباد کے زیادہ تر لوگ پہاڑی علاقے میں رہائش پزیر ہیں یہاں کے زیادہ تر لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ سے منسلک ہیں۔

جنوری 1853 میں برطانوی راج کے دوران ضلع ہزارہ کا صدر مقام کی حیثیت سے اس شہر کو آباد کیا گیا۔ پنجاب کے الحاق کے بعدمیجر ایبٹ جیمز 1849 سے اپریل 1853 تک ضلع ہزارہ کے پہلا ڈپٹی کمشنر رہے۔

میجر ایبٹ کی برطانیہ واپسی سے قبل ” ایبٹ آباد ” کے نام سے ایک نظم لکھنے کے لیے مشہور ہے، جس میں انہوں نے اس شہر سے محبت اور اس کے دکھ کی بات لکھی ہے۔ اسے چھوڑنا ہے۔جو قابل ذکر ہے۔

اس دوران کے دوران چیف پبلک ادارے بنائے گئے جیسے البرٹ وکٹر انیڈائیڈڈ اینگلو ورناکولر ہائی اسکول، میونسپل اینگلو ورناکولر ہائی اسکول اور گورنمنٹ ڈسپنسری۔ 1911 میں، آبادی بڑھ کر 11،506 ہو گئی تھی اور اس شہر میں گورکھوں کی چار بٹالین موجود تھیں۔ جون 1948 میں، برطانوی ریڈ کراس نے ایبٹ آباد میں ایک اسپتال کھولا جس سے ہزاروں زخمیوں کو کشمیر سے لایا جارہا تھا۔

اکتوبر 2005 میں ایبٹ آباد کشمیر کے زلزلے سے تباہ ہوا تھا۔ اگرچہ ایبٹ آباد کا بیشتر حصہ زندہ بچ گیا، لیکن بہت سی پرانی عمارتیں تباہ یا شدید نقصان پہنچی ہیں۔

دنیا کے سب سے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کی تلاش کا آپریشن امریکہ نے 2011 میں ایبٹ آباد میں کیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران امریکہ نے دعوی کیا تھا کہ اس نے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے اس کی لاش سمندر برد کردی ہے۔

تعیمی ادارے اور سیاحت

ایبٹ آباد کو سکولوں اور کالجوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ شہر میں کئی مشہور زمانہ سکول اور پروفیشنل تعلیمی ادارے ہیں۔ جن میں ایوب میڈیکل کالج، ایبٹ آباد پبلک سکول، آرمی برن ہال اور بہت سے دوسرے ہیں۔

علامہ اقبال ایبٹ آباد اور سربن پہاڑی

سر جیمز ایبٹ جاسوس یا فاتح فیصلہ تاریخ پر

تعلیمی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔پاکستان کے کے ہر علاقے سے ہر سال سیکڑوں بچے پڑھنے آتے ہیں۔

ایبٹ آباد اپنے پرفضا مقامات کی وجہ سے مشہور ہے۔ سر سبز مقامات سے گھرے ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں بھی موسم خوشگوار ہوتا ہے۔

مظفراباد، خنجراب، ہنزہ، گلگت، سکردو جانے کے لیے ایبٹ آباد ایک جنکشن کا کام دیتا ہے۔ اہم تفریحی مقامات میں ‘ایو بیہ’ ہرنو،عزیز آباد،باغ بانڈی، بگنوتر نورمنگ، نمبلی میرا گیہ، کالاباغ، نتھیا گلی،اور ایوبیہ بھی’ شامل ہے۔

یہ علاقہ چار چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کانام رکھا گیا۔

یہ علاقہ 26 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور علاقے کی سیر کے لیے چیر لفٹ ہے جس سے علاقے کا نظارہ کیاجا سکتا ہے۔

ٹھنڈیانی، جس کا مطلب مقامی زبان میں سرد ہے ایک اہم تفریحی مقام ہے۔ پائن درختوں کے جھنڈ میں یہ ایک سطح مرتفع پر مشتمل پرفضا مقام ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 2700 میٹر ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اس کی دوری 31 کلومیٹر ہے اور ایبٹ آباد سے آسانی کے ساتھ وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔

شام کے وقت ایبٹ آباد شہر کی روشنیاں وہاں سے صاف دکھائی دیتی ہیں۔ مشرق کی طرف دریائے کنہار کے پرے کشمیر کی برفیلی پہاڑیان نظر آتی ہیں۔

ایبٹ آباد شہر کے علاوہ اس کے گاؤں بہی صاف اور پرفضاء ہیں۔ ایبٹ آباد کے مشہور گاؤں میں مالسہ جو ایک وادی نما خطہ ہے بہت خوبصورت ہے۔ ایک ستوڑہ گاؤں ہے۔ جو ایبٹ آباد سے 15 کلو میٹرکے فاضلہ پر ہے۔ یہ چاروں طرف سے خوبصورت پہاڑوں کے درمیان میں واقع ہے یہ پیالہ نما وادی ہے۔-

سیاہ پوش ہوا پہاڑ سربن کا

ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے بھی ایبٹ آباد کے مشہور زمانہ سربن پہاڑی پر ایک نظم لکھی ہے۔ یہ نظم انھوں نے 1904 میں لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے ایبٹ آباد کا دورہ درحقیقت اپنے بھائی سے ملاقات کے کے لیئے کیا تھا جو کہ ملڑی ورکس افس میں ملازمت کرتے تھے۔

اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا

سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا

نہاں ہوا جو رخ مہر زیر دامن ابر

ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر

گرج کا شور نہیں ہے ، خموش ہے یہ گھٹا

عجیب مے کدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا

چمن میں حکم نشاط مدام لائی ہے

قبائے گل میں گہر ٹانکنے کو آئی ہے

جو پھول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے ، اٹھے

زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے ، اٹھے

ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا، اڑا بادل

اٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل

عجیب خیمہ ہے کہسار کے نہالوں کا

یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا

ایبٹ جیمز نے بھی ایبٹ آباد سے رخصتی کے وقت ایبٹ آباد کی خوبصورتی پر نظم لکھی ہے۔

I remember the day when I first came here
And smelt the sweet Abbottabad air

The trees and ground covered with snow
Gave us indeed a brilliant show

To me the place seemed like a dream
And far ran a lonesome stream

The wind hissed as if welcoming us
The pine swayed creating a lot of fuss

And the tiny cuckoo sang it away
A song very melodious and gay

I adored the place from the first sight
And was happy that my coming here was right

And eight good years here passed very soon
And we leave your perhaps on a sunny noon

Oh Abbottabad we are leaving you now
To your natural beauty do I bow

Perhaps your winds sound will never reach my ear
My gift for you is a few sad tears

I bid you farewell with a heavy heart
Never from my mind will your memories thwart

 

علامہ اقبال ایبٹ آباد اور سربن پہاڑی

سر جیمز ایبٹ جاسوس یا فاتح فیصلہ تاریخ پر

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین