ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماضلاععلامہ اقبال ایبٹ آباد اور سربن پہاڑی

علامہ اقبال ایبٹ آباد اور سربن پہاڑی

شاعر مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کا ایبٹ آباد سے ایک خصوصی تعلق ہے۔شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ علامہ اقبال نے ایبٹ آباد کی پہاڑی سربن پر ایک نظم بھی لکھی تھی۔ اس نظم کا ایک مصرعہ سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ ”سربن“ کا بہت مشہور ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کب اور کیسے ایبٹ آباد آئے اور یہ نظم کیسے لکھی گئی۔

Social Media The valley Of mountains Abbottabad

قلندر تنولی
پاکستان سٹوریز رپورٹ

تاریخ کے اوراق میں موجود ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے 1904 کے سال کے کچھ دن ایبٹ آباد میں گزاری تھے۔

ایبٹ آباد ہی سے انھوں نے دس اگست کو نشی دیانرائن نگم مدیر ماہنامہ زمانہ کانپور کو ایک خط لکھا تھا۔ اس میں خط میں اقبال نے ان سے کہا تھا کہ

جناب من! میں کئی روز سے یہاں ہوں، لیکن افسوس کہ یہاں پہنچتے ہی بیمار ہو گیا اور اسی وجہ سے آپ کے خط کا جواب نہ دے سکا، ابھی پورا افاقہ نہیں ہوا ہے، اشعار ارسال خدمت کرتا ہوں۔

ضلع ایبٹ آباد

سر جیمز ایبٹ جاسوس یا فاتح فیصلہ تاریخ پر

علامہ اقبال کب اور کیوں ایبٹ آباد رہے

علامہ اقبال تین جون کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے لیکچرار مقرر ہوئے تھے۔ اسی سال ان کی تصنیف ”علم الاقتصاد“ بھی منظر عام پر آئی۔ سال 1904 میں جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو علامہ اقبال نے چھٹیاں اپنے بڑے بھائی عطا محمد کے پاس گزارنے کا پروگرام بنایا جو کہ ایبٹ آباد میں ڈویژنل افسر ملٹری ورکس میں خدمات انجام دیتے تھے۔

اپنے اس قیام کے دوران علامہ اقبال نے ہائی اسکول ابیٹ آباد کے ہال میں ”قومی زندگی“ کے موضوع پر ایک طویل لیکچر بھی دیا تھا۔ جس میں ابیٹ آباد کے زعماء اور معروف شخصیات نے شمولیت اختیار کی تھی، بعد میں یہی لیکچر اکتوبر 1904ء میں ’مخزن‘ میں شائع ہوا تھا۔

ایبٹ آباد کے قیام کے دوران اقبالؒ کمپنی باغ جس کو آج کل باغ جناح کہا جاتا ہیچہل قدمی کے لیے آتے جاتے تھے۔ یہ کمپنی باغ بالکل شہر کے وسط میں ہے اس کے اردگرد اونچے پہاڑ ہیں اور پہاڑوں کے اوپر سے باغ کی جگہ بالکل پیالہ نما دکھائی دیتی ہے۔

ان پہاڑوں پر صبح اور شام کے وقت ایک عجیب دلفریب نظارہ ہوتا ہے۔ آج بھی آبادی بڑھ جانے کے بعد جب سربن اور دیگر پہاڑوں پر بادل چھائے ہوں تو اس وقت یہ نظارہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔

علامہ اقبال تو ایک حساس دل شاعر تھے۔ انھوں نے ان پہاڑوں بالخصوص سربن پہاڑی کے یہ نظارے دیکھ کر نظم ابر لکھی تھی۔

اٹھی پھر آج وہ پُورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہُوا پھر پہاڑ سربن کا
نہاں ہُوا جو رخِ مہر زیرِ دامنِ ابر
ہوائے سرد بھی آئی سوارِ توسنِ ابر
گرج کا شور نہیں ہے، خموش ہے یہ گھٹا
عجیب مے کدہ بے خروش ہے یہ گھٹا
چمن میں حکمِ نشاطِ مدام لائی ہے
قبائے گُل میں گُہر ٹانکنے کو آئی ہے
جو پھُول مہر کی گرمی سے سو چلے تھے، اُٹھے
زمیں کی گود میں جو پڑ کے سو رہے تھے، اُٹھے
ہوا کے زور سے اُبھرا، بڑھا، اُڑا بادل
اُٹھی وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل
عجیب خیمہ ہے کُہسار کے نہالوں کا
یہیں قیام ہو وادی میں پھِرنے والوں کا

سربن نام امر ہوگیا ہے۔

سربن پہاڑی یا کوہ سربن ایبٹ آباد کے بلند ترین اور خوبصورت پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ اس نام کی ایک سے زائد وجوہات بیاں کی جاتی ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ معروف اور تسلیم کی جانے والی وجہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سربن کا نام راجا ”رسالو“ کے والد ”سالباہن“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ راجا رسالو ہے دوسری صدی عیسوی کا ایک ہندو بادشاہ تھا۔ جو راجہ سالباہن کا بیٹا تھا۔ یہ یادوبنسی راجپوت تھا۔ آج بھی پاکستان اور بھارت میں ان کی کثیر تعداد موجود ہے۔

راجا رسالو کی ماں کا نام ”رانی لونا“ تھا۔ راجا رسالو گندھارا تہذیب کا ایک نامور کردار ہے۔ راجا ”رسالو“ راجا ”سالباہن“ کا بیٹا تھا۔ ”سالباہن“ کی حکومت سیالکوٹ سے راولپنڈی تک تھی۔ راجا ”سالباہن“ کی دوسری بیوی اچھراں تھی۔ جس کے نام لاہور میں اچھرہ پڑا ہے اور رانی اچھراں سے ایک بیٹا پورن بھگت بھی تھا۔

جب تک دنیا میں کلام اقبال باقی رہے گا اس کے ساتھ ”سربن“ پہاڑ کا ذکر بھی ہوتا رہے گا۔ سربن اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے مگر بڑھتی ہوئی آبادی، سربن کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے یہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

ضلع ایبٹ آباد

سر جیمز ایبٹ جاسوس یا فاتح فیصلہ تاریخ پر

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین