قلندر تنولی
ملک بھر میں میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹوں کے لیے اس سال امتحان 22 ستمبر کو منعقد کیا جا رہا ہے۔ امتحان لینے کا اختیار پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے پاس ہے۔ پی ایم ڈی سی اپنا یہ اختیار ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو منتقل کرتا ہے جس کے تحت آزاد کشمیر اور پاکستان کے چاروں صوبوں کی میڈیکل یونیورسٹیاں یہ امتحان منعقد کرتی ہیں جبکہ تمام طلبہ داخلے پی ایم ڈی سی کے پاس کرواتے ہیں۔
پختونخوا ایم ڈی کیٹ امتحان: سیٹوں میں اضافہ، نادرہ کا تعاون اور نئے انتطامات
پروفسیر (ر)عبدالحمید خان بتاتے ہیں ایسا کرنے میں اچھی حکمت پوشیدہ ہے کہ ہر صوبے میں ایف ایس سی کے طالب علموں کا نصاب مختلف ہے۔ ہر صوبے کی میڈیکل یونیورسٹی سے جب کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کے طالب علموں سے خود امتحان لے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر یونیورسٹی اپنے ایف ایس سی کے نصاب کے مطابق امتحانی سوالات تیار کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم ڈی کیٹ امتحان کا مقصد یہ ہے کہ جانچا جائے کہ طالب علموں میں ایف ایس سی نصاب کے مطابق قابلیت بھی موجود ہے یا نہیں، اس لیے یہ امتحان نصاب ہی کے مطابق ہونا چاہیے مگر اس میں دیکھا گیا کہ ہر سال چاروں صوبوں بشمول کشمیر میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایم ڈی کیٹ امتحان کی تیاری کروانے والی ایک بڑی اکیڈمی کے استاد جن کا 10 سالہ تجربہ ہے کا کہنا تھا کہ ہر سال اس امتحان میں گڑ بڑ ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے سندھ میں کہا جا رہا ہے کہ پرچہ آوٹ ہوا۔ بلوچستان، خیبرپختونخواہ میں آوٹ آف سلیبس سوالات کی شکایات آئیں۔ ایسی ہی شکایات پنجاب اور کشمیر میں بھی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی بھی شکایات ہوتی ہیں جن میں ایک ہی سوال کے دو جواب درست ہوتے ہیں۔ اس طرح بھی ہوا کہ ایک سوال کا جواب پنجاب میں الگ اور خیبر پختونخواہ کی درسی کتب میں الگ تھا۔ ایسا بھی ہوا کہ جو ٹاپک موجود نہیں اس میں سے سوال دے کر کہا جاتا ہے کہ یہ اس سے ملتا جلتا ہے۔
منکی پاکس کے پھیلاؤ پر گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی نافذ، پھیلاؤ کی ایک وجہ ہم جنس پرستی
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ اس میں تو آپ ایف ایس سی کے نصاب کے مطابق طالب علموں کی قابلیت کا امتحان لے رہے ہیں۔ اس میں تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ نصاب کے مطابق طالب علم اس کے بارے میں جانتے بھی ہے یا نہیں۔
مگر کچھ ایسی چیزیں کردی جاتی ہیں جن سے بظاہر یہ لگ رہا ہوتا ہے کہ اس سے کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصاں ہو رہا ہے۔
ایم ڈی کیٹ کا دوسری بار امتحان دینے والی ایک طالبہ کے والد محمد زاہد کا کہنا تھا کہ جب نصاب سے چیزیں باہر ہوں۔ جب ایک ہی سوال کے دو جواب ہوں۔ جب ٹاپک ہی موجود نہ ہو اور جب اس کی شکایت پی ایم ڈی سی سے کی جائے اور وہ اس پر توجہ نہ دے تو اس وقت یہ شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ درحقیقت یہ سب کچھ چند لوگوں کو نوازنے کے لیے ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ ہرسال یہ ہو رہا ہے اور دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ پی ایم ڈی سی تو توجہ ہی نہیں دیتا مگر عدالتوں میں اس پر بہت بات ہوتی ہے۔ عدالتوں میں اس پر مختلف احکامات بھی موجود ہیں۔
محمد زاہد کا کہنا تھا کہ اب اس سلسلے کو مکمل بند ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو فی الفور اقدامات اور واضح ہدایات دینی چاہئیں کہ اگر اس طرح کی غلطیاں ہوں گی جو کہ بظاہر غلطیاں ہوتی ہیں تو پھر متعلقہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ایم ڈی کیٹ کی تیاری میں شامل تمام ہر فرد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ایک دفعہ ان غلطیوں پر وزیر اعظم نوٹس لے کر کاروائی کریں تو امید ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔