قلندر تنولی
بلوچستان کے علاقے بیلہ میں فوجی کیمپ پر خودکش حملہ کرنے والی خاتون ماہل بلوچ کا آبائی تعلق گودار سے ہے جبکہ وہ خود تربت یونیورسٹی میں لاء کی طالبہ تھی۔ ماہل بلوچ کے کلاس فیلوز اور قریبی دوستوں کے مطابق ماہل بلوچ ایک لائق طالبہ تھی۔ جو ہر سمسٹر میں بہت اچھے نمبرز حاصل کرتی تھی۔
ساتھی طالب علموں کے مطابق لاء کے طالب علم عموماً سیاست پر بات کرتے تھے مگر ماہل نے کبھی بھی سیاست پر بات نہیں کی تھی۔ یہ کبھی سیاسی بحث و مباحثہ نہیں کرتی تھی بلکہ اس کا زیادہ تر وقت کتابوں میں گزرتا تھا۔ یہ صرف لاء کی کتابیں ہی نہیں بلکہ ادب، تاریخ، فلسفہ کی کتابوں کی بھی شوقین تھی۔
ایک ساتھی طالب علم کے مطابق کچھ عرصے سے ماہل بلوچ بلوچ شاعروں، ادیبوں کو بھی پڑھ رہی تھی۔
ماہل بلوچ کے ساتھیوں کے مطابق مستقبل میں وہ جج بننا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کچھ عرصہ پریکٹس کرے گی اور پھر جج کے لیے امتحان دے گی جبکہ ایک اور ساتھی طالب علم نے بتایا کہ اس کے خاندان والے چاہتے تھے کہ وہ سی ایس ایس کرے مگر اس کا زیادہ رحجان عدلیہ میں جانے کا تھا۔
ماہل بلوچ کون تھی؟
پاکستان سٹوریز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق جب ماہل کے والد سے حکام نے رابطہ کرکے بتایا کہ ماہل بلوچ نے خودکش حملہ کیا ہے تو وہ اور پورا خاندان سکتے میں آگیا تھا کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، ان کے خیال میں ماہل نے مستقبل کے حوالے سے کافی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
کہدہ حمید اعصا خود بھی گودار کی یونین کونسل سربندر کے دو مرتبہ چیئرمین رہ چکے ہیں۔ ماہل کے چچا 2 بار گودار کے ضلعی چیئرمین رہے ہیں۔
کہدہ حمید اور اس خاندان کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان سے ہے اور یہ خاندان میر غوث بخش بزنجو کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
ماہل بلوچ نے انٹرمیڈئیٹ تک تعلیم گودار سے حاصل کی اس کے بعد تربت یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ اس کا یونیورسٹی میں آخری سمسٹر تھا جبکہ وہ کوئٹہ میں انٹرن شپ بھی کر رہی تھی۔
ماہل کیا پڑھ رہی تھی؟
ماہل بلوچ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کچھ کتابیں شیئر کر رکھی تھیں جن میں کیوبا کے فیدل کاسترو کی کتاب ‘مجھے تاریخ بری کر دے گی’، اس کے علاوہ ’دی آرٹ آف وار‘، میکسم گورکی کا شہرت یافتہ ناول ’ماں‘ اور فرانز کافکا سمیت دیگر مصنفین کی کتب شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف بلوچی شاعروں اور ادیبوں کی کتابیں بھی شیئر کر رکھی تھیں۔
ماہل بلوچ کے خاندان نے اس کے حوالے سے دوٹوک موقف اپنایا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ماہل کب اس جانب متوجہ ہوئی اور وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی تھی۔
ماہل بلوچ کے خاندان کے مطابق ماہل بلوچ سے ان کا آخری رابطہ حملے سے تین دن قبل ہوا تھا۔
تحقیقاتی ادارے ماہل بلوچ کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ اداروں کو ان افراد کے بارے میں معلومات ملی ہیں جو طالب علموں کی ذھن سازی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے یہ تیسری خاتون خود کش بمبار دھشت گردی کے لیے استعمال کی گئی ہے۔
2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے خودکش حملہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت 4 افراد مارے گئے تھے۔
شاری بلوچ عرف برمش بھی تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھنے والی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں تھی جبکہ اس کے خاوند ڈاکٹر تھے، شاری کا تعلق ضلع تربت سے تھا۔
علاوہ ازیں 2023 میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والی خودکش بمبار کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے ہوئی تھی۔
بہت ہی افسوسناک حالات دے دوچار ہے اس وقت ہمارا ملک ، ہمارے بچوں کو نادیدہ قوت خودکش بمباری میں استعمال کر رہی ہیں ، کوئی بھی زی شعور اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ ماڈل بلوچ نے خودکش حملے میں ازخود حصہ لیا۔
نوجوان بچوں کو نادیدہ قوتیں پہلے اغوا کرتی ہیں اور پھر حراست میں انکے ذہن کو مفلوج کیا جاتا ہے پھر انکے ساتھ بم باندھ کر مختلف حساس جگہوں تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر ریموٹ کنٹرول بٹن دبا کر اسے خودکش حملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔