نورین محمد سلیم
نوجوان چیئر لفٹ (جسے مقامی لوگ ڈولی کہتے ہیں) کی رسی کے ساتھ لٹک کر کھڑا ہے۔ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ میں تھک چکا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں حوصلہ کرو ہم کچھ کرتے ہیں۔
یہ منظر کیا ہے۔۔۔؟
نوجوان چیئر لفٹ کی رسی کے ساتھ لٹک کر کھڑا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر نوجوان کا کم عمر بیٹا ڈولی میں پھنسا ہوا ہے وہ مدد کے لیے چیخیں مار رہا ہے۔ نوجوان وقفے وقفے سے اس کو حوصلے کی تلقین کرتا ہے۔
نیچے خوفناک دریائے سندھ ہے جس کی موجوں میں بہہ جانے والے کا ملنا بہت ہی مشکل ہے۔
جیسے جیسے علاقے کے لوگوں تک اطلاع پہنچتی ہے لوگ اکھٹا ہونا شروع ہوجاتے ہیں سب پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں۔
یہ سب کچھ ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی کے علاقے کن میں ہورہا ہے جہاں پر لوگ اپنے گاؤں سے بشام آنے جانے کے لیے دریا پار کرنے کے لیے چیئر لفٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہی ان کا ذریعہ آمد ورفت ہے۔
بٹگرام کی تحصیل الائی میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی الائی میں لوگ چئیر لفٹ میں پھنس گئے تھے جن کو کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد نکالا گیا تھا۔
آنکھوں کے سامنے دریا میں گر گیا
محمد مسکین پاکستان سٹوریز کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رسی سے لٹکا نوجوان عبدالعزیز ہے جو کہ چند دن قبل چھٹیوں پر کراچی سے آیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا حل یہ ہی تھا کہ فوری طور پر علاقے کے کچھ اور نوجوان خود کو رسی سے باندھ کر اس تک پہنچیں اور اسے واپس لائیں اس کام کے لیے کئی لوگ رسیاں لینے دوڑ پڑے تھے۔ کچھ نوجوان تیار ہو رہے تھے۔
محمد مسکین کہتے ہیں کہ عبدالعزیز کافی دیر سے لٹکا ہوا تھا۔ وہ ڈولی میں پھنسے اپنے بیٹے کے ساتھ بات کررہا تھا اس کا بیٹا چیخیں مار رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو حوصلہ دے رہا تھا اس سے کہہ رہا تھا کہ حوصلہ کرو، کچھ نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران وہ لوگوں سے بھی بات کررہا تھا۔ لوگ اس کو حوصلہ دے رہے تھے۔ سب اس کو کہہ رہے تھے کہ تھوڑا حوصلہ اور صبر کرو تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔ مگر وہ بہت دیر سے رسی کے اوپر لٹکا ہوا تھا۔ لگ رہا تھا کہ وہ تھک چکا ہے۔ وہ آگے بھی نہیں بڑھ رہا تھا۔
بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی
محمد مسکین کا کہنا تھا کہ کئی لوگ رسیاں لے کر پہنچ چکے تھے۔ کچھ نوجوان خود کو رسیوں سے باندھ کر اس تک جانے کو بھی تیار تھے مگر اس دوران ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ دریا میں گر گیا۔
اپنا خیال رکھنا میں گر رہا ہوں
عبدالعزیز کے بھائی فیض اللہ پاکستان سٹوریز کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے میرے بھتیجے نے بعد میں بتایا کہ جب عبدالعزیز بہت زیادہ تھک گیا تو اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنا خیال رکھنا حوصلہ کرنا کہ میں اب گر رہا ہوں۔ یہ کہنے کے چند سیکنڈ بعد وہ دریا میں گر گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد یہ توقع تو کم ہی ہے کہ وہ زندہ ہوگا مگر ہمیں اس کی لاش بھی نہیں مل رہی ، مختلف علاقوں اور مقامات پر تلاش کررہے ہیں مگر اب تک ہم کامیاب نہیں ہوئے۔
فیض اللہ کا کہنا تھا کہ درحقیقت عبدالعزیز اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش میں گرا ہے ، وہ کچھ دن پہلے ہی کراچی سے چھٹیوں پر گھر آیا تھا۔ اس دن صبح صبح اس کا کم عمر بیٹا جس کی عمر 10 سال ہوگی بشام جارہا تھا کہ راستے میں چیئر لفٹ خراب ہوگئی اور وہ میں پھنس گیا۔
فیض اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت عبدالعزیز گھر میں سویا ہوا تھا۔ اس کو پتا چلا تو وہ دوڑتا دوڑتا وہاں پر پہنچا اور پھر بیٹے کی محبت اور جوش میں رسی سے لٹک کر چیئر لفٹ تک پہچنے کی کوشش کررہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنے میں لوگ بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔ وہ چیئر لفٹ سے کچھ فاصلے پر تھا تو تھک گیا ۔ بہت تھک گیا تھا اس نے لوگوں سے کہا بھی کہ وہ تھک گیا۔ وہ کافی دیر تک رسی سے لٹکا رہا تھا اور چل رہا تھا۔ پھر وہ اتنا تھکا کہ اس کے ہاتھ رسی سے چھوٹ گئے اور دریا میں جا گرا۔
معذور بچوں کا واحد کفیل
فیض اللہ بتاتے ہیں کہ عبدالعزیز کی عمر کوئی 30 سال ہوگی۔ وہ 6 بچوں کا باپ تھا جن میں 3 بیٹیاں اور 3 بیٹے شامل ہیں۔ اس کے 4 بچے معذور ہیں جن کو نظر نہیں آتا جب کہ دو کی نظر انتہائی کمزور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی کراچی میں محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ عبدالعزیز بھی کراچی میں محنت مزدور ی کرتا تھا۔ عبدالعزیز کراچی میں ڈیفنس فیز ٹو کے علاقے میں موجود ملک شاپ ماسٹر جوس پر کام کرتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہوچکا تھا۔
فیض اللہ کہتے ہیں کہ ان کے مالک بتائیں گے کہ وہ کتنا کام کرتا تھا کہ اس کے بچے معذور ہیں، وہ اکثر اپنے بچوں کو ڈاکٹروں کو دکھاتا اور مشورے کرتا رہتا تھا کہ ان کے لیے کیا ہوسکتا ہے مگر اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ کچھ کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پھر بھی بہت کام کرتا تھا۔ ہمیشہ جتنی مزدوری ہوتی وہ بچا لیتا او اپنے بچوں کے لیے گھر بھج دیتا تھا۔ خود پر بہت کم خرچ کرتا ، بچوں کے لیے بہت پریشان رہتا کہ آگے کیا ہوگا۔ اس کی جتنی بھی کمائی ہوتی گھر بھج دیتا تھا۔
فیض اللہ کا کہنا ہے کہ یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ پتا نہیں عبدالعزیز کی لاش ملتی بھی ہے کہ نہیں اور پتا نہیں اس کے کم عمر بچے کیسے اپنے باپ کے بغیر زندگی گزاریں گے۔