نورین محمد سلیم
گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں کے ٹو بیس کیمپ تک غیر ملکی ٹیم کے ہمراہ بحثیت پورٹر کام کرنے والے شیر علی کی میت ان کے ساتھی پورٹرز کندھوں پر اٹھا کر آبائی علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔
شیر علی کی گزشتہ روز ٹریننگ کے دوران طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ ان کو واپس اسکردو پہچانے کے لیے ہیلی کاپٹر سروس استعمال کی جائے گی مگر موسم کی خرابی کی باعث یسا ممکن نہ ہوسکا جس کے بعد شیر علی کیمپ ہی میں دم توڑ گئے تھے۔
اپریکاٹ ٹور کمپنی کے سالار نے پاکستان سٹوریز کو بتایا کہ شیر علی نے دیگر پورٹرز کے ہمراہ غیر ملکیوں کے ساتھ کے ٹو بیس کیمپ تک کے لیے اپنا سفر گزشتہ دنوں شروع کیا تھا اس دوران 13 جولائی کو ان کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی جس کے بعد انھیں موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد دی گئی تھی۔
کم از کم 52گلیشیرز جھیلیں خطرناک، چترال میں تین جھیلیں سیلاب کا سبب بن سکتی ہیں
سالار کا کہنا تھا کہ جب اونچائی پر کوئی بھی جاتا ہے تو اکثر طبعیت خراب ہوجاتی ہے یہ نارمل ہے مگر شیر علی کے بارے میں تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوچکی ہے ان کو واپس لانا اور مناسب علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہے جس کے بعد فوری طور پرکوشش شروع کردی گئی تھی کہ کسی طرح شیر علی کو ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے سے اسکردو پہنچایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں رابطے قائم کیے گئے اور ڈپٹی کمشنر شگر نے آرمی ایوسی ایشن سے رابطہ قائم کیا تو انسانی ہمدری کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ شیر علی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مدد فراہم کی جائے گی مگر اس وقت بدقسمتی سے موسم اس قابل نہیں تھا کہ ہیلی کاپٹر پرواز کرسکتا۔ جس پر طے ہوا کہ صبح کے وقت شیر علی کو مدد فراہم کی جائے گی۔
سالار کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے رات کو ہی محمد علی رات ہی میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
ان کا کہنا تھا ک سالار کا بیٹا بھی اسی ٹیم میں موجود ہے۔ اس وقت پورٹرز اپنی مدد اپ کے تحت کندھوں پر میت کو اٹھا کر آبائی علاقے لے جا رہے ہیں۔ اس وقت وہ پیدل چلے رہے ہیں ان کی رفتار بہت تیز ہے۔ امید ہے ہیں کہ وہ رات میں کسی وقت ایسے مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے ان کو گاڑی کے ذریعے آبائی علاقے تک پہنچایا جا سکے۔
سالار کا کہنا تھا کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ ہم شیر علی کے خاندان کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔