ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومٹاپ اسٹوریسرباز خان 8 ہزار میٹر سے بلند 14چوٹیاں سر کرنے والے پہلے...

سرباز خان 8 ہزار میٹر سے بلند 14چوٹیاں سر کرنے والے پہلے پاکستانی

محمد نوید خان

الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی کوہ پیما سرباز خان نے دنیا میں موجود 8 ہزار میٹر سے بلند 14چوٹیاں سر کر کے تاریخ رقم کر دی ہے۔  سر باز خان پہلے پاکستانی ہیں جنھوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ 

سرباز خان

دنیا میں اس وقت 8 ہزار میٹر کی چوٹیاں سر کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے تاہم یہ تعداد ابھی تک 50 سے زیادہ نہیں اور اس میں اب پاکستان کوہ پیما سر باز خان بھی شامل ہو چکے ہیں۔ کوہ پیمائی کی دنیا میں اس کو بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔  

47 سالہ ڈاکٹر شاہدہ آفریدی نے 8 ہزار میٹر سے زائد بلند چوٹی سر کرلی

یہ اعزاز حاصل کرنے والے سرباز خان کا تعلق گلگلت بلتستان کی وادی ہنزہ سے ہے۔ انھوں نے یہ اعزاز اپنی محنت، ہمت اور جرات سے حاصل کیا۔ اس راستے میں آنے والی ہر مشکل پر قابو پایا۔ آج اسی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی صلاحیتوں اور ہمت کا لوہا مانا جاتا ہے۔

سرباز خان کچن بوائے سے کوہ پیما تک

 سر باز خان کا تعلق ہنزہ سے ہے۔ ان کے والد کار پینیٹر کا کام کرتے تھے۔ سرباز کو بچپن سے ہی کامیاب ترین کوہ پیما بننے کا جنون تھا۔ اسی جنون کی خاطر انھوں نے کوہ پیماؤں کے لیے سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں میں بحثیت کچن بوائے کام کا آغاز کیا تھا۔ 

تصویر بشکریہ سرباز خان فیس بک

سرباز کی والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ ان کا بچپن پہاڑوں میں بسنے والے جفا کشوں کی طرح عام تھا مگر اس میں سخت محنت ہوتی تھی۔ اس محنت کے دوران انھوں نے کچھ خواب سجائے تھے۔ یہ خواب بلند و بالا پہاڑوں سے متعلق تھے۔ سرباز خان کو یہ بلند و بالا پہاڑ سر کرنے والے کوہ پیما پسند تھے بلکہ وہ ان کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔

راج مستری کا بیٹا ارشد ندیم جس نے 40 سال بعد پاکستان کو اولمپکس گولڈ میڈل جتوا دیا۔

سربازخان نے بلند و بالا پہاڑوں کے شوق میں کچن بوائے کی حیثیت سے کام تو شروع کر دیا مگر کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وسائل کی کمی تھی۔ اس موقع پر سرباز خان کا والی بال کا شاندار کھلاڑی اور ایتھلیٹ ہونا کام آیا۔ انھوں نے گائیڈ اور پورٹر کا کام بھی شروع کر دیا۔ 

اس دوران ان کا رابطہ دنیا کے جانے مانے کوہ پیماوں سے ہوا۔  وہ ان سے سیکھتے اور ان کے تجربات سنتے۔ ان کا عشق دیکھ کر کئی کوہ پیما ان کو سکھاتے بھی تھے۔ یہ عشق انھیں انتہائی خطرناک کام پر اُکساتا تھا۔

چھپ کر پہاڑوں پر جاتے تھے

سرباز خان کو ان کا عشق پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے پر اکساتا۔ ایسا تو شاید ممکن نہیں تھا مگر وہ کسی نہ کسی طرح کچن بوائے کی خدمات انجام دیتے ہوئے چھپ کر بیس کیمپ سے کیمپ ون اور کیمپ ٹو کا سفر کرتے تھے۔ یہ انتہائی خطرناک ہے اور ایسا کسی کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔ 

سرباز خان ایسا کرکے اپنا تجربہ بڑھا رہے تھے۔ ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ کمپنی میں شور مچ گیا کہ سرباز خان کہاں گیا۔ تلاش کیا گیا تو پتا چلا کہ سرباز خان کیمپ ون اور کیمپ ٹو سے واپس آ رہے ہیں جس پر انھیں ڈانٹ پڑتی۔ انھیں کہا جاتا کہ نوکری سے نکال دیں گے۔ مگر وہ سرباز خان ہی نہیں تو باز آجاتا۔ وہ اس طرح کی مہم جوئی جاری رکھتے تھے۔ 

کے ٹو کے ڈیتھ زون سے ایک سال بعد حسن کی لاش واپس لانے والے پاکستانی کوہ پیما

کہتے ہیں محنت رائیگاں نہیں جاتی اور سرباز خان کی محنت بھی رائیگاں نہیں گئی تھی۔ دنیا کے ممتاز نیپالی کوہ پیما مینگما جی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے اور اپنے ساتھ کام کرنے بلکہ کوہ پیمائی کی ترغیب اور مدد دینا شروع کر دی۔

کے ٹو پر پہلی مرتبہ پورٹر کی خدمات

سرباز خان جب کے ٹو کے بیس کیمپ جو کہ 5 ہزار میٹر کی بلندی پر اپنا کچن بوائے کا کام دوڑ دوڑ کر رہے ہوتے تو اس وقت مینگما جی نے ان کو دیکھا تو متاثر ہوئے۔ سرباز خان سے ملاقات کی اس کی صلاحتیوں کو سمجھا۔ اس سال تو نہیں مگر جب مینگما جی دوبارہ کے ٹو سر کرنے پاکستان آئے تو انھوں نے نوجوان سرباز خان کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔ 

سرباز خان کو یہ موقع کئی سالوں کے بعد ملا تھا اور پھر سرباز خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کے ٹو کی پہلی مہم کے دوران سرباز خان نے اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوا لیا تھا، جس کی تعریف مینگما جی کر دیں تو وہ حقیقت میں سٹار ہی ہوتا ہے۔ 

60 سال بعد پاکستان کے متعدد شہر رہنے کے قابل نہیں رہیں  گے

ایسا ہی سرباز خان کے ساتھ ہوا اس کے بعد انھوں نے کے ٹو پر زندگی کی بازی ہارنے والے عظیم کوہ پیما علی سدپارہ کے ساتھ دنیا کی خطرناک ترین چوٹی ناگا پربت کو سردیوں میں فتح کیا۔ اس مہم جوئی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور پوری دنیا جہاں علی سدپارہ کو تو جانتی ہی تھی اب سرباز خان کو بھی جاننے لگی تھی۔ 

سرباز خان ایک کے بعد ایک دنیا کی 14 آٹھ ہزار سے بلند چوٹیاں سر کر چکے ہیں۔ وہ ایک ایسا اعزاز حاصل کر چکے ہیں جو اب پاکستان میں کسی اور کے نام نہیں ہوسکتا۔ وہ پاکستان کے سٹار بن چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین