ہشام چوہان
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایوان صدر میں ایک پر وقار تقریب میں ملک کے 30ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد 22 اکتوبر کو 12 رکنی خصوصی پالیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر نامزد کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی آئندہ تین سال تک ملک کے چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے اور تین سال بعد جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوں گے تو اس وقت بھی ان کی مدت ملازمت میں 3 سال باقی ہوں گے مگر 26ویں آئینی ترمیم میں بڑا واضح ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت صرف تین سال ہوگی۔
پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا
جسٹس یحییٰ آفریدی ایک سخت اصول پسند اور آئین پر چلنے والے جج سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کیئر دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں کئی تاریخی مواقع اور اتار چڑھاو آئے ہیں۔
ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ
جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ڈیڑہ اسماعیل خان سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے مشہور زمانہ ایچی سن کالج بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے، پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قانون کی تعلیم برطانیہ کی نامور کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے 90وے کی دہائی میں بحثیت وکیل ہائی کورٹ میں پریکسٹس شروع کی جبکہ 2004 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائنس ملا۔ اس دوران وہ آفریدی، شاہ اور من اللہ لاء فرمز کا حصے رہے۔ علاوہ ازیں وہ پختونخواہ کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض بھی ادا کرتے رہے۔
26 ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات بھی بنیادی حق تسلیم مگر بہت کچھ باقی ہے
2010 میں پشاور ہائی کورٹ کے ایڈہاک جج تعنیات ہوئے اور 2012 میں مستقل جج تعنیات کیا گیا تھا۔ 2016 میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تعنیات ہوئے اور 2018 میں سپریم کورٹ کا جج تعنیات کیا گیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی اہم بینچز کا حصہ رہے اور کئی اہم فیصلے کیے۔ ان کی عدلیہ اور وکلاء میں شہرت ایک قانون پسند جج کی ہے۔
سابق آمر پرویز مشرف کے شناختی کارڈ بلاک کروانے والے جج
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریٹائرڈ ہونے والے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس میں قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کی مخالفت کی تھی۔ یہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہمراہ ان 4 ججوں میں تھے جنھوں نے اکثریتی ججوں کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کے کیرئیر کا ایک اور اہم فیصلہ خود کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے سو موٹو ایکشن کی بنیاد پر قائم ایک بینچ جو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 7 ججوں کے خط پر قائم کیا گیا تھا سے خود کو الگ کرنا تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ انھوں نے خود کو کسی ایسے بینچ سے الگ کیا ہو جو سو مو ٹو پر قائم ہوا تھا، انہوں نے اس سے قبل 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سو موٹو پر بھی قائم ایک بینچ سے خود کو الگ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سو مو ٹو سے متعلق ان کا اپنا ایک الگ نقطہ نظر ہے۔
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کے دستخط: 26ویں ترمیم آئین کا حصہ بن گئی
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے میں جسٹس یحییٰ آفریدی پشاور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے بینچ کی سربراہی کررہے تھے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کروایا تاکہ وہ مقدمے کا فیصلہ ہونے تک ملک نہ چھوڑ سکیں۔
تاہم بعد میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو معطل کر کے پرویز مشرف کو بیرونی ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔
عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد اسلام آباد میں احتجاج کے لیے سپریم کورٹ کو ضلعی انتظامیہ کے ساتھ معاہدے پر مکمل عمل در آمد کی یقین دہائی کروائی تھی لیکن بعد میں مبینہ طو رپر ایسا نہیں ہوا جس پر معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو 5 رکنی بینچ میں سے صرف جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا کہ چونکہ پی ٹی آئی کی قیادت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروانے کے باوجود وعدہ خلافی کی اس لیے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔
اس کے علاوہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کا بھی حصہ تھے۔