ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومپاکستانپارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کے دستخط: 26ویں ترمیم آئین کا...

پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد صدرمملکت کے دستخط: 26ویں ترمیم آئین کا حصہ بن گئی

سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ شب سینیٹ کے بعد رات گئے 26ویں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے بھی منظور کر لیا گیا تھا جس کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے 26ویں آئینی ترمیم نافذ ہوگئی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد ارکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، عثمان علی، مبارک زیب خان، ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری الیاس نے ترامیم کےحق میں ووٹ دیا۔

بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملک میں لوگ انصاف کے لیے ترس رہے ہیں، آج ایک تاریخی دن ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آج آئین میں 26 ویں ترمیم ہوئی ہے، حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا تھا، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا، قومی یکجہتی اور اتفاق رائے کی شاندار مثال ایک بار پھر قائم ہوئی۔

قبل ازیں طویل انتظار کے بعد حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا اہم ترین 26 ویں آئینی ترمیم کا بل ایوان بالا سے منظور کر لیا گیا تھا جب کہ تحریک انصاف نے منظوری کے عمل کے بائیکاٹ کیا گیا تھا۔

حکومت کو سینیٹ میں ترمیم کی منظوری کیلئے دوتہائی اکثریت یعنی 64 ووٹ درکار تھے، بی این پی مینگل کے سینیٹر قاسم رونجھو اور سینیٹر نسیمہ احسان کی جانب سے ترمیم کی حمایت کے بعد حکومت کا نمبر 58 سے بڑھ کر 65 ہوگیا۔

ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے۔

اس سے قبل سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت شروع ہوا جس میں وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مسودے پر بحث شروع کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کیلئے ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے جس میں تقرری کو شفاف اور میرٹ کے مطابق کیا جائے۔

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مجوزہ بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز پر مشتمل ہوگا،جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا۔

انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کا 2 سال کیلیے نامزد کردہ کم ازکم 15 تجربے کا حامل وکیل، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے2،2 ارکان اس کمیشن میں شامل کیے جائیں گے اور اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔

وزیر قانون نے بتایا کہ مجوزہ ترمیم میں اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کرسکیں گے، انہوں نےکہا کہ کمیشن میں صوبوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رولز کے ذریعے ایسا مساوی معیار مقرر کریں جس کے ذریعے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکے اور اگر کسی جج کی کارکردگی اور صلاحیت کے حوالے سے مسائل ہیں تو اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں متعارف کرائے جانے والے آئینی بینچز کا تقرر اور نامزدگی بھی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ہی کرےگا۔

وزیر قانون نے واضح کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے 6 ماہ میں ہونے والی 3 ملاقاتوں میں برملا اس بات کو واضح کیا کہ وہ ایکسٹینشن میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اپنی مدت پوری کرکے چلے جائیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اگر کوئی مدت مقرر کرنا چاہتے ہیں، کوئی نئی عدالت بنانا چاہتے ہیں تو وہ میرے بعد لاگو ہوگا، میں کسی ایکسٹیشن میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کے حوالے سے ترمیم تجویز کی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کی اصل جورسڈکشن کا ماضی میں اتنہائی غلط استعمال کیا گیا، ایک چیف جسٹس نے دروازے کھول دیے اور سیکڑوں سوموٹو ایکشن کی یلغار ہوگئی، کچھ ادوار میں بالکل امن بھی رہا۔

وزیر قانون نے چیئر مین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل184 اور دیگر اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب وزیرائے اعظم کو گھر بھیجا، موجودہ چیئرمین سینیٹ خود شکار بنے اور میاں نواز شریف کو جس طرح گھر بھیجا گیا حالانکہ وزیراعظم کو رخصت کرنے کا آئینی طریقہ آرٹیکل 95 میں موجود ہے جس کے ذریعے ہم نے 2022 میں وزیراعظم تبدیل کیا، لیکن ہم اس عدالتی طریقے اور بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے فیصلوں کو نہیں مانتے۔

وزیر قانون نے مزید بتایا کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی تجویز پر اس بل کے ذریعے آئینی بینچز کا قیام عمل میں لایاجارہا ہے، جو سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں رہ کر جو آرٹیکل 184 اور 186 کے تحت اختیارات کا استعمال کرسکیں گے جس میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار بھی شامل ہے، انہوں نے کہا جوڈیشل کمیشن کے ججز کی تقرری بھی جودیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ دیگر آئینی عہدوں کی طرح چیف جسٹس کی کے عہدے کی میعاد بھی 3 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ہی ایک چیف جسٹس ہوگا، چیف جسٹس کے تقرر کیلیے اپوزیشن اور حکومت کے ارکان پر مشتمل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز میں سے دوتہائی اکثریت سے ایک جج کے نام پر اتفاق کر کے سمری وزیراعظم کو بھجوائے گی جو وہ صدر کو بھجوائیں گے۔

تحریک انصاف کا بائیکاٹ
اجلاس سے قبل تحریک انصاف کا وفد ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کے پاس پہنچ گیا، جہاں فریقین کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت ہوئی، جس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جے یو آئی ف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے متن پر جھگڑا نہیں رہا تاہم ووٹنگ میں حصہ نہ لینا پی ٹی آئی کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کسی نہ کسی کو کچھ تحفظات رہ جاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ دیے ہیں اور زہر نکال دیا ہے۔

مولانا نے کہا کہ تحریک انصاف نے عمران خان سے ملاقات کی اور جو حالت زار انہوں نے ہمیں بتائی، ان کے مظاہروں پر تشدد ہوا، کارکنان کو گرفتار کیا گیا، اگر اس پر احتجاج کرتے ہوئے وہ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے رہے، تو میں ان کا یہ حق تسلیم کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اب ملکی سطح پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، جس بل پر ہمیں اعتراض تھا اس میں سے وہ سب کچھ نکال دیا گیا ہے اور اب بھی کچھ چھوٹا موٹا تحفظ رہ گیا ہے تو اس پر ہم اتفاق رائے کے ساتھ ترامیم دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئینی ترمیم کو ججوں کی شخصیات کے بیچ میں یرغمال کیوں بنا رہے ہیں کہ ان کی مدت ملازمت میں اضافے اور ان کی تعداد میں اضافے کے لیے ترمیم کر رہے ہیں، یہ تو آئینی ترمیم کی توہین ہے، شخصیات کو کیوں بیچ میں لا رہے ہیں، آج کوئی شخصیت ہے، کل نہیں ہے، زندہ ہے، فوت ہوگئی ہے، بہت سی چیزیں ہیں، سنیارٹی بھی ایک وجہ ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن کارکردگی بھی اہم ہے، فٹنس بھی اہم ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مولانا نے جوکردار ادا کیا اور بردباری کا مظاہرہ کیا، اس پر ہم ان کے بے حد مشکور ہیں، ہمارا مولانا سے تعلق اسی طرح رہے گا، آئین میں ترمیم سنجیدہ مسئلہ ہے، ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، عمران خان کی مرضی سے کرتے ہیں۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم ایک اصولی مؤقف دے چکے ہیں، تحریک انصاف ترمیمی بل پر ووٹ نہیں دے گی۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین