ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماہم خبریں26 ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات بھی بنیادی حق تسلیم مگر بہت...

26 ویں آئینی ترمیم میں ماحولیات بھی بنیادی حق تسلیم مگر بہت کچھ باقی ہے

محمد نوید خان

26 ویں آئینی ترمیم کئی روز سے زیر بحث ہے۔ یہ بحث زیادہ تر عدلیہ کے حوالے سے ترامیم پر ہے لیکن اس میں ایک بہت اہم شق A 9 متعارف ہوئی ہے جو ماحولیات سے متعلق ہے۔

اس شق کو صاف اور صحتمند ماحولیات کا نام دیا گیا ہے۔ شق میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحولیات کا حق حاصل ہے۔

یہ شق پاکستان پیلیز پارٹی کی سابق وزیر موسمیاتی تبدیلی شیرین رحمٰن کی ایما پر شامل کیا گیا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے کارکناں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے مگر ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔

ماحولیات اور موسمی تبدیلی کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے کلائمیٹ فارورڈ پاکستان کے آپریشنل ڈائریکٹر درلبھ اشوک اس شق کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاندار قدم ہے۔ اب اتنا تو طے ہوگیا ہے کہ ماحولیات کو پاکستان میں بنیادی حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس کے یقینی طور پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت باقی ہے۔ صرف یہ شق ہی متعارف کروائی گئی ہے۔ اس میں متعارف کروائی گئی شق کی کوئی تعریف نہیں کی گئی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اب اس شق پر عمل در آمد کے لیے کیا کیا جائے گا اور کیسے آگے بڑھا جائے گا۔

درلبھ اشوک کہتے ہیں کہ اچھا ہوتا کہ اس شق کی تعریف بھئ کی جاتی۔ بتایا جاتا کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ پاکستان کے شہریوں کو صاف وشفاف، صحت مند اور پائیدار ماحولیات کی فراہمی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ان پر عمل در آمد کیسے ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس شق کا یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اب ماحولیات سے متعلق کارکناں جو کہ پہلے بھی عدالتوں سے رجوع کرتے رہے ہیں۔ اب ان کے پاس عدالتوں کے پاس رجوع کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی اور وہ مختلف ایشوز پر حکومت کو عدالتوں میں بلا کر پوچھ سکتے ہیں کہ آئین میں کہہ دیا گیا ہے کہ صاف، شفاف، صحتمند اور پائیدار ماحولیات ہر شہری کا حق ہے تو اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور ان ایشوز کے حل کے لیے کیا کیا جائے گا۔

لیول متعارف کروائے جائیں

درلبھ اشوک کی رائے ہے کہ اس شق کو مزید بہتر بنانے کے لیے ماحولیات جس میں فضائی آلودگی، شوروغل (وائس پولوشن) ، پانی اور دیگر مسائل کا کوئی لیول متعارف کروایا جائے اور بتایا جائے کہ کتنا لیول صحت مند ہے اور کتنا صحتمند نہیں۔ جب لیول صحت مند نہ ہو اور انسانی زندگی کے لیے خطرہ ہو تو پھر اس کو انسانی زندگی کے لیے صحت مند لیول پر لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے فریم ورک بنانا ہوگا وہ فریم ورک موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اب ملک اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں سموگ کا خطرہ سر پر کھڑا ہے۔ سموگ کے خلاف کچھ عرصے سے اقدامات ہورہے ہیں مگر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا ہے۔ اب اس آئین کی شق کا تقاضا ہے کہ سموگ کو کنٹرول کیا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا اس سب کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔

بہت ساری مسائل ایسے ہیں جن پر فی الفور کام کرنے اور ان کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے جبکہ کچھ ایسے ایشو ہیں جن پر لمبے عرصے تک کام کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین