حوصلہ ہو، ہمت بلند ہو اور کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو پھر وہ ارشد ندیم کہلاتا ہے۔
ارشد ندیم نے 4 دہائیوں کے طویل انتظار کے بعد پاکستان کو اولمپک گیمز میں سونے کا تمغہ جتوانے کے ساتھ ساتھ اولمپکس کا 118 سالہ ریکارڈ بھی توڑ دیا۔
جیولین تھرو کے فائنل میں ارشد نے 92.97 میٹر دور نیزہ پھینک کر اپنے تمام حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیا، یہ اولمپکس کی 118 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی تھرو ہے۔
فائنل کے 6 راونڈز میں سے پہلے میں فاؤل کے بعد ارشد نے 92.97 میٹر کی تھرو سے ریکارڈ توڑا اور جبکہ آخری تھرو 91.79 تھی اور یہ بھی اولپمکس کی دوسری بہترین تھرو تھی۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے سابق چیمپئن نیرچ چوپڑا فاؤل پر فاؤل کرتے رہے ، 6 میں سے واحد تھرو 89.45 میٹر کی تھی جس کے ذریعے وہ چاندی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
ارشد ندیم سے پہلے پاکستان میں کسی کو جیولن تھرو کے بارے میں معلومات نہیں تھیں کہ یہ بھی کوئی کھیل ہے۔ مگر لمبے قد، مضبوط جسم کے مالک ارشد ندیم نے پاکستانیوں کو بتایا کہ دنیا میں جیولن تھرو بھی موجود ہے۔
ارشد ندیم کا تعلق میاں چنوں میاں چنوں کے نواحی گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے اور ان کے والد راج مستری ہیں۔
ارشد ندیم کے لیے زندگی کبھی آسان نہیں تھی مگر ان کے ساتھی اور کوچ رشید احمد ساقی قدم قدم پر ان کے ساتھ رہے۔
رشید احمد ساقی ڈسٹرکٹ خانیوال ایتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کے علاوہ خود بھی ایتھلیٹ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد ندیم کو سکول کے وقت سے ہی کھیلوں کا شوق تھا۔ تب اس کی توجہ کرکٹ پر ہوتی تھی مگر وہ بچپن ہی سے شاندار ایتھیلٹ تھا اور میں اس کو پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھجتا رہا جہاں پر وہ کامیابیاں بھی حاصل کرتا رہا تھا۔ ارشد کے دراز قد کو دیکھ کر اُنھیں جیولن تھرو کے لیے تیار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک عجیب واقعہ ہوا کہ میں نے تربیت کے لیے ایئر فورس بھیجا مگر ایک ہفتے بعد واپس بلا لیا تھا۔ ارشد نے اپنی صلاحتیوں کو منوا لیا تھا۔۔ ایک دن آرمی کی گاڑی آئی اور اس میں موجود ایک کرنل صاحب میرا پوچھ رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں پریشان ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے مگر انھوں نے ارشد ندیم کی بات شروع کر دی۔ انھوں نے کہا کہ ارشد کو آرمی میں دے دیں لیکن میں نے انکار کر دیا کہ میں اس کی تربیت خود کروں گا اور پھر اس کو واپڈا میں بھیج دیا۔ کچھ عرصہ کی تربیت کے بعد ارشد نے مڑ کر واپس نہیں دیکھا۔
واپڈا میں ارشد ندیم کے کوچ فیاض حسین بخاری کہتے ہیں کہ ارشد ندیم ایک سمجھدار ایتھلیٹ ہیں جو بہت جلدی سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کام ایک عام ایتھلیٹ 6 ماہ میں کرتا ہے ارشد وہ ایک ماہ میں کر لیتے ہیں۔
ان کے کہنا تھا کہ ارشد ندیم نے پہلے اولپمک میں وائلڈ کارڈ سے انٹری حاصل نہیں کی بلکہ کوالیفائی کیا تھا۔