نورین محمد سلیم
47 سالہ اور ایک بیٹی کی ماں ڈاکٹر شاہدہ آفریدی نے کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک اور کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ شوق کی خاطر کوہ پیمائی کرتی ہیں اور انھوں نے تقریبا 47 سال کی عمر میں گیشربرم II جس کی طوالت 8,035 میٹر ہے سر کرلی ہے۔ دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیاں ہیں جن کو فتح کرنا ہر کسی کے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے۔
اس وقت کوہ پیمائی کی دنیا میں ڈاکٹر شاہدہ کے چرچے ہو رہے ہیں کہ پاکستانی خواتین کو مواقع دستیاب ہوں تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔
ممتاز خاتون کوہ پیما نائیلہ کیانی نے بھی ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی خواتین کے لیے رول ماڈل بن رہی ہیں۔
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کا کہنا تھا کہ انھیں بچپن سے کوہ پیمائی کا کوئی شوق نہیں تھا۔ زمانہ طالب علمی میں صرف ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ جس کے لیے دن رات محنت کی جبکہ کوہ پیمائی کا شوق کچھ سال پہلے ہوا تھا۔
والدین نے ڈاکٹر بننے میں مدد فراہم کی
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کا تعلق تاریخی ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل سے ہے۔ ان کے والد پاک فوج میں ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر شاہدہ آفریدی گائناکالوجسٹ ہیں۔ انھوں نے گائناکالوجی کی تربیت پاکستان اور دبئی سے حاصل کی ہے۔
راج مستری کا بیٹا ارشد ندیم جس نے 40 سال بعد پاکستان کو اولمپکس گولڈ میڈل جتوا دیا۔
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی نے کچھ عرصہ پاکستان میں پریکٹس کی جس کے بعد وہ دبئی منتقل ہوگئی تھیں جہاں پر انھوں نے 10 سال تک پریکٹس کی اور اس کے بعد واپس آکر اسلام آباد منتقل ہوگئیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ میں ایک بچی کی ماں ہوں اور میرے خاوند جمیل آفریدی کاروباری شخصیت ہیں۔ ہم نے پاکستان واپسی کا فیصلہ اس وجہ سے کیا کہ اپنا گھر اپنا ہوتا ہے اور دیار غیر دیار غیر ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا مگر اپنے گھر واپسی کے لیے ہمیں یہ کرنا پڑا۔
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کا کہنا تھا کہ اب گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں پریکٹس کر رہی ہوں اپنے لوگوں کی مدد اور خدمت کر کے خوشی ہوتی ہے۔
کے ٹو کے ڈیتھ زون سے ایک سال بعد حسن کی لاش واپس لانے والے پاکستانی کوہ پیما
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی بتاتی ہیں کہ ان کے والد پاکستان فوج میں ڈاکٹر کی خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ میرے والدین کی سپورٹ اور مدد تھی کہ انھوں نے ہمیں نہ صرف پڑھایا بلکہ ہمیں اپنا مستقبل بنانے کا موقع بھی دیا اور اس موقع پر جو مسائل پیدا ہوتے تھے ان کا سامنا وہ خود کرتے تھے۔ ہمیں والدین کی اتنی سپورٹ تھی کہ کسی کی مخالفت کا ہم پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان واپسی پر کوہ پیمائی شروع کی
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ 10 سال تک دبئی میں گزارے تھے جہاں میرے دوست اور استاد تھے مگر جب پاکستان آئے تو تنہا تنہا سی ہو گئی تھی۔ یہاں پر پریکٹس تو شروع کردی تھی مگر بہرحال صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر پلاسٹک سرجن ڈاکٹر رانا حسن جاوید جو میری دوست کے خاوند ہیں انہوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ مجھے مثبت سرگرمیاں شروع کرنی چاہیئں۔ یہ مثبت اور صحت مند سرگرمیاں ویسے بھی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے لیے بھی لازمی تھیں۔ میں ویسے بھی تنہائی محسوس کررہی تھی۔
ڈاکٹر شاہدہ آفریدی کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ڈاکٹر حسن ہی نے تربیت کا آغاز کیا تھا۔ جس کا آغاز میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ بہت معمولی انداز سے شروع کیا۔ ورزش کرتی، دوڑ لگاتی تھی۔ شروع میں یہ سب کچھ کم تھا مگر آہستہ آہستہ بڑھتا چلا گیا۔
برگد کا درخت جس سے ‘جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے درخت’ کا اعزاز چھن گیا
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مشہ بروم ٹو کو سر کرنے کا فیصلہ تقریبا پانچ چھ سال کی مسلسل محنت، تربیت کے بعد کیا تھا۔ اس سے پہلے ہم نے کچھ چھوٹی پہاڑیاں سر کی تھیں۔ اپنے معاملات میں مثبت تبدیلی لائی تھی۔ پہلے کچھ کلو میٹر دوڑ لگاتی تو یہ آہستہ آہستہ دس، بارہ کلو میٹر تک پہنچ گئی تھی۔ اس طرح کرتے کرتے ایک دن ہم نے مشہ بروم ٹو کو سر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں کامیاب ہوئی۔
نورین میرے خاوند کا نام جمیل آفریدی ھے
کرنل رانا حسن میری گہری دوست کے خاوند ہیں
میں نے کوپہمائ کی ٹرینگ کرنل رانا حسن کے ساتھ کی ہے۔