محمد نوید خان
چاکر نوتک کلمتی انگریز کے خلا ف مزاحمت کا وہ کردار ہیں جن کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت، تحریک، جہدوجہد پھر گرفتاری اور اس کے بعد پھانسی کی سزا پر کئی مورخین نے لکھا ہے اور ان کا تذکرہ سندھ، بلوچستان کی تاریخ کی کئی کتابوں میں ملتا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ جب چاکر نوتک کلمتی کی پھانسی کا وقت قریب آیا تو ان سے آخری خواہش کا پوچھا گیا تو چاکر نوتک کلمتی نے خواہش کا اظہار کیا کہ آخری وقت میں اپنے دیس کی فضاوں میں پھانسی پانا چاہتا ہوں۔ انگریز بھی یہ خواہش سن کر حیران و رہ گئے۔
ایک مورخ نے لکھا کہ اس وقت انگریز افسر نے کہا کہ جب آزادی کا اتنا شدید جذبہ ہو تو پھر انگریز کے لیے زیادہ عرصہ برصغیر پر حکومت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

چاکر نوتک کلمتی کو پھانسی دینے کے لیے ایک پہاڑی کا انتخاب کرکے وہاں پر پھانسی گھاٹ بنایا گیا تھا۔
انگریز کپتان کا قتل
چاکر نوتک کلمتی کا تعلق بلوچستان کے علاقے حب سے تھا ، وہ اور ان کا خاندان شاہ نورانی کی درگاہ کا مجاور تھا۔ ان کے خاندان کے لوگ کراچی، ٹھیٹہ، بدین، حیدرآباد، جام شورو، لسبیلہ اور حب کے علاوہ کچھ اور علاقوں میں آباد ہیں۔
مورخین کے مطابق چاکر نوتک کلمتی بچپن اور جوانی ہی میں انگریز سرکار کے خلاف ہمیشہ بر سر پیکار رہے تھے۔ انگریزوں نے جب کراچی پر قبضہ کیا تو انگریز افسروں کا کراچی میں پسندیدہ مقام منگھوپیر تھا۔ اس دور میں منگھو پیر کا علاقہ سرسبز و شاداب اور قدرتی حسن سے مالا مال تھا۔ یہاں کئی قدرتی چشمے بہتے تھے۔
انگریزوں نے پابندی لگا رکھی تھی کہ جب انگریز افسر منگھوپیر کی سیاحت کرئیں تو اس وقت کوئی بھی مقامی اور انگریزوں کے علاوہ کوئی اور منگھوپیر کے علاقے کی طرف نہیں جا سکتا تھا۔ منگھو پیر کے علاقے میں اس دور میں مقامی لوگ مال مویشی کے پیشے سے وابستہ تھے۔ یہاں کے چشمے ان کے مال مویشی کے لیے پانی کا زریعہ تھے۔

پابندی کی وجہ سے مقامی لوگ شدید متاثر ہو رہے تھے مگر انگریزوں کو اس کا کوئی احساس نہیں تھا۔ انگریزوں کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا تھا۔ اس میں چاکر نوتک کلمتی بھی شامل تھے۔ وہ عرصہ سے کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے جس سے انگریز سرکاری پر کاری ضرب لگا دی جائے اور انھیں یہ موقع جلد ہی ملا۔
کتاب کراچی کے آفاقی کردار کے مطابق چاکر نوتک کلمتی نے ایک دن موقع پا کر کیپٹین الیگزینڈر ہینڈ کو قتل کر دیا اور اس کی اہلیہ کو لے کر فرار ہوگئے تھے۔
انگریز پریشان حال چاکر نوتک کلمتی غائب
کتاب کرچی کے آفاقی کردار میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کیپیٹن الیگزینڈر منگھو پیر گیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر اس نے اپنے محافظوں کو رک جانے کا کہا اور اپنی اہلیہ جس کا نام میٹلڈراواٹسن بیا گیا تھا کے ہمراہ پہاڑوں سے چشموں کی طرف نکل گیا۔
جب کافی دیر تک اس کی واپسی نہیں ہوئی تو دونوں کی تلاش شروع ہوئی تو ایک مقام پر کیپٹین کی لاش پڑی ہوئی تھی جب کہ اس کے بیگم غائب تھی۔
مصنف اور مورخ گل حسن لکھتے ہیں کہ اس کے بعد بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہوئی۔ انگریز سپاہیوں اور ان کے خاندانوں کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پاؤں کے نشانات کی مدد سے کھوج لگانے والوں (کھوجیوں) کی مدد حاصل کی گئی جنہوں نے بتایا کہ یہ کام شاہ نورانی مزار کے مجاور چاکر نوتک کلمتی نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے کیا۔
انگریزوں نے اس واقعہ میں ملوث چاکر نوتک کلمتی کے کچھ ساتھیوں کو تلاش کر لیا جنھوں نے بتایا کہ یہ قتل چاکر نوتک کلمتی نے کیا تھا۔ یہ تصدیق ہونے کے بعد انگزیزوں نے بڑے پیمانے پر چاکر نوتک کلمتی کی تلاش شروع کر دی تھی۔
انگریزوں نے تالپور خاندان کے علاوہ لسبیلہ اور قلات کے نوابوں اور خانوں کو پیغام بھجوایا کہ انھیں ہر صورت میں چاکر نوتک کلمتی چاہیے اور اس کے لیے وہ ہر حد تک جا سکتے ہیں جس میں ان پر حملے بھی شامل ہے۔
تالپور، لسبیلہ اور قلات کے نواب، خان اور میر انگریزوں سے خوفزدہ تھے۔ بات چیت اور پیغامات جاری تھے۔ انگریز انتہائی پریشان تھے۔
چاکر نوتک کلمتی کہاں گئے؟َ
مورخ بتاتے ہیں کہ چاکر نوتک کلمتی نے کیپیٹن کا قتل گھوڑے پر سوار ہو کر کیا تھا اور اس کی اہلیہ کو ساتھ لے کر فرار ہوگیا تھا، راستے میں کھانے پینے کے لیے رکے جہاں پر انھیں ایک مقامی شخص ملا۔
چاکر نوتک کلمتی نے اس کو ساری کہانی سنا دی۔ ساتھ میں اس سے کہا کہ وہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کرے۔ یہ شاہد ایک بڑی غلطی تھی جو چاکر نوتک کلمتی تک پہچنے کا ایک سبب بن گئی۔

لسبیلہ کے جام بھی چاکر نوتک کلمتی تک پہچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے ہرکارے اس کام پر مامور کر دیے تھے۔ ان ہر کاروں کو اس شخص جو راستے میں چاکر نوتک کلمتی کو ملا تھا نے ساری کہانی سنا دی تھی۔ ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ چاکر نوتک کلمتی کہاں گئے۔
دوسری جانب چاکر نوتک کلمتی خان آف قلات کے پاس پہچے اور کیپٹین کی بیگم کو خان آف قلات کے پاس امانتاً سپرد کر کے حب کی طرف چلے گئے۔
گرفتاری اور وعدہ خلافی
انگریزوں نے کلمتیوں کے سردار ملک ابراہیم کولالچ دیا اور کہا کہ اگر چاکر نوتک کلمتی کو حوالے کر دیا جائے تو وہ ان کو قتل نہیں کریں گے ورنہ وہ حملوں کے لیے تیار ہیں۔ اس پر ملک ابراہیم نے خان آف قلات سے رابطہ کیا اور خان آف قلات نے چاکر نوتک کلمتی سے رابطہ کرکے کیپٹن کی بیگم کو واپس بھجوا دیا مگر خود گرفتاری دینے سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک انگریز کراچی کو آزاد نہیں کرتے جنگ جاری رہے گی۔
کراچی کے بازار حسن کے گمشدہ اوراق، بابرا شریف اور امریکی و برطانوی سیاح
مورخ لکھتے ہیں کہ اب چاکر نوتک کلمتی کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ایسے میں ایک بار پھر سازش کے تانے بانے بنے گئے اور چاکر نوتک کلمتی کو مذاکرات کے بہانے بلایا گیا اور یہاں پر سرداروں، خانوں اور تالپوروں نے چاکر نوتک کلمتی کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں انگریز کے حوالے کر دیا۔
چاکر نوتک کلمتی کی گرفتاری میں سب ملوث تھے۔ انگریز اس کو بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے اور حقیقت میں یہ کامیابی بھی تھی کیونکہ چاکر نوتک کلمتی نے انگریز کی نیندیں حرام کردی تھیں۔
پھانسی کی سزا سنا دی گئی
مورخ لکھتے ہیں کہ اب خان آف قلات، تالپوروں جن کی عملاً کراچی پر حکمرانی تھی کے علاوہ کلمتیوں نے انگریز کو وعدہ یاد دلایا تو کہا گیا کہ چاکر نوتک کلمتی کو چھوڑا نہیں جا سکتا اور یہ کہ انھوں نے خود گرفتاری نہیں دی بلکہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ من مانا فیصلہ لینے کے لیے فوجی عدالت قائم کر کے مقدمہ چلایا گیا۔
واضح رہے کہ اس وقت کراچی میں تالپوروں کا عدالتی نظام قائم تھا مگر انگریز ہر صورت میں چاکر کو سزا دینے کا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ فوجی عدالت میں کیپٹین کی اہلیہ کا بیان بھی ریکارڈ ہوا جس میں قتل کا واقعہ بیان کیا گیا مگر چاکر کی کسی بدسلوکی کا ذکر نہیں کیا بلکہ کہا گیا کہ اس نے کبھی غلط نگاہ نہیں ڈالی تھی۔
انگریز نے چاکر پر بے لچک رویہ اختیار کر لیا تھا۔ سب کو دو ٹوک انکار کردیا اور پھر وہ وقت آگیا جب چاکر کی پھانسی پر عمل در آمد کرنا تھا۔
کراچی کی سڑکیں بند کردی گئیں
چاکر نوتک کلمتی سے آخری خواہش پوچھی گئی۔ تو بڑی عجیب خواہش کی کہ مجھے اونچی جگہ پر پھانسی دی جائے اور آنکھوں پر پٹی نہ باندھی جائے تا کہ میں اپنی زندگی کے آخر تک اپنی مٹی کے درختوں اور مناظر دیکھ سکوں۔
انگریز نے ان کی خواہش پوری کرتے ہوئے انہیں نیشنل سٹیڈیم کے قریب کے علاقے میں موجود پہاڑی ڈالمیا میں پھانسی دی تھی، اس پھانسی پر خوف اتنا تھا کہ کراچی کے راستے بند کردیے گئے تھے۔
انگریز مورخین نے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ ڈالمیا کے قریب پہاڑی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں پر ایک قبر ہے۔ اس شخص کو انگریز افسر کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔
یہ جگہ آج بھی چاکر سے منسوب اور سرکاری کاغذات میں ’جبل چاکر پھانسی’ ہے۔ اس مقام کو پھانسی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔