محمد نوید خان
‘ارے بابو کوئی دور تھا کہ جب شہر میں یہ بات پھیل جاتی کہ بابرا شریف اپنی ممانی سے ملنے نیپیئر روڈ پہنچ رہی ہے تو جوانوں کی بڑی تعداد اکھٹی ہوجاتی تھی۔’
یہ کہنا تھا کہ نیپیئر روڈ میں کئی دہائیوں سے دوکان کرنے والے عظمت میاں کا۔
عظمت میاں کو نیپیئر روڈ کا عروج وزوال، اس روڈ پر قائم بازار حسن اور اس کی رونقیں سب کچھ یاد ہے۔
نیپیئر روڈ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع ہے۔ کوئی دور تھا کہ نیپیئر روڈ کی شام بڑی حسین ہوا کرتی تھی۔ جو شام ہی کو آباد ہوتا تھا۔ نیپیئر روڈ کا بازار حسن لاہور جیسی شہرت تو حاصل نہ کرسکا مگر اس بازار نے برصغیر اور پاکستان کو کچھ نامور اور شہر ت یافتہ فنکار دیئے ہیں۔
وہ نامور او شہرت یافتہ فنکار کون سے ہیں اس کا ذکر پاکستان اسٹوریز کی خصوصی رپورٹ میں آگے چل کر کرتے ہیں۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں نیپیئر روڈ کا ذکر کیسے ملتا ہے۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد کراچی نئی معاشی طاقت
جنگیں جہاں تباہی اور بربادی لاتی ہیں وہیں یہ نئے امکانات اور تاریخ بھی کھولتی ہیں۔
کئی مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد انگریز سرکار کی نظریں کراچی پر جم گئی تھیں۔ اسی دور میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر راجستھان، ممبئی اور گوا سے سیلاوٹ، پارسی اور گونز کمیونٹی کے لوگ نئے مواقع کی تلاش میں کراچی نقل مکانی کرکے پہنچے جن کی آمد کی وجہ سے کراچی میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔
آج سیلاوٹ، پارسی اور گونز لوگوں کی بڑی اکثریت کراچی اور پاکستان چھوڑ چکی ہے مگر اب بھی کچھ موجود ہیں اور ان کی نشانیاں اورعمارتیں بھی موجود ہیں۔
عالمی جنگوں کے دوران کیوں کراچی کی اہمیت بڑھی؟ اس بارے میں کتاب ‘کراچی، ملکہ مشرق’ کی مصنفہ محمودہ رضویہ لکھتی ہیں کہ 1914 میں کراچی کو فوجی نقل و حرکت کا مرکز قرار دیا گیا تھا۔ کراچی سے فوج خلیج فارس اور عراق میں آسانی سے پہنچ سکتی تھیں۔ مختلف دفاتر اور ادارے کھولے گئے جس کے باعث مکانات اور دکانوں کی قلت ہونے لگی۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کئی عمارتیں بنیں۔ کئی نئے مواقع پیدا ہوئے اور جنگ کے 4 برس کے دوران یہاں کے تاجروں نے لاکھوں روپے کمائے۔
کراچی پورے خطے میں ایک نیا تجاری اور رہائشی مرکز بنتا جارہا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ساحلی علاقہ تھا۔
واضح رہے کہ انگریزوں کے قبضے سے پہلے سندھ کا دارالحکومت حیدر آباد تھا مگر سر چارلس نیپیئر جنھوں نے سندھ پر قبضے کی مہم انجام دی تھی نے سندھ کا دارالحکومت حیدرآباد سے کراچی منتقل کیا۔
مورخیں کہتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ سمندر کے علاوہ بہترین آب و ہوا تھی۔
واضح رہے کہ بندر روڈ سے لی مارکیٹ تک کی سڑک ان کے نام سے منسوب کی گئی تھی۔
بلوچستان و ایران سے آنے والی بسوں کا اڈہ بھی نزدیک تھا اسی سبب اطراف میں بے شمار رہائشی ہوٹل تھے یوں یہ علاقہ بازار حسن کے لیے مناسب قرار پایا۔
تمام تر قانونی تحفظ کے ساتھ یہ بازار حسن بھی ہندوستان میں قدیم زمانے سے فن، آداب اور روایات کے سائے تلے پروان چڑھا جہاں رقص اور موسیقی کی دنیا پوری آب و تاب سے قائم ہوئی اور ساتھ قحبہ خانے بھی چلے۔
نیپیئر روڈ بازار حسن کیسے بنا؟
برصغیر انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بازار حسن قدیم دور سے چل رہے ہیں۔ شاہد مغلوں سے بھی پہلے مگر انگریزوں سے پہلے اس کے لیے مخصوص علاقے آباد نہیں تھے۔ کچھ کوٹھے ضرور موجود ہوتے تھے۔ انگریزوں نے اپنی وجوہات اور مسائل سے نمٹنے کے لیئے بازار حسن کے علاقے متعین تھے۔
اس بارے میں کافی تحقیق ہوچکی ہے جس میں سب سے معتبر تحقیق رخسانہ افختار کی ہے جن کا مقالہ جنرل آف دی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان میں چھپا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ برطانوی فوجیوں میں جنسی امراض پھیلنے کے بعد اس سے نمٹنے اور1864 میں جنسی امراض کے پھیلاو سے بچنے کے لیے قوانین متعارف کروائے گئے، اس قانون کے تحت جسم فروشی کو قانونی حیثیت اور تحفظ حاصل ہوا۔
اس قانون کے تحت انگریزوں نے مختلف چھاونیاں بنا رکھی تھیں۔ ان میں مخصوص مقامات پر ریڈ لائیٹ ایریا، قحبہ خانوں یا بازار حسن کے قیام کی اجازت دی گئی تھی جہاں پر کچھ پابندیاں بھی تھیں۔
رخسانہ افتخار کے مطابق قحبہ خانوں میں جو خواتین کاروبار کررہی ہوتیں تھیں۔ نئے قوانین کے تحت پولیس کو ان کے جسمانی معائنے اورجنسی بیماری کی شکار خاتون کی گرفتاری کی اجازت دی گئی تھی۔ اس قانون کا مقصد برطانوی فوج کے سپاہیوں کو سہولت فراہم کرنا تھا۔ ان کی صحت کا تحفظ کرنا تھا۔ جو اپنے ملک سے دور دراز کے علاقوں میں تعینات تھے۔
اس تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ 1910 میں کچھ یورپی خواتین بھی اس کاروبار میں شامل ہوئی تھیں۔
اس دشت میں اک شہر تھا کے مصنف اقبال رحمان مانڈویا لکھتے ہیں کہ نیپیئر روڈ کے گاہک مسافر ہوتے تھے۔ بندرگاہ سے نزدیک تر ہونے کی بنا پر بحری جہازوں کا عملہ اورغیر ملکی مسافروں کے لیے پرکشش تھا۔ اسی طرح سٹی ریلوے سیشن سے نزدیک تر ہونے کے باعث یہ علاقہ اندرون ملک کے مسافروں کے لیے بھی پسندیدہ تھا۔
صرف فوجی اہلکاروں کو اجازت تھی
‘ایسا تھا میرا کراچی’ کتاب میں مصنف لکھتے ہیں نیپیئر روڈ کے بازار حسن میں نابالغوں کے علاوہ سرکاری ملازمین کا داخلہ ممنوع تھا ۔ یہاں پر صرف فوج کے لوگوں کو اجازت ہوتی تھی۔ شام کے وقت ایک بوڈ لگا دیا جاتا تا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا تھا کہ ’آؤٹ آف باونڈ ایریا۔ سادہ لباس میں پولیس اہلکار ہر ایک پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ فوج کا انٹیلی جینس نظام بھی فعال رہتا تھا۔
تقسیم برصغیر کے بعد 60 کی دہائی کے عرصے میں اس بازار نے بہت عروج دیکھا تھا۔
مصنف محمد سعید جاوید بتاتے ہیں کہ جب پاکستان سیٹو اتحاد میں شامل ہوا تو کیماڑی کی بندرگاہ پر غیر ملکی نیوی کے جہاز لنگر انداز ہوتے تو یہ سب نیپیئر روڈ پہنچ جاتے جہاں کے مہ خانوں میں شراب اور کوٹھے ان کے منتظر ہوتے تھے۔ پولیس کاروبار میں مداخلت نہیں کرتی تھی بلکہ غیر ملکیوں کو سہولتیں فراہم کی جاتیں۔ یہاں تک کہ بگھیاں ان مہمانوں کی منتظر رہتیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کراچی میں بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی رخ کرتے تھے۔
نیپیئر روڈ میں کئی فنکار پید ہوئے تھے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کی فلم اور ڈرامہ انڈسڑی کو یہاں سے نامی گرامی فنکار ملے تھے۔
نیپیئر روڈ، فلمی صنعت اور نئے نوٹ
مصنف اقبال رحمان مانڈویا لکھتے ہیں کہ کبھی نیپیئر روڈ اور یہاں موجود فنکاروں کی سرپرستی نواب اور راجہ کرتے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد جب نوابوں اور راجاؤں کی راج دہانیاں ختم ہو گئیں تو نیپیئر روڈ کا علاقہ کراچی میں بننے والی فلموں کے لیے فنکار تیار کرنے کی نرسری بن گیا۔
یہاں قحبہ خانے اور کوٹھے مختلف معیار کے تھے۔ جب شام کا اندھیرا پھیلنے لگتا تو نیپیئر روڈ کے بالا خانوں سے گھنگھروں کی چھنا چھن کا آغاز ہوجاتا اور رات گئے محفلیں عروج پر پہنچ جاتی تھیں۔
عظمت میاں بتاتے ہیں کہ تب بازار میں میوزک سینٹرز کی بہات ہوتی اور ساتھ گھڑیوں کی دکانیں بھی ہوتی تھیں۔ بازار حسن کی خواتین گھڑیاں پسند کرتی تھیں۔ اکثر لوگ ان کو تحفہ دینے کے لیے ان گھڑیوں کی دوکانوں کا رخ کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ ہی تحفہ واپس اس گھڑی کی دوکان پر چلا جاتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر ایک اور روایت بھی تھی کہ مجرے میں صرف نئے نوٹ ہی نچھاور ہوتے تھے۔ کئی تو ایسے تھے جو نئے نوٹوں کا انتظام کرکے آتے تھے۔ بازار میں بھی اس کا انتظام موجود تھا۔ کچھ اس کا کار وبار بھی کرتے تھے اور نائکہ بھی اس کا انتظام رکھتی تھی۔
عظمت میاں کا کہنا تھا کہ یہاں پر اجازت نامے ہوتے تھے کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا تھا۔ ضیاء الحق دور حکومت میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں پہلے رات بارہ بجے کا وقت مقرر کیا اور پھر پابندی عائد کردی گئی۔
مصنف اقبال رحمان مانڈویا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دو مرتبہ اس بازار پر برے حالات آئے۔ ایک مرتبہ جب کراچی کی فلم انڈسٹری زوال پزیر ہوئی تو فلم انڈسڑی میں کام کرنے والے لاہور منتقل ہوگئے جس کے سبب بازار کی چہل پہل میں فرق پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ تحریک نفاذ مصطفی کے دور میں زوالفقار علی بھٹو نے نے نائٹ کلب، ریس کورس اور جوا خانے بند کر دیے تو یہ بھی متاثر ہوئے۔ جنرل ضیاالحق دور میں لگنے والی پابندیوں کے نتیجے میں پولیس تماشائیوں کو ہرساں کرتی تھی۔ اس وجہ سے بھی رونق ختم ہوگئی 200 سے زائد گھرانے تھے جو کم ہو کر 25 سے 30 رہ گئے تھے۔
اب شمشاد منزل کے مکین کوئی اور
عظمت میاں کا کہنا تھا کہ اس بازار نے اپنے دور کی کئی مشہور ہیروئنوں کو جنم دیا ہے جس میں فردوس زیبا اور نجمہ بھی شامل ہیں۔ وہ وہاں کی مختلف عمارتوں میں رہتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بابرا شریف لاہور منتقل ہونے سے پہلے شمشاد منزل کی دوسری منزل پر رہتی تھیں۔ شمشاد منزل کسی دور میں لوگوں کا بہت پسندیدہ ہوتا تھا کیونکہ وہاں پر کئی خواتین فنکار موجود تھیں۔
عظمت میاں کا کہنا تھا کہ اب یہاں کی کچھ خواتین نجی محفلوں میں گانا گاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ٹیلی وژن چینل نے یہاں کی خواتین کی وڈیو بنا کر لگا دی تھی جس پر پولیس نے چھاپے مارے تھے۔ جس کے بعد وہ بھی چلی گئی ہیں۔ پتا نہیں کدھر گئیں۔ اب یہ بازار صرف موچی بازار ہی ہے۔