منگل, نومبر 5, 2024
ہوماہم خبریںشیر میسور ٹیپو سلطان کی پڑپوتی برطانیہ کی ہیرو

شیر میسور ٹیپو سلطان کی پڑپوتی برطانیہ کی ہیرو

محمد نوید خان

برطانیہ میں آج بھی ایک خاتون پر تحقیق کی جاتی ہے جس کو جرمن نازیوں نے  بے رحمانہ انداز میں ہاتھ اور پاؤں کو ہتھکڑیوں اور بیٹریوں سے باندھ رکھا تھا۔ وہ اس پر بے رحمانہ تشدد کرتے مگر کوئی راز نہیں معلوم کر سکے تھے۔ یہ خاتون کوئی اور نہیں میسور کے شیر ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت تھی۔

انسانی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا کہ ایک طرف ریاست میسور کا حکمران خاندان ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی کو غدار اور تاج برطانیہ کا دشمن قرار دیا تھا۔ ٹیپو سلطان کو غداروں اور سازشیوں کی مدد سے بے رحمانہ انداز میں قتل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ٹیپو سلطان کی اولاد کو میسور میں نہیں چھوڑا گیا بلکہ برطانیہ اور برطانیہ کے زیر نگین مختلف ریاستوں میں منتقل کرکے عملاً نگرانی میں رکھ گیا تھا۔

نور عنایت کی سوانح حیات کا سر ورق

اسی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت کو تاج برطانیہ کی خدمت، قربانی اور وفاداری نبھانے اور جان کی قربانی دینے پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس کی تصویر کو کرنسی نوٹ پر چھاپا گیا، یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے، لندن  گورڈن اسکوائر پر مجسمہ نصب کر کے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز دیا گیا۔

نور عنایت نے نازی جرمنوں کے خلاف کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے۔ ان کو بالکل اسی طرح دھوکے سے پکڑ کر ان کے سر میں گولی ماری گئی جس طرح ٹیپو سلطان کو دھوکے سے انگریزوں نے قتل کیا تھا۔

لندن کے گورڈن اسکوائر پر نصب نور عنایت خان کا مجسمہ

پاکستان سٹوریز نے تاریخ کے مختلف اوراق سے نور عنایت سے متعلق معلومات اکھٹی کی ہیں۔ جس میں نور عنایت کے کارہائے نمایاں، گرفتاری اور پھر قتل کی روداد شامل ہے۔

متاثرہ کن شخصیت کی مالک

بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ نور عنایت ایک متاثر کن شخصیت کی مالکہ تھیں جو بیک وقت سپاہی، مصنفہ، مسلمان اور جاسوس رہیں جنھوں نے فسطائیت کے خلاف ایک کھلی جنگ کی تھی۔

وہ برطانوی شہری تھیں جو کہ فرانس کے شہر پیرس میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہتی تھی۔ انھوں نے بحثیت مصنفہ اپنی عملی زندگی کا آغاز بچوں کے لیے کہانیاں لکھ کر شروع کیا تھا۔ فرانس پر جب جرمن نازیوں نے قبضہ کر لیا تو وہ وہ فرار ہوکر برطانیہ آگئیں جہاں پر انھوں نے برطانوی ایئر فورس میں امدادی کاموں کے لیے تربیت حاصل کی اور پھر خفیہ ایجنسی میں ایجنٹ بھرتی ہوئیں۔

نور عنایت برطانیہ میں نہیں بلکہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں 1914 میں پیدا ہوئیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کے والد کا نام حضرت عنایت خان تھا اور وہ ایک صوفی تھے۔ نورعنایت کی والدہ امریکی خاتون تھیں جنھوں نے اپنا نام بدل کر امینہ شاردہ رکھ لیا تھا۔

نور عنایت خان کا خاندان

برطانوی تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے کہ نور عنایت کی والدہ نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں تاہم نام کی تبدیلی اشارہ کرتی ہے کہ انھوں نے غالباً اسلام قبول کرلیا تھا مگر اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نور عنایت کی سوانح عمری ’سپائی پرنسس: میں کہا گیا ہے کہ نور عنایت کے بھائی کا نام ولایت خان تھا۔ یہ اپنے بھائیوں سے ہندی اور اردو میں بات کرتیں۔  12 سال کی عمر میں والدین کے ساتھ انڈیا کے علاقوں  بنارس، جے پور اور دلی بھی گئیں جب کہ اس دوران انہوں نے صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دی۔

نور عنایت اور ان کے والدین بعد ازاں فرانس کے شہر پیرس منتقل ہوئے جہاں پر نور عنایت نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور فرانسیسی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔  نور عنایت نے موسیقی اور طب کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔  تاہم انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز بچوں کے حوالے سے کہانیاں لکھ کر کیا تھا۔ ان کے مجموعے کا نام جاٹا کا ٹیلز ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے موقع پر وہ نرسنگ کی تربیت حاصل کر رہی تھیں۔ 1940 میں جب جرمن نازیوں نے فرانس پر قبضہ کیا تو اس موقع پر وہ ایک کشتی کے ذریعے اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ برطانیہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔  برطانیہ میں انھوں نے برطانوی ایئرفورس میں خدمات شروع کیں اور بعد میں انھیں خفیہ تنظیم میں منتخب کرلیا گیا۔

نور عنایت ہندوستان کی آزادی کی حامی تھیں

نور عنایت پر جتنی بھی کتابیں لکھی گئیں ان میں نور عنایت کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کے جاسوسی کے شعبے کی آنے کی وجہ  درحقیقت ان کے بھائی ولایت خان تھے جو اس وقت رائل ایئرفورس میں ملازمت کرتے تھے۔

نور عنایت کے بھائی ولایت خان نے بتایا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں جدوجہد آزادی چل رہی تھی اور نور اس کو بہت قریب سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ جواہر لعل نہرو سے متاثر تھیں۔ انھوں نے نہرو کی سوانح عمری کی کتاب ولایت خان کو تحفے میں بھی دی تھی۔

کیا انقلابی بھگت سنگھ عشق میں مبتلا تھے؟

نور عنایت پر لکھی جانے والی کتابوں کے مطابق ولایت خان سمجھتے تھے کہ اگر نور عنایت زندہ بچ جاتیں تو پھر وہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوجاتیں مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران نور عنایت کی رائے یہ تھی کہ اس وقت اس معاملے کو نہیں اٹھانا چاہیے بلکہ انگریزوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

دوران انٹرویو نور عنائیت سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں جاری تحریک آزادی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے تو اس پر انھوں نے مخالفت میں جواب نہیں دیا تھا۔

ان سے پوچھا گیا کہ اس موقع پر یہ رائے برطانیہ کے خلاف نہیں جائے گی تو انھوں نے جواب دیا اور یہ جواب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جرمنی کے ساتھ جاری جنگ کے دوران برطانوی حکومت کی وفادار رہیں گی لیکن جنگ کے بعد ںظر ثانی کریں گی اور ممکنہ طور پر وہ جنگ آزادی کا ساتھ دے سکتی ہیں۔

مشن کے لیے پیرس روانگی

پیرس میں نور عنایت کا بچپن گزارا تھا۔ وہ فرانسیی زبان پر عبور رکھتی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ انتہائی بہادر تھیں۔ انھیں 1943 میں چھوٹے جہازوں کے ذریعے فرانس پہنچایا گیا تھا جہاں پر انھیں جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں  کام کرنا تھا۔

نور عنایت خان کی سوانح عمری ’کوڈ نیم میڈلن: اے صوفی سپائی ان نازی اکیوپائڈ پیرس‘  میں کہا گیا ہے کہ جب پائلٹ نے نور عنایت کو دیکھا تو کہنے لگا کہ خوش شکل، گندمی رنگ کی مالکہ خاتون کو فرانس کیوں بھجا جارہا ہے یہ تو ایک دم نظروں میں آجائیں گی۔

نور کے زیر استعمال ٹرانسمیٹر

بھرحال نور عنایت کو جہاز فرانس میں اتار دیتے ہیں۔ اس موقع پر وہ سائیکل چلاتے ہوئے پہلے قریبی گاؤن اور پھر پیرس کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔ ان کا نیا نام  ’ژاں میری رینیا‘ ٹھرتا ہے۔ ان کا برطانیہ میں جاسوسی نام میڈلین تھا۔

نور عنایت کے لیے یہ مشن آسان نہیں تھا۔ فرانس میں برطانیہ کا تقریبا تمام جاسوسی نیٹ ورک توڑ دیا گیا تھا۔

جرمن ایجنٹ کا ہاتھ کاٹ کھایا

نور عنائیت کی سوانح عمری کے مطابق اب فرانس میں غالباً واحد برطانوی ایجنٹ نور عنایت ہی ہوتی ہیں۔  

70 لوگوں کا قاتل، عاطف زمان کا ‘عاطی لاہوریا’ اور ‘قصاب’ کہلائے جانے تک کاسفر

نور عنایت نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر جرمن فوجیوں کے بارے میں اہم معلومات برطانیہ بھجوائیں۔ ہر اتوار اور بدھ  کو وہ اپنے پیغامات اور معلومات برطانیہ پہنچاتیں۔ وہ اپنے فلیٹ کا دروازہ خفیہ کوڈ بتانے پر کھولتی تھیں۔

برطانیہ میں موجود ریکارڈ کے مطابق نور عنایت کی گرفتاری غداری کی وجہ سے ہوئی۔ وہ اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد اپنے فلیٹ میں پہنچی تو جرمن ایجنٹ پہلے ہی سے اندر موجود تھا۔ جس کی کلائی نور عنائیت نے اتنے زور سے کاٹی کہ اس کا خون بہنے لگا تھا۔ نور عنایت کو قابو کرنے کے لیے پستول نکالا اورمزید نفری منگوائی۔

فرار کی کوشش

نور عنایت نے ہر تشدد برداشت کیا مگر کچھ بھی نہیں بولیں ، ضروری تفتیش کے بعد انھیں جیل بھج دیا گیا۔  جیل میں ان پر سختی تھی ان کے واش روم کا دروازہ کھلا رکھا جاتا کہ پہرے دار ان پر نظر رکھ سکیں۔ مگر انھوں نے ایک مرتبہ شور مچا دیا کہ وہ غسل کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے پردہ فراہم کیا جائے۔

غسل خانے کا دروازہ بند کیا گیا تو نور عنایت نے روشن دان سے فرار کی کوشش کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایک جرمن افسر نے نور عنایت کو باہر کھڑے دیکھ لیا تھا۔

صدر ایوب کو فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ ڈلوانے والا پاکستان کا رابن ہڈ

نور عنایت جرمن جیل انتظامیہ کے لیے ایک مشکل قیدی تھیں۔ انھوں نے ایک اور فرار کی کوشش کی اور اس کے لیے جیل کی چھت پر پہنچ گئیں مگر اس وقت برطانیہ کی فضائیہ نے حملہ کر دیا۔ جب جیل کے لوگوں نے تلاشی لی تو نور عنایت کو نہ پا کر ان کی تلاش شروع کردی جبکہ حملے کی وجہ سے نور عنایت زیادہ دور تک فرار نہیں ہو سکیں۔

جرمنی جیل میں نور عنایت پر تشدد

نورعنایت کو 1943 میں فرانس سے جرمنی بھج دیا گیا ، وہ خطرناک ترین قیدی تھیں۔  جرمنی کی فورزیم جیل میں ان کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں سے اس طرح  بندھے ہوئے تھے کہ وہ نہ سیدھی ہو سکتی تھیں اور نہ بیٹھ سکتی تھیں۔ کھانے میں صرف آلو کے چھلکے اور گوبھی کا سوپ دیا جاتا تھا۔ جرمن سیکرٹ سروس گسٹاپو نے نور عنایت کا سکون تباہ کر دیا تھا۔

ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد

نورعنایت کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ سیل میں وقت کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود آہستہ آہستہ چلتیں کہ کبھی نہ کبھی دوبارہ فرار کا موقع ملے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 12 ستمبر کو انھیں حراستی کیمپ میں لے جایا گیا۔ اس کیمپ سے کوئی شاز و نازر ہی زندہ واپس آیا ہوگا۔

یہاں پر نور عنایت کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جرمن فوجیوں نے تشدد کے سارے حربے استعمال کرلیے مگر نور عنایت کچھ بتانے کو تیار نہیں تھی اور نازی جرمنوں نے مایوس ہو کر ان کی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سپاہی نے اپنا پستول نکالا اور ان کی گردن کے پچھلے حصے پر فائر کر دیا جس کے بعد لاش کو بھٹی میں ڈال کر جلا دیا گیا۔

وہ بٹھی جس میں نور عنایت کی لاش کو جلایا گیا

نور عنایت کو 30 سال کی عمر میں قتل کیا گیا تھا اور ان کے آخری الفاظ تھے ‘آزادی’۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین