اتوار, جون 22, 2025
ہوماہم خبریںبرگد کا درخت جس سے 'جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے درخت'...

برگد کا درخت جس سے ‘جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے درخت’ کا اعزاز چھن گیا

نورین محمد سلیم

سرگودھا کے علاقے مڈھ رانجھا میں اس وقت ماحولیات پر کام کرنے والے کارکن اور عوام برگد کے ایک قیمتی درخت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو سینکڑوں سال پرانا ہے اور اس درخت کو کچھ سال پہلے تک جنوبی ایشیا کا برگد کا سب سے بڑا درخت ہونے کا اعزاز حاصل تھا مگر اب یہ اعزاز اس سے چھن چکا ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ اب جنوبی ایشیا کا برگد کا دوسرا بڑا درخت ہے۔

اس وقت اس برگد کے درخت کی شہرت پاکستان سے نکل کر بیرونی دنیا تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ اس درخت کو دیکھنے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ اس درخت کو دیکھنے والا ہر کوئی اس کی لمبائی چوڑائی اور رعب کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے اور اس کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

سرگودھا کے سابق نائب ضلعی عہدیدار اور درخت کو بچانے کی کوشش کرنے والے میاں سلطان رانجھا کا کہنا ہے کہ 1990 میں معلومات پاکستان کے نام سے چھپنے والی کتاب میں بتایا گیا تھا کہ اس برگد کے درخت کا رقبہ 8 کنال ہے مگر اب یہ غالباً دو اڑھائی کنال پر رہ گیا ہے۔

تاریخی اور قیمتی درخت ہے

میاں سلطان رانجھا کہتے ہیں کہ یہ درخت کتنے سال پرانا ہوگا اس کے بارے میں مصدقہ معلومات تو ماہرین جنگلات و آثار قدیمہ ہی دے سکتے ہیں مگر علاقے میں ہم نے جو روایات سنی اور جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق یہ سینکڑوں سال پرانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان سے قبل ہمارے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ آباد ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی اور اب بھی ملنگ، فقیر، سادھو آیا کرتے اور درخت کے نیچے بیٹھا کرتے تھے۔

میاں سلطان رانجھا کا کہنا ہے کہ اب بھی لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں، ان میں بڑی تعداد میں فقیر، ملنگ اور سادھو ہوتے ہیں۔ اس درخت کا ذکر جہاں ‘معلومات پاکستان’ جو کہ 1990 میں چھپی تھی اس میں ملتا ہے وہیں دیگر کچھ کتب میں بھی یہ معلومات ملتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور 2006 میں اس درخت کے حوالے سے ہر ممکنہ کام کیا اور اس کو پاکستان ٹورازم میں داخل کروایا ، بروشر چھپوائے گئے کہ سرگودھا ہی نہیں بلکہ پنجاب اور پاکستان کی سیاحت کے علاوہ اس کا تاریخ میں بھی حصہ ہے۔

میاں سلطان رانجھا کا کہنا تھا کہ اس درخت کو محفوظ رکھنا اور اس کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

درخت ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے

میاں سلطان رانجھا کا کہنا تھا کہ یہ درخت ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر کئی پرندوں نے اپنے گھونسلے بنا رکھے ہیں۔ اس کی چھاؤں میں آج بھی تھکے ماندے مسافر آرام کرتے ہیں۔ ویسے بھی برگد کا درخت ہمارے ماحولیاتی اور معاشرتی نظام میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہماری پنجایت، جرگہ، بیٹھک، گپ شپ برگد کے درخت کی چھاؤں تلے ہوتی ہے۔ اب تو یہ رواج کم ہوگیا ہے مگر ضرورت تو موجود ہے۔

سرگودھا سے صحافی شیخ محمد عثمان کہتے ہیں کہ انتظامیہ نے کچھ عرصہ قبل اس درخت کے اردگرد باڑ لگا دی ہے جس کا مقصد اس درخت کی حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کے رقبے اور جگہ پر مزید قبضہ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ سال پہلے اس درخت کے رقبے پر قبضہ ہوا، مکانات بنے جس کے باعث اس درخت کا رقبہ کم ہونا شروع ہوا ہے مگر اب باڑ سے توقع ہے کہ اس میں مزید کمی نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا دریائے چناب کے کنارے کھڑا یہ درخت سینکڑوں سال پرانی تاریخ کا گواہ ہے۔ روایات کے مطابق اس درخت کو ایک صوفی بزرگ مرتضیٰ شاہ نے اپنے شاگرد ملنگ بابا روڈھے شاہ کے ساتھ مل کر لگایا تھا۔ شاید وہ کہیں سے آتے ہوئے اس مقام پر رکے ہوں گے ، یہیں اپنا ڈیرا بنایا ہوگا۔

شیخ محمد عثمان کہتے ہیں کہ یہاں پر لوگ اب بھی اپنی مرادیں اور منتیں مانگتے ہیں۔ درخت پر مختلف نوعیت کی فقرے بھی درج ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ برگد کے مزید درخت لگائے جائیں اور اس کی ہر ممکنہ حفاظت کی جائے۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین