تحریک انصاف کے سنگجانی جلسے کے بعد مختلف قوانین، معاہدے، این او سی، روٹ اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے الزامات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی شیر افضل مروت، عامر ڈوگر، زین قریشی، نسیم شاہ، احمد چھٹہ اور دیگر 8 ممبران کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
عدالت نے تحریک انصاف کے ترجمان شعیب شاہین ایڈووکیٹ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کو جودیشنل ریمانڈ پر جیل بھج دیا ہے جبکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کو پولیس نے رہا کر دیا، انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ پولیس تھانہ سنجگانی کے مطابق ان کو مقدمے میں ڈسچارج کردیا گیا ہے۔
آپ کا مکا تو ویسے بھی مشہور ہے، جج
دوران سماعت شیر افضل مروت نے 2 دن پہلے اتنا بڑا واقعہ ہوا لیکن میڈیا میں کوئی خبر ہی نہیں آئی، ہمارے پاس جلسے کی تمام فوٹیجز موجود ہیں، یہ کہتے ہیں علی امین گنڈاپور نے ڈی ایس پی کی کنپٹی پر کلاشنکوف رکھی، اگر پولیس والے سچ بولتے ہیں تو یہ قرآن پر حلف لیں۔
انہوں نے کہا کہ میں جج اور وکیل رہا ہوں، کیا میں پولیس پر پستول رکھوں گا؟ ان کا پورا کیس زبانی الزامات پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں جلسہ تھا وہاں میڈیا موجود تھا، زیادہ رش کی وجہ سے میری سانس رک رہی تھی تو ایک کارکن کو مکا مارا اور یہ بات بھی میڈیا میں چلی، ان کے ساتھ اتنا بڑا واقعہ ہوا مگر میڈیا کو پتا ہی نہیں۔
اس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شیر افضل مروت سے کہا کہ آپکا مکا تو ویسے بھی مشہور ہے۔
شیر افضل کا کہنا تھا کہ کل جب یہ پارلیمنٹ آئے تو ہم 300 لوگ تھے اور 250 پولیس والے تھے، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ان سے دو دو ہاتھ کر لیتے ہیں مگر انہوں نے بات نہیں مانی۔
اس پر جج نے کہا کہ یعنی کہ کل آپ دنگل کے لیے تیار تھے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جی جی، میں بالکل تیار تھا مگر ہمارے ساتھی نہیں مانے، اگر ہم نے کچھ کرنا یوتا تو میرے گاڑی میں 4 کلاشنکوفیں اور ایک پستول تھا۔
تاہم پولیس تھانہ سنگجانی نے یہ نہیں بتایا کہ ایک جیسے الزامات کے تحت درج مقدمے میں بیرسٹر گوہر کو کیوں رہا کیا گیا اور باقی رہنماؤں اور کارکناں کا ریمانڈ کیوں حاصل کیا گیا؟۔
کوشش کی جا رہی ہے ہمارے اراکین اسمبلی کو توڑا جائے، گوہر
مقدمے سے ڈسچارج ہونے اور رہائی کے بعد بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج 10 ستمبر 2024 پاکستان کی جمہوریت میں سیاہ دن مانا جائے گا، پاکستان تحریک انصاف اس دن کو نہیں بھولے گی، کل نقاب پوش ایوان میں داخل ہوئے اور ہمارے 10 ایم این اے کو گرفتار کیا گیا تو میں خود گرفتاری دینے باہر آیا، یہ ایوان پر حملہ ہے اور ہمیں توقع ہے اسپیکر صاحب اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو آپ کو جگہ نہیں دیں گے تو غیرسیاسی قوتیں زور پکڑیں گی، انتہا پسند اور علیحدگی پسند قوتیں زور پکڑیں گی، ایک دوسرے کے لیے بہت راستے بند کیے لیکن اب راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔
اپنے اراکین اسمبلی کے ریمانڈ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے اراکین قومی اسمبلی کو توڑا جائے لیکن وہ خان صاحب کے نظریے کے ساتھ رہیں گے۔
دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے ممبران اسمبلی کی پارلیمنٹ کے احاطے سے گرفتاری پر نوٹس لیا اور کہا کہ یہ ایک سنجیدہ واقعہ ہے۔
ایاز صادق کے مطابق انھوں نے اس سے پہلے بھی ایسے واقعہ پر مقدمہ درج کروایا تھا اور اب بھی اگر ضرورت پڑی تو مقدمہ درج کروائیں گے، اس واقعہ کے ذمہ داراں کا تعین کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے بھی گرفتاریوں پر سخت احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اس پر کاروائی کرنا ہوگی۔
تحریک انصاف کے ایم این اے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے گرفتاریوں کو سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔