نورین محمد سلیم
ایک سیکنڈ سوچیں کیا ایسا تو نہیں کہ آپ کے اردگرد خاندان میں ایسے بزرگ موجود ہیں جو کھانا کھا کر بھول جاتے ہیں۔ اکثر قریبی عزیزوں کے نام بھی بھول جاتے ہیں۔ ایک بات بار بار پوچھتے یا پھر اکثر خاموش رہتے ہیں۔
سوچیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کوئی چیز رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ عینک رکھ کر شور مچا دیا کہ میری عینک کدھر ہے۔ خاتون خانہ کچھ پیسے کسی جگہ رکھتی ہیں اور بھول جاتی ہیں اور گھر میں شور مچ جا
بالخصوص کسی گھر میں بزرگ خاتون اور مرد ہو اور اکثر اوقات وہ کوئی بات کہہ دیتے ہیں مگر پھر بھول جاتے ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں۔ کوئی چیز رکھتے ہیں پھر تلاش کے باوجود نہیں ملتی تو گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ ایسے واقعات ہر گھر میں تو نہیں مگر کئی گھروں میں ہوتے ہیں۔یہ کیا ہے؟
اس کو یاداشت کی کمی کہتے ہیں۔ یہ کمی عمر کے ساتھ بڑھتی ہے عموماً نوجوان اور جوان لوگ اس سے متاثر نہیں ہوتے ہیں مگر یہ موروثی ہے یعنی ماں باپ سے منتقل ہوسکتی ہے۔
یہ بڑھتا ہوا مرض جو بڑھتی عمر میں نہ صرف کسی کی بھی زندگی کو مشکل بنا سکتا ہے بلکہ اس سے پورا خاندان بھی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ جب عمر بڑھتی میں کمزور ہوتی یاداشت ڈیمنشیا کہلاتی ہے۔ اس سے کیسے بچا جاتا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ اس کے مریضوں کی تعداد کیوں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان سوالات سے پہلے دیکھتے ہیں کہ ڈیمنشیا ہے کیا؟
ڈیمنشیا دماغی خلیات کو نقصان پہچاتی ہے
ماہرین اور ڈاکٹروں کے مطابق ڈیمینشیا دماغی بیماری ہے۔ یہ انتہائی حساس خلیات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی وجہ سے یاداشت، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو نقصاں پہنچتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بات چیت اور شخصیت میں بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ یہ ایک دم نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اثر دکھاتی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ڈیمینشیا کے خطرے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بی بی سی سائنس فوکس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 5 کروڑ افراد اس میں مبتلا ہیں۔
ماہرین کے مطابق یاداشت کا چلے جانا، کم ہونا اس مرض کا سب سے عام پہلو ہے۔ رویوں، موڈ اور شخصیت میں تبدیلی پیدا ہوجانا۔ راستے یاد نہ رہنا اور جانے پہچانے راستوں پر گم ہو جانا۔ بات چیت کے دوران درست الفاظ کا چناؤ نہ کر پانا ، یہ بھی یاد نہ رہنا کہ کچھ کھایا پیا تھا کہ نہیں اور کچھ کھانا پینا بھی ہے کہ نہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈیمنیشنا کی تصدیق جلدی ممکن نہیں ہوتی، عموماً 60 سال سے اوپر کے لوگوں میں اس کی تشخیص آسان ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ بڑھی عمر کے ساتھ ڈیمنیشنا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ سب بڑی عمر کے لوگوں میں ہو۔
ڈیمنیشنا لاحق ہونے کی وجوہات
ماہرین تو متفق ہیں کہ دماغی خلیات کو نقصاں پہچنے کی وجہ اور بڑھتی عمر میں ڈیمنیشنا کا خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی علامات جلد ظاہر نہیں ہوتیں، ڈیمنیشنا کے شکار لوگوں کے دماغی خلیات کو بہت زیادہ نقصاں پہچنے کے بعد اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈیمینشیا کا تعلق طرز زندگی کے عوامل اور جینیاتی بھی ہے۔ یہ خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ غیر صحت مند سرگرمیاں اس کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں۔
منکی پاکس کے پھیلاؤ پر گلوبل ہیلتھ ایمرجنسی نافذ، پھیلاؤ کی ایک وجہ ہم جنس پرستی
لانسٹ پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سگریٹ یا تمباکو نوشی ، موٹاپا، ذیابیطس اس بیماری کی بڑی وجوہات ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ممکنہ طور پر 2050 میں 15 کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
ڈیمنیشنا کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟
بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک اس کا کوئی بھی مناسب علاج دستیاب نہیں تاہم علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کے تدارک کا بند و بست کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عادتیں ایسی ہیں جن کو چھوڑ کر ڈیمنیشنا سے بچا جاسکتا ہے جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
کچھ ادوایات جو کہ معالج تجویز کرسکتے ہیں دماغ کو فائدہ پہچاتی ہیں
ماہرین کے مطابق کچھ سرگرمیاں ایسی ہیں جن کے زریعے اس سے بچاؤ ممکن ہے، ان صحت مند سرگرمیوں میں دماغی کھیل کھیلنا جیسے کہ شطرنج، واک کرنا، کھیلوں میں حصہ لینا، ورزش کرنا، خود کو مثبت کاموں میں مشغول رکھنا یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو دماغی کارگردگی کو لمبے عرصے تک بہتر رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ جب یہ بیماری آخری مراحل میں داخل ہوجائے تو یہی سرگرمیاں نقصان کا باعث بنتی ہیں۔
کاجو 10جان لیوا بیماریوں کے خلاف قوت مزاحمت، حیرت انگیز فوائد
ماہرین کا خیال ہے کہ آج کے نوجوان اگر صحتمند سرگرمیاں اختیار کریں اور 2050 تک حیات رہے تو ممکنہ طور پر اس مرض سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن اگر خدا نا خواستہ اس میں مبتلا ہوئے تو پھر یاداشت کا کم ہونا یا ختم ہونا، بات کا یاد نہ رہنا یہ ایسے عوامل ہے جو زندگی کو بہت مشکل بنا سکتے ہیں۔
انتباہ! یہ رپورٹ مفاد عامہ کے لیے شائع کی گئی ہے۔ ہر مرض اور بیماری کے علاج کے لیے متعلقہ معالج سے رجوع کیا جائے اور ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔