نورین محمد سلیم
محکمہ وائلڈ لائف آزاد کشمیر میں وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اسلام آباد کے تعاون سے ایک مادہ تیندوے کو علاج معالجے کے بعد قدرتی آماجگاہ میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ مادہ تیندوا تقریبا ایک ماہ قبل آزاد کشمیر میں شکار کی تلاش کے دوران ایک درخت پر پھنس کر زخمی ہو گئی تھی۔
محکمہ وائلڈ لائف آزاد کشمیر کی مانیٹرنگ افسر شائستہ علی کے مطابق تیندوے کی دم زخمی ہوگئی تھی۔ جس کو وائلڈ لائف میجنمنٹ بورڈ اسلام آباد کے حوالے کیا گیا تھا جہاں اسے تقریبا 4 ہفتے علاج کے بعد اسے قدرتی آماجگاہ میں چھوڑا گیا ہے۔
قدرتی آماجگاہ میں کیوں چھوڑا گیا؟
شائستہ علی کے مطابق اکثر اوقات مخلتف واقعات کی وجہ سے کسی بھی جنگلی حیات یا تیندوے کی جان بچانے کے لیے اس کو پکڑا جاتا ہے۔ جنگلی حیات بہرحال جنگل کی باسی ہوتی ہے وہ کسی پنجرے میں اچھی زندگی نہیں گزار سکتی، اس حوالے سے وائلڈ لائف کشمیر اور پاکستان وائلڈ لائف طویل عرصے سے کوشش کر رہا تھا کہ جنگلی حیات یا تیندوے کو واپس اس کی آمجگاہ میں چھوڑا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ واقعات میں تو شاید ممکن نہیں ہو سکا مگر حالیہ واقعہ میں اس مادہ تیندوا کو اسلام آباد میں اچھا ماحول میسر آیا ہے۔ یہ کم عمر تیندوا ہے جو کہ علاج معالجے کے بعد بالکل ٹھیک ہوگئی تھی جس کے بعد سب ماہرین نے اس کی صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اس کو واپس قدرتی آماجگاہ میں چھوڑا جائے گا۔
شائستہ علی کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ جب اس کو قدرتی آماجگاہ میں چھوڑا گیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ تیزی سے دوڑتی ہوئی جنگل میں چلی گئی جہاں پر ممکنہ طور پر اب وہ اپنی قدرتی زندگی کا آغاز کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی ماحول کے لیے بھی بہت بہتر ہے۔ تیندوا ہمارے جنگل کے قدرتی نظام ایک جزو ہے۔ یہ اب وہاں پر پھلے پھولے گی۔
علاج معالجہ کیسا ہوا ہے؟
وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے کشمیر وائلڈ لائف کو خود اس کے علاج معالجے کی پیشکش کی تھی، یہ بہت اچھی آفر تھی جس کا فائدہ اٹھایا گیا۔ تیندوے کو خصوصی انتظامات کے بعد کشمیر سے اسلام آباد پہنچایا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے اسلام آباد میں اس کو قدرتی آماجگاہ جیسا ماحول فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ وہاں پر اس کی دیکھ بھال پر ماہرین کی پوری ٹیم تھی۔
شائستہ علی کا کہنا تھا کہ وہاں پر نہ صرف یہ کہ اس کا علاج کیا گیا بلکہ اس کو مناسب خوراک دی گئی اور اس کے رویے پر بھی نظر رکھی گئی تھی جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا ہے کہ صحتمند ہونے کے بعد اسے قدرتی ماحول میں چھوڑنا بہتر قدم ہے۔
گلگت بلتستان سیاحت کریں مگر جانوروں اور درختوں کو نقصاں نہ پہنچائیں
واضح رہے کہ اس تیندوا کے حوالے سے بی بی سی نے بتایا تھا کہ اس کو وائلڈ لائف کشمیر کے ایک اہلکار نے اپنی جان پر کھیل کر اس کو بچایا تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر کے علاقے پنجکوٹ چیڑ بن کے رہائشی محمد نسیم، قریبی جنگل میں کسی کام سے گئے تو وہاں پر انھیں ایک خوفناک مگر درد بھری آواز سنائی دی۔ وہ یہ آواز سن کر خوفزدہ ہوئے کیونکہ ان جنگلات میں تیندوے موجود ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میں سمجھا کہ میرے قریب ہی کہیں تیندوا موجود ہے اور میں اپنی جان بچانےکے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘
محمد نسیم نے بتایا کہ انھوں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو انھیں کچھ پتا نہیں چلا۔ ’چند سیکنڈ بعد میں جلدی سے وہاں سے نکلا اور کچھ دور چلنے کے بعد آبادی تک پہنچا۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو میں نے سارا واقعہ بتایا تو لوگوں نے کہا کہ کچھ اور لوگ جو جنگل میں لکڑیاں چننے جاتے ہیں انھوں نے بھی یہ آوازیں سنی ہیں۔‘
محمد نسیم بتاتے ہیں کہ ’اس کے اگلے روز بستی کے کچھ نوجوان اس مقام پر گئے تو انھوں نے ایک بلند درخت کی چوٹی پر تیندوے کو پھنسے دیکھا۔ پھر وہاں موجود لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس بارے میں ہمیں محمکہ جنگلی حیات کو آگاہ کرنا چاہیے۔‘
برفانی تیندوا: چار کھالوں کی قیمت تیس لاکھ جبکہ جُرمانہ صرف چار لاکھ
محمد نسیم کہتے ہیں کہ ’ہمارا خیال ہے کہ وہ کم از کم دو دن سے وہاں بھوکا پیاسا پھنسا ہوا تھا۔ جب وہ لوگوں کو دیکھتا تو بہت شور شروع کر دیتا تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اطلاع دینے پر محکمہ وائلڈ لائف والے موقع پر پہنچے اور محمد ادریس نعمان اعوان نامی ایک اہلکار نے درخت پر چڑھ کر تیندوے کو اتارنے میں مدد دی۔
بی بی سی نے اس ریسکیو آپریشن کے مرکزی کردار محمد ادریس نعمان سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ 300 فٹ کی بلندی پر پھنسے تیندوے کو اتارنے کی کارروائی کے وقت ان کے ذہن میں کیا خدشات تھے اور انھوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس جنگلی جانور کو کیسے بچایا۔
300 فٹ بلندی اور ہزار فٹ گہری کھائی
محمد ادریس نعمان اعوان اسی علاقے کے رہائشی ہیں اور مقامی چڑیا گھر میں بطور چوکیدار فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب ہمارے محکمے تک اطلاع پہنچی کہ تیندوا درخت پر پھنسا ہوا ہے تو ایک ریسکیو ٹیم بنائی گئی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب موقع پر پہنچے تو اندازہ ہوا کہ یہ تو بہت خطرناک جگہ ہے کیونکہ درخت تقریباً تین سو فٹ اونچا تھا اور جہاں درخت تھا وہاں نیچے کم از کم ایک ہزار فٹ گہری کھائی تھی۔ اگر کوئی اس درخت سے نیچے گر جاتا تو سیدھا گہری کھائی میں جاتا جہاں سے اس کی لاش نکالنا بھی ممکن نہیں تھا۔‘
محمد نعمان اعوان کا کہنا تھا کہ ’تیندوے کو مدد فراہم کرنے کا ایک ہی طریقہ نظر آرہا تھا کہ درخت کی چوٹی کا کچھ حصہ گرایا جائے اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی اوپر جا کر رسہ باندھ دے اور پھر نیچے سے سب مل کر اس کو آرام سے گرائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر تو تیندوا پھنسا ہوا تھا مگر جب یہ بات سامنے آئی کہ اس کے نزدیک جا کر رسہ باندھنا ہے تو ڈر لگا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے۔ اس وقت تک ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس کی دم بھی پھنسی ہوئی ہے۔‘
سب نے اوپر جانے سے منع کیا مگر تیندوا بھوکا پیاسا تھا
محمد ادریس نعمان بتاتے ہیں کہ ’جب درخت پر چڑھنے کی بات آئی تو کوئی تیار نہیں ہو رہا تھا اس لیے میں نے اپنا نام رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ درخت پر چڑھ کر تیندوے کو بچانے کے آپریشن کے لیے افسران کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا کہ حفاظتی اقدامات کیے جس میں انھیں رسی سے باندھا گیا تھا تاکہ اگر کچھ ہو تو انھیں مدد مل سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس سے پہلے کبھی درخت پر نہیں چڑھا تھا اور اتنے بلند درخت پر تو چڑھنے کا سوچا بھی نہیں تھا مگر پھر بھی تیار ہو گیا تھا کہ تیندوا بھی جاندار ہے اس کی جان بچانا بھی ضروری ہے۔‘
محمد ادریس نعمان کہتے ہیں ’ڈر تو لگ رہا تھا مگر سوچا کہ میرا رزق اس جنگلی حیات کی وجہ سے لگا ہے۔ یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اس کی جان بچانے کے لیے جو کر سکتا ہوں کروں۔‘
محمد ادریس نعمان کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا کیونکہ اگر انھیں بتاتا تو وہ مجھے کبھی بھی اوپر نہیں جانے دیتے۔ مجھے اس موقع پر لوگوں نے منع بھی کیا کہ میں فیلڈ ورکر تو نہیں ہوں اگر میں یہ کام نہ بھی کروں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سب کہہ رہے تھے کہ اگر تم تیندوے کے نزدیک گئے تو وہ حملہ کر دے گا۔‘
محمد ادریس کہتے ہیں ’میں نے کہا یہ تیندوا بھوکا پیاسا ہے۔ اگر اس کو مدد نہ ملی تو یہ اسی طرح بھوکا پیاسا مر جائے گا اور مجھے اس کی مدد کرنا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پتا نہیں کہاں سے اتنی ہمت اور طاقت آگئی تھی میں تھوڑی دیر میں اس سے پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر پہنچ گیا تھا۔‘
برگد کا درخت جس سے ‘جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے درخت’ کا اعزاز چھن گیا
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مجھے دیکھ کر وہ خوفناک آوازیں نکال رہا تھا۔ مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اپنے جبڑے کھول رہا تھا مگر وہ پھنسا ہوا تھا اور آزاد نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ پورا زور لگا رہا تھا۔ اتنی دیر میں، میں نے رسہ باندھا اور تیزی سے نیچے اتر آیا تھا۔‘
محمد ادریس نعمان اعوان بتاتے ہیں کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ رسا کھینچا گیا اور اس وقت کوشش کی گئی کہ تیندوا محفوظ رہے اور اسے چوٹ نہ لگے۔‘
’شکر ہے کہ ایسے ہی ہوا اور وہ جب درخت کے ساتھ نیچے گرا تو اسے کوئی چوٹ نہیں لگی بلکہ وہ درخت پر اسی طرح پھنسا ہوا تھا۔‘