جب اژدھے کو رہا کرنے کے لیے بوری کا منہ کھولا جاتا ہے تو اس وقت سامنے ہی کچھ لوگ اور ایک گاڑی کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ لوگ غالبا رہائی پانے والے اژدھا کی تصاویر اور ویڈیو بنا رہے ہیں۔ جب اژدھا جوش سے آگے بڑھتا ہے تو اس کودیکھنے والے خوف کا شکار ہوتے ہیں اور سامنے سے ہٹنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اژدھا ان لوگوں پر حملہ آور ہونے کے بجائے اپنا راستہ تبدیل کرتا ہے اور لمحوں ہی میں جنگل میں گم ہو جاتا ہے۔
یہ منظر اور ویڈیو تو ایک اژدھے کی ہے جس کو وائلڈ لائف اہلکاروں نے لوگوں کے ہاتھوں نہ صرف مرنے سے بچایا بلکہ اس کو اپنی آماہ جگاہ میں بھی چھوڑ دیا۔
مگر اژدھے کے ساتھ ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔ انہی دنوں جب ناروال میں اژدھے کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے تو کشمیر میں اژدھے کی ایک اور ویڈیو منظر پر آتی ہے جس میں بپھرے ہوئے لوگ اژدھے کو مار رہے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف کشمیر نے ویڈیو کی تصدیق کی اور بتایا کہ جن لوگوں نے اژدھے کو ہلاک کیا ان کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی ہے۔
گوجرانولہ وائلڈ لائف کے مطابق اژدھے کی آماجگاہیں کم ہو رہی ہیں جس وجہ سے اس کی تعداد پر فرق پڑا ہوگا جبکہ کشمیر وائلڈ لائف کے مطابق اس کی تعداد بڑھی ہے۔
اژدھا زہریلا نہیں ہے
وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ گوجرانولہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عاصم بشیر کا کہنا تھا کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ناروال کے سرحدی گاؤں بڑا بھائی میں ایک اژدھا دیکھا گیا ہے وہاں کے لوگوں میں اژدھے کو لے کر بہت زیادہ افراتفری مچی ہوئی ہے۔ یہ ایک اہم اطلاع تھی۔ ہمیں ڈر تھا کہ لوگ افرا تفری اور خوف کی بنا پر اس کو مار ہی نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ذھن میں رہے کہ اژدھا لمبا چوڑا ضرور ہوتا ہے۔ اس کی شباہت بھی سانپ سے ملتی جلتی ہے مگر یہ زہریلا نہیں ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کو ڈس کر نہیں مار سکتا یہ شکار بھی اپنی گرفت میں لے کر کرتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اس کی گرفت میں چلا جائے تو اپنے جسم کی مدد سے اس کو مضبوطی سے جکڑ سکتا ہے۔
عاصم بشیر کا کہنا تھا کہ اس طرح ایک اور بات بھی ذھن میں رہے کہ اژدھا بہت سست الوجود ہوتا ہے۔ اس کی رہائی کی ہماری بنائی ہوئی ویڈیو میں تو وہ بہت تیزی سے حرکت کر رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو رہائی ملی ہوتی ہے اور وہ بہت تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ کہیں دوبارہ قید نہ کرلیا جاوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے محکمے کے اہلکار جتنا جلدی ممکن ہوا بڑا بھائی پہنچ گئے۔ جہاں گاؤں کے اژدھے کو مارنے کیلئے تیار تھے۔ کافی لوگ اکھٹے تھے۔ ہم نے پہلے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور تسلی دی اور اس کے بعد اس کو اپنے قابو میں کر لیا جو کہ بالکل بھی مشکل نہیں تھا کیونکہ نہ تو یہ زہریلا ہے اور نہ ہی تیزی سے حرکت کرتا ہے۔ جس کے بعد پہلی فرصت میں سرحدی علاقے ہی میں واقع اسے اپنی آماجگاہ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
کشمیر کے ضلع میرپور کے وائڈ لائف کے اسٹنٹ ڈائریکٹر محمد ساجد کہتے ہیں کہ اژدھا اور انسانوں کے درمیاں تنازعات بڑھ چکے ہیں۔
انسان خوف کی بناء پر مارتے ہیں۔
عاصم بشیر کہتے ہیں کہ پنجاب میں اژدھا مٹی ٹیلوں والے علاقوں میں پایا جاتا ہے، اژدھے کو مارنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے۔ عوام عموما شعور کی کمی کی بنا پر اس کو مارتے ہیں جو کہ بہت بڑا نقصاں ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ عوام کو سمجھا سکیں، اگر وہ کہیں نظر آبھی جائے تو راستہ بدل لیں یہ انسانوں کو دیکھ کر دوبارہ اس جگہ پر نہیں آئے گا۔ مگر پھر بھی اس کو مارنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
محمد ساجد بھی عاصم بشیر کی بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اژدھے کو دیکھ کر لوگ خود خوفزدہ ہوتے ہیں اور پھر سارا خوف اژدھے پر نکلتا ہے۔ انسانوں کے مقابلے میں وہ اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ جس بنا پر عموما اژدھا ہی مارا جاتا ہے حلانکہ اژدھا انسان دشمن نہیں ہے۔
محمد ساجد بتاتے ہیں کہ اژدھے عموما مون سون کے سیزن میں باہر نکلتے ہیں۔ یہ ان کی بریڈنگ کا سیزن ہوتا ہے۔ اب جب آبادیاں بہت بڑھ چکی ہیں تو اس کے آبادیوں میں نظر آنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ پانچ سال پہلے تک ہمارے پاس میرپور میں اژدھے کے آبادی میں نکلنے اور پھر مارے جانے کے دو، تین واقعات ہوتے تھے۔ اب ہر سال دس سے بارہ واقعات ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان واقعات میں اضافے کی دوسری اہم وجہ ہمارے پاس میرپور وغیرہ میں اس کی تعداد میں اضافہ ہونا بھی ہے۔ ہم اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ اژدھا کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک مادہ ایک بریڈنگ سیزن میں تقریبا 100 انڈے دیتی ہے جب اس کو تحفظ ملے تو تعداد پر کافی فرق پڑا ہے۔
اژدھا کے مال مویشیوں پر حملے
محمد ساجد کہتے ہیں اژدھا عموما سردیوں میں اپنی آماجگاہوں میں دبک کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کو ایک بڑا اور اچھا شکار ملے تو یہ دوبارہ جلدی شکار تلاش نہیں کرتا۔ اس کے لیے ایک اچھا اور بڑا شکار کافی دنوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ یہ اپنے جسم سے بھی طاقت حاصل کرتا رہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارے پاس کشمیر میں ایسے واقعات کم تھے جس میں اژدھا مال مویشیوں پر حملے کرتا ہے۔ اب ایسے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اژدھا ایک اچھی خاصی پلی ہوئی بکری کو جکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ جب اژدھا لوگوں کے مال مویشی کا نقصاں کرتا ہے تو اس پر بھی انسان اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔
محمد ساجد کا کہنا تھا کہ انسان اس کو اپنے مال مویشی کے نقصاں کی وجہ سے بھی دیکھتے ہی مار دینا چاہ رہے ہوتے ہیں اس بات کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ کئی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہوں جو رپورٹ ہی نہ ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ قدرتی نظام کے اندر اژدھے کا بہت بڑا کردار ہے۔ یہ قدرتی فوڈ چین کا بہت اہم حصہ ہے۔ اس کی پسندیدہ خوراک بڑے اور جنگلی چوہے ہوتے ہیں۔ یہ ان کو شکار کر کے ان کی تعداد کو مناسب حد تک رکھتا ہے۔ اگر جنگل اور قدرتی نظام میں اژدھے کی تعداد کم ہوجائے تو پھر اس بات کا خطرہ ہے کہ انسان ان بڑے اور جنگلی چوہوں سے نقصاں اٹھا سکتا ہے۔ یہ چوہے ہمارے کھیت کھلیانوں کا صفایا کردیتے ہیں۔
محمد ساجد کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ یہ سور، بڑی جنگلی بلیوں وغیرہ کا بھی شکار کرتا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ یہ خود بھی کسی کا شکار ہے۔ اگر یہ پانی میں جائے تو اس کو مگر مچھ شکار کرتے ہیں۔ مگر ہمارے پانیوں میں مگرمچھ موجود نہیں ہے جبکہ جنگل میں یہ تیندوے کی خوراک کا حصہ بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں اس کا غیر قانونی کاروبار بھی عروج پر تھا۔
بے رحمانہ سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
محمد ساجد کہتے ہیں کہ چند سال پہلے تک اژدھے کا غیر قانونی کاروبار ہوتا تھا مگر اب اس پر سخت گرفت کی گئی ہے۔ جس وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہو رہے۔ اژدھے کو عموما چین، ہانگ کانگ میں سمگل کیا جاتا تھا۔ جہاں اس کا گوشت اشتعمال ہوتا ہے جبکہ اس کے اعضاء سے پاکستان، چین، انڈیا، نیپال وغیرہ میں مختلف قسم کی ادوایات بھی تیار کی جاتی ہیں۔
فہد ملک مشن ایویئرنیس فاونڈیشن (ایم اے ایف) کے بانی اور جنگلی حیات بالخصوص رینگنے والے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔
فہد ملک کہتے ہیں کہ اژدھے کی کھال کو فیشن انڈسڑی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی کھال سے مہنگے جوتے، پرس اور جیکٹس وغیرہ بھی تیار کی جاتی ہیں۔ اس کو شوقین لوگ پالتو کے طور پر رکھتے ہیں۔ فیشن انڈسڑی اس کو ملبوسات کے لیے ہی نہیں بلکہ فوٹو شوٹ وغیرہ کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔ اس کو دور دراز کے علاقوں میں ہونے والے میلوں ٹھیلوں اور سرکس میں بھی رکھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانونی طورپر اژدھے کی خرید و فروخت، پالتو کے طور پر رکھنا پورے ملک میں غیر قانونی ہے۔
فہد ملک کا کہنا تھا کہ اب تو لوگ ٹک ٹاک ویڈیو میں بھی اپنے فالوورز کی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہوتے ہیں جبکہ عام لوگ اس سے دڑتے ہیں جس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ تو بہت مسکین سا رینگنے والا جانور ہے۔ اس کو جب پکڑا جاتا تو یہ چند ہی دنوں میں مجبوری کے عالم میں تربیت یافتہ ہو جاتا ہے۔ زہریلا نہ ہونے کی بنا پر اسے پالتو رکھنے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے یہ ظلم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ میلوں ٹھیلوں، سرکس میں رکھے گے اژدھے کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کو خوراک دینے کے لیے ظالمانہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک بندہ اس کو پکڑتا ہے۔ دوسرا بندہ اس کا منہ کھولتا ہے اور تیسرا بندہ کسی ڈنڈے پر اوجھڑی وغیرہ لگا کر اس کے خلق سے نیچے کر دیتے ہیں۔
اس طرح اس کو انتہائی برے ماحول میں ایک ڈبے میں بند رکھا جاتا ہے۔ قدرت نے اسے آزاد پیدا کیا ہے۔ اس کا ٹھکانہ جنگلات ہیں۔ ڈبہ نہیں۔ پکڑے جانے والا اژدھا ایک ڈبے میں تکلیف دہ زندگی گزارتا ہے۔