نورین محمد سلیم
دنیا میں اس وقت اگر کوئی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو وہ خوراک ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں یہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک طرف کچھ لوگوں کے پاس ضائع کرنے کے لیے بہت خوراک ہے اور کچھ کے پاس بنیادی ضرورت کی خوراک بھی موجود نہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق مستقبل میں دنیا کے 45 ممالک میں 50 ملین سے زائد افراد کو قحط کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جبکہ آج 800 ملین سے بھی زیادہ لوگ رات کو کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں۔ جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے سال 2023 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے ایک ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم نظر ڈالیں کہ ہم اپنے ایک کروڑ دس لاکھ لوگوں کے لیے کیسے غذا کی قلت میں کمی یا خاتمہ کرسکتے ہیں پہلے دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہے کتنا سنگین۔
غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں گزشتہ سال 2023 میں خوراک کی قلت کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ کر 28 کروڑ 20 لاکھ ہوگئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال یہ تعداد ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد تھی جس میں خواتین اور بچے زیادہ تعداد میں شامل تھے جبکہ اس سال پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد اس سال زیادہ بڑھ چکی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پر 2016 سے 2023 تک لاکھوں لوگوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد ہر سال بڑ ھ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان، بنگلہ دیش، یمن، سوڈان، نائیجیریا اور میانمار بھی شامل ہیں جبکہ فلسطین میں یہ بحران انتہائی شدت اختیار کر چکا ہے۔
رپورٹ میں فلسطین کو بدترین بحران کا شکار قرار دیا گیا ہے۔
خوراک کے اس بحران کی بڑی وجہ دنیا کے مختلف خطوں میں جنگیں، کئی ممالک کی گرتی ہوئی معیشت اور معاشی عدم انصافہ ہے۔ مگر اس کے علاوہ اس کی بڑی وجوہات میں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا پہلے لانینا کے مسائل یعنی توقع اور اوسط سے زیادہ سرد موسم اور اب ایل نینو کا مشاہدہ کر رہی ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے عالمی غذائی تحفظ کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر کیری فاؤلر لانینا اور ایل نینو کو ان مسائل کا سبب قرار دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر فاؤلر کا کہنا ہے کہ ”اب ایل نینو کا دور ہے جو گرمی کا رجحان رکھتا ہے اور عام طور پر ٹراپیکل آب و ہوا رکھنے والے ممالک کو معتدل درجہ حرارت رکھنے والے ممالک سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ زراعت کے لیے معمول کے مطابق نہیں ہے۔
ڈاکٹرفاؤلر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ خوراک کے عدم تحفظ کا دوسرا بڑا محرک ہے جو خاص طور پر ولادیمیر پوٹن کے بحیرہ اسود کے اناج معاہدے سے دست بردار ہونے کے فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔
”روس کے اس حملے کے یوکرینی زراعت اور برآمدات کی کمی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں”؟ اس کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ ”یوکرینی اناج کے کلیدی 15 درآمد کنندگان میں سے متعدد ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جہاں بچوں میں نشوو نما کی کمی کی شرح بہت زیادہ ہے۔
کرہ ارض کے زیادہ تر ممالک خوراک درآمد کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ 196 میں سے 131 ممالک خوراک درآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ ”دنیا کے جنوبی خطوں میں واقع ممالک کو زرعی خوراک کے اپنے نظام کو تیار کرنے کے لیے واقعی ہماری مدد درکار ہے۔ انہیں خوراک کے تحفظ کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ زیادہ امید افزا امکانات میں سے ایک ایڈیپٹڈ کراپس اینڈ سوئیل پروگرام ہے جسے اقوام متحدہ اور افریقی یونین کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تعاون سے تشکیل دیا گیا ہے۔
ڈاکٹرفاؤلر نے کہا کہ ”ہم افریقی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان روایتی اور مقامی فصلوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جو افریقہ میں خوراک کی غذائیت میں اضافے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہم اس بات کا اندازہ لگا رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی والے افریقہ میں ان کی کارکردگی کیسی ہے جس کا ہم پہلے ہی جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ ان فصلوں کے لیے بہتری کے پروگرام میں افریقی ممالک کے ساتھ کام کرنے کی بنیاد فراہم کرے گا۔“
ڈاکٹر فاؤلر نے کہا کہ ”ہم خوراک کے عدم تحفظ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں ایک طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کر رہے ہیں۔ ہمیں بازاروں سے اناج اور خوراک ہٹانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ان ممالک میں خوراک کے تحفظ کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
1.3 ارب ٹن خوراک کا ضیاع
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ جن کو مناسب خوراک تک رسائی ہے وہ اس خوراک کو محفوظ رکھیں اور ضائع ہونے سے بچائیں۔ اس کے مختلف طریقے اختیار کیئے جاسکتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں ً ایک اعشاریہ تین ارب ٹن کے برابر خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ یہ ضائع ہونے والی خوراک کئی حق داروں کا حق مارتی ہے اور کئی لوگوں کو بھوکا پیسا سونے پر مجبور کردیتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سب سے پہلے تو والدین کو حساس ہونا ہوگا اور اپنے بچوں کو بچپن ہی سے بتانا ہوگا کہ ان کے پاس خوراک مناسب موجود ہے مگر دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے اور کئی بچے بھوکے سوتے ہیں۔ یہ سب سے پہلا نکتہ ہے اگر انسان حساس ہوجائے تو وہ یقینی طو رپر دوسروں کے بارے میں بھی سوچے گا۔
ماہرین کے مطابق ماں، باپ اور ہر ایک کو سمجھنا ہوگا کہ کھانا ضائع ہونے کا مطلب صرف کھانا ضائع ہونا نہیں بلکہ پیسے، پانی، توانائی،قدرتی وسائل ضائع ہونا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب اپ کھانا ضائع کرتے ہیں کسی نہ کسی کا حق مارتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ضائع کھانا جب کوڑا کرکٹ میں جاتا ہے تو یہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ ضائع شدہ کھانا میتھین گیس کا سبب بن کر ماحولیات پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
خوارک کیسے بچائی جاسکتی ہے؟
خوراک بچانے کا سب سے پہلا او ر اہم طریقہ تو محتاط اور حساس ہونا ہے۔ جب اپ اور اپ کے بچے محتاط اور حساس ہوگئیں تو پھر بہت سے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ مگراس کے لیئے کچھ طریقے اختیار کیئے جاسکتے ہیں۔
اپنی ضرورت کی اشیاء کی فہرست بنائیں۔ صرف وہ ہی اشیاء خریدیں جو ضروری ہوں اور دوبارہ خریداری سے پہلے، پہلے سے خریدی ہوئی اشیاء کو ختم کرئیں گے۔
اپنے تیار خوراک یعنی پکا پکایا کھانا اور کچی پکی اشیاء، سبزیاں، گوشت وغیرہ محفوظ رکھنے کا طریقہ سیکھیں۔ بہت سی اشیاء اس لیئے ضائع ہوجاتی ہیں کہ ان کو صیح طریقے سے محفوظ نہیں کیا جاتا ہے۔ تازہ سبزیاں اور پھل اس لیئے خراب ہوجاتی ہیں کہ رکھے رکھے گل سڑ جاتے ہیں۔
دیکھیں، لہسن، ٹماٹر، کھیرے، پیاز کو کبھی بھی فریج میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ ان اور کچھ اور اشیاء کو ہمیشہ کمرے کے مناسب درجہ حرارت میں رکھنا زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔
پتوں والی سبزیا جیسے کہ دھنیا، پودینہ جن کو جڑی بوٹیاں بھی کہا جاسکتا ہے ان کے تنوں کو پانی میں بھگو کر رکھنا زیاہد بہتر ہوتا ہے۔
جیسی بوٹیوں کو تنے تک پانی میں بھگو کر دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
اب پکی ہوئی روٹی اگر زیادہ ہوچکی ہے تو اس کو فریج میں نہیں بلکہ فریزر میں سٹور کریں۔
اب کچھ گھرانے بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں معمول میں زیادہ کھانا تیار کیا جاتا ہے اور کھانا بچ جاتا ہے تو یہاں پر والدین کا کردار شروع ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں اور ہفتے میں ایک یا دو دن مقرر کرلیں۔ ان دونوں میں صرف وہ ہی کھانا استعمال کیا جائے جو فریج میں پڑا ہے۔ وہ کھانا ختم کرکے تب نیا کھانا تیار کیا جائے۔
کون سا کھانا فریج اور فریزر میں رکھا جاسکتا ہے؟
خیال رکھیں کہ کھانا محفوظ کرنے کا سب سے اچھا طریقہ فریج اور فریزر ہے۔ ایسے کھانوں، سبزیوں کی فہرست کافی طویل ہے جن کو فریج اور فریز میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ کچھ ایسی سبزیاں ہیں جو کچھ دن بعد بھی سالاد میں استعمال ہوسکتی ہیں۔
دھنیے، پودینے کو زیتون کا تیل اور لہسن کے ساتھ فریزر میں برف بنانے والے خانے یا آئیس کیوب میں رکھا جاسکتا ہے۔ ان کو دوسرے کھانے میں بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بچے ہوئے کھانے کو چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں محفوظ کرئیں۔ ان کو ناشتے میں بچوں اور خود بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ناشتے کا خرچہ بھی بچ سکتا ہے۔
یار رکھیں خوراک کو بچانے کے بہت طریقے ہیں۔ بس تھوڑی سی کوشش اور ہمت نہ صرف یہ کہ اپ کے گھر کا خرچہ کم کردے گی بلکہ اپ ماحولیات کی بہتری، وسائل کو ضائع ہونے سے بچانے کے علاوہ حق دار اور خوراک کی قلت کا شکار لوگوں تک خوراک پہچانے کا زریعہ بن سکتی ہے۔