منگل, جون 24, 2025
ہومٹاپ اسٹوریجب پٹھان قیدی نے سیکنڈوں میں انگریز وائسرائے کو قتل کیا

جب پٹھان قیدی نے سیکنڈوں میں انگریز وائسرائے کو قتل کیا

محمد نوید خان

ہندوستان کے انتہائی طاقتور سمجھے جانے والے وائسرائے لارڈ میو انڈمان میں 1116 فٹ بلند ماوئنٹ ہیریئٹ کی سیر اور غروب آفتاب کا دلکش نظارہ کرنے کے بعد واپسی کے سفر کے لیے اپنی کشتی کے پاس پہنچے تو اسی لمحے پھانسی کے منتظر ایک قیدی نے ان پر چاقو سے پے در پے وار کر دیے۔

حملہ اس قدر اچانک اور پھرتی سے کیا گیا تھا کہ وائسرائے لارڈ میو اور اس کے ساتھ موجود سیکورٹی گارڈ اور عملے کی مداخلت سے پہلے ہی حملہ آور وائسرائے کو جان لیوا زخم لگا چکا تھا۔

حملہ کرنے والا قیدی پھانسی کی سزا کا منتظر شیر علی آفریدی آج کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر جو کہ سابقہ قبائیلی علاقے وادی تیراہ کا رہائشی تھا۔

دشمن کی سفارش پر تمغہ شجاعت پانے والے کیپٹن احسن ملک

شیر علی آفریدی کون تھے اور انھوں نے وائسرائے لارڈ میو پر حملہ کیوں کیا؟ یہ ساری کہانی اور حقائق جاننے کے لیے پاکستان سٹوریز نے ماضی کا ریکارڈ، کئی مورخین کی کتابوں کا جائزہ لیا، اس سے پہلے کہ انگریز افسر کو شدید زخمی کرنے والے شیرعلی آفریدی کے پیچھے کیا کہانی ہے ہم وائسرائے لارڈ میؤ کے بارے میں بتاتے ہیں۔

ہندوستان کے چوتھے وائسرائے

وائسرائے لارڈ میو ہندوستان کے چوتھے وائسرائے تھے جو اپنی زندگی کے خاتمے تک تقریبا تین سال تک ہندوستان کے وائسرائے رہے۔

لارڈ میو، تصویر گیٹی امیجز

وائسرائے لارڈ میو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سیر وسیاحت کے دلدادہ تھے۔ ایک دن میں گھوڑے پر 80 میل تک سفر کرتے تھے۔

صدر ایوب کو فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ ڈلوانے والا پاکستان کا رابن ہڈ

وائسرائے نے 1872 میں برنا اور جزائر انڈمان (کالا پانی) کا سفر کیا۔ اس سے پہلے انگریز سرکاری کے کسی بھی وائسرائے نے انڈمان کا دورہ نہیں کیا تھا۔

واضح رہے کہ جزائر انڈمان میں انگریز سرکاری خطرناک قیدیوں کو رکھتی تھی۔

اپنے دورے کے دوران انہوں نے پہلے جزیرے پھر چاتھم جزیرے کا دورہ کیا۔ وہاں پر قیدیوں کے حالات اور انتظامات دیکھے، چاتھم جزیزے سے وہ 1116 فٹ بلند ماؤنٹ ہیریئٹ کی سیر کو چلے گئے جہاں غروب افتاب کا نظارہ کیا اور واپسی کا سفر شروع کیا

چیتے کی سی پھرتی سے حملہ

خوبصورت نظارہ دیکھنے کے بعد وائسرائے لارڈ میو کو واپس لے جانے کے لیے جہاز تیار تھا۔ اس موقع پر ان کے ذاتی سیکرٹری
میجر اوون برن تھے اور انڈمان کے چیف کمشنر ڈونلڈ اسٹیورٹ کے علاوہ محافظوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

کلکتہ میں لارڈ میو کی آخری رسومات کا ایک منظر

اتنے میں جھاڑیوں میں چھپے شیر علی آفریدی انتہائی پھرتی سے وائسرائے لارڈ میو کی پیٹھ پر سوار ہوئے اور چاقو سے کندھوں کے درمیان دو مرتبہ وار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

میجر برن اس واقعہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ سارا کام 2 سیکنڈز کا ہوگا۔ قاتل کو فورا پکڑ لیا گیا ، وائسرائے لارڈ میؤ نیچے کو جھکے ہوئے تھے۔

ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد

وائسرائے لارڈ میو اوپر اٹھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے زیادہ چوٹ نہیں پہنچی ہے۔ یہ کہتے ہی وہ ایک بار پھر گر جاتے ہیں۔

موقع پر موجود لوگ ان کا خون روکنے اور حواس بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میجر برن لکھتے ہیں کہ وائسرائے لارڈ میو نے کہا کہ مجھے جہاز پر لے جاؤ۔ مگر اسے پہلے جہاز کی ساری لائٹس احتیاطاً بند کر دی جاتی ہیں مگر وائسرائے تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہوجاتے ہیں اور صبح کے وقت برطانوی پرچم سرنگوں کر دیا جاتا ہے۔

خدا نے حکم دیا تھا

شیر علی آفریدی کو سخت پہرے میں رکھا جاتا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ کے دوران وجہ پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا تو جواب ملتا ہے کہ یہ خدا کا حکم تھا۔ کسی شریک جرم کے بارے میں شیر علی آفریدی کہتے ہیں کہ وہ اکیلے تھے اور انھوں نے اکیلے ہی ساری واردات کی۔

شیر علی آفریدی اپنی گرفتاری سے پہلے پولیس میں گھڑ سواری کی ملازمت کرتے تھے۔ خاندانی دشمنی کی بناء پر انھوں نے قتل کیا تھا۔ جس پر انھیں پھانسی کی سزا ہوئی بعد میں اپیل پر ان کی سزا عمر قید میں تبدیل کر کے جزائر انڈمان بھج دیا گیا تھا۔

شیر علی آفریدی کو وائسرائے لارڈ میؤ کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ اپنی سزا سے پہلے انھوں نے بیان دیا تھا کہ خاندانی دشمن کو قتل کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ جب انھیں سزا سنائی گئی تو انھوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہر صورت میں کسی بڑے انگریز عہدیدار کو قتل کر کے اپنا انتقام لیں گے۔

بعد میں پھانسی سے پہلے اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ ان کے خاندانی دشمن کو قتل کرنا ان کی نظر میں کوئی جرم نہیں ہے اور چونکہ انھیں 1869 میں سزا سنائی گئی تھی اس لیے انھوں نے اسی وقت یہ قسم کھائی تھی کہ وہ اس کا بدلہ کسی بڑے انگریز عہدیدار کو قتل کر کے لیں گے۔

دن رات قتل کی منصوبہ بندی کرتے رہے

شیر علی آفریدی نے انڈمان میں قید کے تین سال گزارے تھے اور ان تین سالوں میں وہ یہی منصوبہ بندی کرتے رہے کہ کس کو اور کب قتل کرنا ہے۔

کیا انقلابی بھگت سنگھ عشق میں مبتلا تھے؟

جب انھوں نے لارڈ میو کی انڈمان آمد کی خبر سنی تو انھیں لگا کہ یہی موقع ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے لیے انھوں نے ہر ایک چیز پر دوبارہ غور کیا اور اپنا آلہ قتل بھی تیز کر کے رکھ دیا۔

ایک آسڑیلین پروفیسر ہیلن جیمز نے اس واقعہ پر تحقیقات کیں اور بہت سا مواد اکھٹا کیا، وہ لکھتی ہیں کہ شیر علی آفریدی کے ساتھ قید میں موجود لوگوں سے بھی پوچھ کچھ ہوئی مگر کسی کو بھی شیر علی کے منصوبے کا علم نہیں تھا۔ واردات سے قبل انھوں نے عجیب سے انداز میں اپنے تمام ساتھیوں کو الوداع کہہ دیا تھا۔

پروفسیر لکھتی ہیں کہ انھوں نے شیر علی آفریدی کے کھانے پینے کے لیے خصوصی اشیاء بنائیں اور اپنی ساری جمع پونجی خرچ کردی تھی۔

شیر علی آفریدی جب سرکاری خدمات انجام دیتے تھے تو ان کو بہادری پر ایک گھوڑااور پستول انعام میں دیا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین