محمد نوید خان
پاک فوج کے کیپٹن کرنل شیر خان نشان حیدر کارگل کے محاذ پر اس جگرے سے لڑے کہ انڈیا نے بھی ان کو بہادری کا اعزاز دینے کی سفارش کی تھی مگر بہادری کا یہ اعتراف دشمن کی جانب سے پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل 1971 میں بنگلہ دیش کے میدان جنگ میں بھی دشمن نے کیپٹن احسن ملک کو بہادری کا تمغہ دینے کی سفارش کی تھی۔
یہ منظر نامہ اور واقعات 1971 کے ہیں۔ ابھی بنگلہ دیش میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان اعلانیہ جنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا مگر بنگلہ دیش میں حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے۔ انڈیا فیصلہ کرچکا تھا اس کو مختلف اطراف سے حملہ کرنا ہے جس کے لیے وہ اپنی فوجیں روانہ کرچکا تھا۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ انڈیا کے آسام کی جانب سے ڈھاکا کی طرف رواں دواں تھے۔ انھیں بھی بظاہر لگ رہا ہوگا کہ ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی ایک چھوٹی سی چوکی کمال پور اور یہاں پر پیش آنے والے جنگی واقعات مستقبل کی جنگی تاریخ اور فوجیوں کو تربیت کے لیے پڑھائے گئے۔
فوج کا نظام عدل حرکت میں، ٹاپ سٹی تنازع میں اہم شخصیات کے نام شامل
پاکستان سٹوریز نے ان تمام تر حالات و واقعات کو پاکستان اور انڈیا کی مختلف مستند کتابوں اور تاریخی حوالوں سے اکھٹا کر کے پیش کررہا ہے۔
ڈھاکا کے راستے میں آہنی دیوار
بریگیڈیر ہردیو سنگھ کی پہلی مہم کمال پور تھی۔ اگر وہ کمال پور کو جلد فتح کرلیتے تو شاہد بہت جلد ڈھاکا پہنچ جاتے، اس وقت کمال پور چوکی پر نوجوان کیپٹن احسن ملک کے پاس صرف تین مارٹر گولے ، ناکافی اسلحہ اور صرف 70 سپاہیوں کے علاوہ نیم فوجی دستے رینجرز اور اس وقت پاکستان فوج کی حمایت میں کھڑی ہونی والی رضاکار تنظیم البدر کے چند نوجوانوں کا ساتھ تھا۔
ایسے میں کمال پور کی چھوٹی سی سرحدی چوکی پر قبضہ کرنا بظاہر گھنٹوں کا کام تھا جہاں نوجوان پاکستانی فوجی افسر صرف 70 سپاہیوں اور رضاکاروں کے ساتھ دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے میں جتے ہوئے تھے، بظاہر بریگیڈیئر ہردیو کے لیے یہ چوکی ترنوالہ ثابت ہونے والی تھی جہاں ایک پورے بریگیڈ اور انڈین فضائیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیپٹن احسن ملک کے پاس صرف تین مارٹر تھے۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کمال پور پر قبضہ کر لیتے تو ڈھاکہ تک رسائی ان کے لیے آسان ہو جاتی۔ کیپٹن احسن ملک اور بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کا یہ مقابلہ اس لیے بھی عسکری اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ یہ باقاعدہ جنگ سے کئی ہفتوں قبل ہی شروع ہو گیا تھا جس کے اختتام تک نوجوان پاکستانی فوجی افسر کے دلیرانہ دفاع نے انڈین فوج کے سربراہ کو بھی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔
صدر ایوب کو فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ ڈلوانے والا پاکستان کا رابن ہڈ
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کمال پور کو فتح کرنے کے لیے باضابطہ جنگ سے قبل ہی نومبر کے درمیانی دنوں میں آگے بڑھ رہے تھے۔
کرنل احسن ملک اس بارے میں میگزین ہلال میں بتاتے ہیں کہ ہم لوگ پیڑولنگ پر تھے کہ ہم پر حملہ ہوا۔ اسی وقت ہمیں احساس ہوگیا کہ انڈین فوج جس نے اکتوبر میں بھی اس چوکی پر ایک ناکام حملہ کیا تھا نے اس بار کمال پور میں پاکستان کی چوکی کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
احسن ملک نے پاکستان فوج کے میگزین ہلال میں اس بارے میں لکھا کہ 15 نومبر کو جب ان کے چند فوجی پٹرولنگ کی غرض سے نکلے تو ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ احسن ملک کو احساس ہوا کہ چوکی پر قبضہ کرنے کی ابتدائی کوشش میں ناکامی کے بعد انڈین فوج نے ان کی چوکی کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
انڈین فوج ابتدائی ناکام حملے کے بعد اب زیادہ جارحانہ حکت عملی کے ساتھ آئی تھی۔
انڈیا میں چھپنے والی کتاب ’انڈیاز وارز سنس انڈیپینڈنس میں بتایا گیا ہے کہ بریگیڈیئر ہردیو سنگھ نے دو بٹالین فوج کی مدد سے کمال پور کی چوکی کو مکمل گھیرے میں لے لیا تھا۔
بظاہر اس محاصرے کا مقصد پاکستانی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا اور ہر قسم کی کمک کا راستہ روکنا تھا۔
کرنل احسن ملک نے اپنی چوکی کا دفاع مضبوط کرنے کے لیے قدیم تیکنیک استعمال کرتے ہوئے خندقیں کھود لی تھیں۔ نوکیلے بانسوں کی مدد سے باڑ بنا کر بارودی سرنگیں اور اینٹی ٹینک مواد نصب کر دیا تھا۔
انڈیا شدید بمباری کررہا تھا مگر اس کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی تھی، جی دار کرنل احسن ملک اور ان کے ساتھی ڈٹے ہوئے تھے۔ محاصرہ طویل تو ہو نہیں سکتا تھا جس پر انڈیا کی فوج نے 21 نومبر کو براہ راست حملہ کر دیا مگر ان کو بھاری جانی و مالی نقصاں اٹھانا پڑا۔
ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد
کیپٹن احسن ملک کے مطابق اگلی صبح انھوں نے چوکی کے آس پاس 28 لاشیں گنیں جن میں سے ایک کپتان بھی تھا، ان لاشوں کو فوراً دفنا دیا کہ ان کی وجہ سے تعفن نہ پھیل جائے۔
شدید بمباری کے باوجود دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے کیپٹن احسن ملک اور ان کے جوان ’نفسیاتی دباؤ‘ کا شکار نہ ہوئے تو 21 نومبر کو انڈین فوج نے بھرپور حملہ کیا۔ اس بار انڈین فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ دیر بعد ایک دوسرا حملہ بھی اسی طرح ناکام ہوا۔
کیپٹن احسن ملک اور ان کے جوان تاریخ رقم کررہے تھے۔ حملے ناکام ہورہے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ صورتحال اچھی نہیں۔
چاروں طرف سے گھیرے میں
کیپٹن احسن ملک کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ 31 بلوچ کے کمانڈنگ افسر لیفٹینینٹ کرنل سلطان نے کسی طرح کمک پہچانے کی کوشش کی مگر وہ انڈین فوج کا محاصر توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اب تک کیپٹن احسن ملک نے اپنی چوکی پر قبضہ ہونے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا لیکن وہ چاروں طرف سے مکمل طور پر گھر چکے تھے۔
انڈیا کی فوج نے 27 نومبر کو دوبارہ کوشش مگر کامیاب نہیں ہوئے۔
کمال پور تک کمک پہنچانے کی کوششوں کے تناظر میں بریگیڈیر ہردیو نے 27 نومبر کی رات ایک بار پھر چوکی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی۔
کمال پور کے اس واقعہ کی خبریں اس وقت امریکی اخبارات میں بھی چھپی تھیں۔
ہوا یوں کہ کیپٹن احسن نے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی سے کمک پہچانے کی درخواست کی تھی۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ امریکی صحافی ڈین سدرلینڈ بھی تھے۔ لیفٹینینٹ جنرل نیازی نے ساری صورتحال امریکی صحافی کو بتائی کہ کمال پور کے پاس انڈین فوجیوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔
امریکی صحافی نے لاشیں دیکھنے کیلئے شدت سے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ورنہ وہ پاکستان کے اس دعوی کو جھٹلا دے گا۔ اس وقت بین الاقوامی میڈیا پر مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت ہی منفی خبریں چل رہی تھیں۔
کیپٹن احسن ملک کو کمک تو پہچانا ہی تھی۔ میجر کمک پہنچانے نکلے، ان کے ہمراہ امریکی صحافی سدرلینڈ بھی تھا۔
ابھی پاکستانی فوج اور امریکی صحافی کمال پور سے کچھ فاصلے پر تھے کہ انڈیا کی فوج اور مکتی باہنی نے قافلے پر حملہ کردیا۔ میجر ایوب واپس اپنی چوکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن سدرلینڈ لاپتا ہوگیا تھا جس کو صبح تلاش کیا گیا۔
کمال پور میں انڈیا کا مزید نقصان
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ سے مسلسل دہلی سوال کر رہا تھا کہ اتنی بڑی قوت کے باوجود چوکی پر قبضہ کیوں نہیں ہورہا۔ 30نومبر کو دوبارہ چوکی پر بہت بڑی قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا مگر اس مرتبہ کیپٹن احسن کسی اور ہی موڈ میں تھے۔
پاک فوج کا جانباز ہر لمحہ اپنی حکمت عملی تبدیل کررہا تھا۔ انھوں نے انڈیا کی فوج کو چوکی کے قریب آنے دیا، معمولی فائرنگ جاری رکھی مگر موقع دیا کہ انڈیا کی فوج آگے بڑھتی رہے، جب انڈیا کی فوج ان کی مکمل فائرنگ رینج میں آئی تو کرنل احسن ملک اور سپاہیوں نے ایسا ہلہ بولا کہ انڈین فوج کو 20 لاشیں چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا۔
اس واقعہ کے متعلق انڈیاز وارز سنس انڈیپینڈنس کے مصنف میجر جنرل سکھونت سنگھ بتاتے ہیں کہ پاکستانی چوکی سے مارٹر گن سے حملہ کیا گیا اور 4 فوجیوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے تھے جس کے بعد وہ پسپا ہوئے۔ اس حملے کے بعد کمانڈنگ افسر کو تبدیل کر دیا گیا۔ اب بریگیڈیئر ہردیو کی صلاحیت پر سوال اٹھنا شروع ہو چکے تھے۔
کرنل احسن ملک اور ان کے ساتھیوں کی بہادری، حکمت عملی اپنی جگہ مگر کمک نہیں پہنچ رہی تھی۔
زخمیوں کو طبی امداد بھی نہیں مل رہی تھی۔
کرنل احسن ملک اپنا اسلحہ اور خوراک کا ذخیرہ بچانے کی کوشش تو کر رہے تھے مگر صورتحال یہ تھی کہ فوج کے علاوہ البدر کے رضا کار بھی زخمی تھے۔ اس چوکی پر پاکستانی فوجیوں کو صرف ایک نرسنگ سٹاف کی خدمات حاصل تھیں جو صرف درد کش دوا اور مرہم پٹی ہی کرسکتا تھا۔
اس دور میں پاک فوج کے شعبہ آئی ایس پی آر سے منسلک بریگیڈیر صدیق سالک اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے ہر سپائی کے پاس صرف فی بندوق 75 گولیاں، لائٹ مشین گن کے 200 راؤنڈ اور 22 مارٹر گولے باقی بچے تھے۔
چار دسمبر کو دونوں ممالک کے درمیاں باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ انڈیا توقع کررہا تھا کہ وہ جلد ہی ڈھاکا پہنچ جائے گا مگر کمال پور لوہے کا چنا بنا ہوا تھا۔ ایسے میں کمال پور کے اوپر دو ہیلی کاپیٹر نمودار ہوتے ہیں۔ پاکستانی سپاہی سمجھے کہ مدد پہنچ گئی ہے مگر یہ انڈیا کے ہیلی کاپیٹر تھے جو چوکی کا جائزہ لے رہے تھے۔
انڈیا کی فوج بھی سمجھ چکی تھی کہ کملک نہ ملنے کی وجہ سے پاکستانی چوکی پر خوراک اور اسلحے کا ذخیرہ کم ہوچکا ہے۔
ہتھیار ڈالنے کی پیش کش پر گولیوں کی بوچھاڑ
اب انڈیا کی فوج نے ایک نئی چال چلی اور انھوں نے پاکستانی چوکی کو صلح اور ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھیجا۔ انڈیا کی طرف سے بھیجا جانے والا پیغام مختلف میڈیا اور کتابوں میں رپورٹ ہوا ہے۔
اس پیغام میں کہا گیا کہ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ کمک نہیں مل سکتی۔ صرف جانی نقصان سے بچنے کے لیے ہتھیار ڈالنے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔
اس پیغام کا جواب جی دار کیپٹن احسن ملک نے انڈین فوج پر حملہ کرکے دیا جس کے بعد چوکی پر فضائی حملہ کیا گیا۔
اس حملے کے بعد دوبارہ ہتھیار ڈالنے کا پیغام بھجا گیا۔
پیغام میں کہا گیا کہ پہلے پیغام پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہ آخری پیغام ہے۔ اگر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرلیں تو وہی عزت ملے گی جو بہادر دشمن کو دی جاتی ہے۔
اس پیغام کا جواب بھی فائرنگ کرکے دیا گیا تھا۔ یعنی کیپٹن احسن ملک اور ان کے ساتھی فیصلہ کرچکے تھے۔
انڈیا پیش قدمی کر رہا تھا کمک کی کوئی امید نہیں تھی
کیپٹن احسن ملک کے پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔ لڑائی کو 21 دن ہوچکے تھے۔ وہ 21 دنوں تک خود سے کئی گنا بڑی قوت کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اسلحہ اور خوراک ختم ہو رہی تھی۔ شاید ایک یا دو دن کی باقی تھی۔ محاصرہ توڑ کر نکلنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو رہی تھی، جیسے ہی وہ چوکی سے باہر نکلتے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی۔
انڈیا کی فوج اب کمال پور سے چند کلو میٹر دور کمانڈنگ ہیڈ کوارٹر بخشی پل پر بھی حملہ کر چکی تھی جس کے باعث پاکستان فوج وہاں پر بھی مصروف تھی۔
ایسے میں انڈیا تیسرا فضائی حملہ کرتا ہے اور آخری پیغام دیتا ہے کہ بس بہت ہوچکا۔ بہتر ہوگا کہ پیغام رساں کے ہمراہ آئیں۔ اپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر ایک بار پھر چوکی سے فائرنگ ہوتی ہے لیکن یہ فائرنگ کمال پور میں پاکستانی فوجیوں کی جانب سے آخری فائرنگ تھی۔
انڈیا نے شام کو فضایہ کی مدد سے بڑا حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اور اسی شام 7 بجے کیپٹن احسن ملک اپنی چوکی سے سفید جھنڈا اٹھائے باہر نکلے۔
سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’لیکن اس تیسرے پیغام کے جواب میں بھی ایک بار پھر چوکی کے بنکرز سے گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی جس نے انڈین فوجی سربراہ کو غصہ دلا دیا اور انھوں نے رات کے وقت چوکی پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
کیپٹن احسن نے لکھا تھا کہ اسلحہ اور خوراک ختم ہوچکا تھا۔ انڈیا کی فوج کو جواب دینے کے لیے گولیاں بھی نہیں تھیں۔ 21دن تک بغیر کمک ملے لڑتے رہے مگر اس کے باوجود ہتھیار ڈالنا اپنا فیصلہ نہیں بلکہ کمانڈر کا حکم تھا۔
جنرل سیم مانیکشا کا کیپٹن احسن ملک کی بہادری کا اعتراف
جنرل سکھونت سنگھ اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ کیپٹن احسن ملک نے صرف 140 کی نفری کے ہمراہ پورے بریگیڈ کو روکے رکھا تھا۔ اس کے پاس خوراک اور اسلحہ بھی نہیں تھا۔ جنرل مانیکشا کی طرف سے کمال پور کا دفاع کرنے والے پاکستانی فوجیوں سے بہتر سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
کیپٹن احسن ملک نے لکھا تھا کہ بریگیڈیر ہردیو سنگھ بھی مجھ سے ملنا چاہتے تھے۔ مجھے لے کر وہ چوکی پہنچے اور جب چوکی کا دفاعی نظام دیکھا تو حیران رہ گئے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ ہمارے باقی سپاہی کہاں ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہمارے پاس صرف 60 فوجی ہیں جن میں 9 زخمی ہو چکے۔ نیم فوجی دستے کے سپاہی اور چند غیر تربیت یافتہ رضا کار تھے۔
کیپٹن احسن ملک کے مطابق انڈیا کی فوج کے تمام افسران حیران رہ گئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک کمپنی تو موجود ہوگی۔ وہ ہمارے بنکرز دیکھنا چاہتے تھے مگر انھوں نے ہمیں پہلے بنکرز کے اندر جانے کا کہا کیونکہ وہ بارودی سرنگوں سے ڈرے ہوئے تھے۔
کیپٹن احسن ملک کی بہادری کئی سالوں بعد انڈیا کی فوج کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا کو یاد رہی اور وہ مختلف انڑویوز اور اپنے مضامین میں ان کی تعریف کرتے رہے۔ انڈیا کے مشہور صحافی کرن تھاپر کے ساتھ جنرل سیم مانیکشا کا خصوصی تعلق رہا تھا اور کرن تھاپر کئی سال تک اس جنگ پر تحقیق کرتے رہے اور لکھتے رہے تھے۔
ایسے ہی ایک انڑویو میں جنرل سیم مانیکشا نے کیپٹن احسن ملک کے بارے میں کہا کہ کیپٹن ملک بہت بہادری سے لڑا۔ میں نے اس کو اس کی اس بہادری پر خصوصی خط لکھا اور پاکستانی فوج کے سربراہ سے کہا کہ کیپٹن احسن ملک کو بہادری کا تمغہ ملنا چاہیے۔