سپریم کورٹ آف پاکستان نے مذہبی جماعتوں کے احتجاج اور تنازع کے بعد حکومت کی اضافی نظرِ ثانی کی درخواست پر مبارک ثانی کیس میں علماء کی معاونت کے بعد متنازع پیرا گراف حذف کر دیے۔
متنازع مبارک ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، اس موقع پر ترکیہ میں موجود مفتی تقی عثمانی ویڈیو لنک جب کہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر علماء بذات خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
مبارک ثانی کیس کا تحریری حکمنامہ
رپورٹس کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران ملزم مبارک احمد ثانی کا کوئی بھی وکیل عدالت میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی احمدی کمیونٹی کا کوئی فرد یا ملزم کا کوئی رشتے دار کمرۂ عدالت میں موجود ہے۔
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی کے فیصلہ پر پارلیمنٹ اور علمائے کرام نے رابطہ کر کے کہا کہ وفاقی حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئیں تھی، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہو سکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں، چونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علمائے کرام کو سن لیا جائے۔
ہر نماز میں دعا کرتا ہوں اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انسان اپنے قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر، ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، آپ کا شکریہ کہ آپ ہمیں موقع دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس کی علماء سے مبارک ثانی کیس کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی درخواست کی۔
اس موقع پر ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے والے مفتی تقی عثمانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے فیصلے کے پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی۔
اس پر چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا تو مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ سیکشن کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں، قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم نہیں تسلیم کرتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے، عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہے ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں، میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہوں۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے چیف جسٹس سے فیصلے کے 2 پیراگراف 7 اور 42 حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ کو وقت دیتے، آپ نے فیصلہ کے پیراگراف سات میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا، تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔
آپ سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں، ہمارا بھی جمع کا صیغہ اگنور کر دیں
مفتی تقی عثمانی کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبارک ثانی کیس پر عدالت کی کئی نشستیں ہوئی ہیں اور اب نظرثانی کا معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ یہ نظرثانی نہیں، اس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ نظر ثالث ہے، علمائے کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کی آرا سامنے آ چکی ہیں، آپ کے فیصلوں کے خلاف یہ آرا آئیں ہیں، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کوئی اور بھی فیصلہ تھا جو آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا؟۔
چیف جسٹس کے استفسار پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں، ہمارا بھی جمع کا صیغہ اگنور کر دیں، میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوں، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہم اتنے برے نہیں ہیں’۔
مولانا فضل الرحمن نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ قادیانی پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم کہتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کہتا تھا جو اس پر ایمان نہ لائے وہ غیر مسلم ہے، یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم کہتے ہیں لیکن جو وہ کہتے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی، قادیانی مرتد ہیں تو ہم نے انہیں غیر مسلم کا نام کیوں دیا یہ سوال بھی ہے؟ ہم پاکستان میں غیر مسلوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آپ مبارک ثانی کو ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اس کے توہین آمیز اقدامات پر ساری دفعات لگیں گی، مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو مدنظر رکھا جائے۔
عدالت میں احتجاج
کمرہ عدالت میں چند علماء نے احتجاج شروع کیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ خاموش ہو جائیں۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب! آپ بڑے ہیں انھیں سمجھائیں، مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا کہ آپ کی عدالت ہے آپ کا حکم چلے گا، آپ اس کیس کو کسی نتیجے تک پہنچائیں۔
کیس میں سماعت کےدوران مفتی حنیف قریشی روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے لوگوں کی دل آزاری کی ہے اور یہاں آپ بولنے بھی نہیں دے رہے۔ آپ یہاں لوگوں کو ڈانٹتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہیں کون؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’میں حنیف قریشی ایک مسلمان ہوں۔‘‘
وقفے کے بعد مفتی طیب قریشی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پہلے جن علمائے کرام نے رائے دی ہے ان سے متفق ہوں، قادیانیوں نے اپنی تفسیر صغیر مسلمانوں کی طرز پر ترتیب دی ہے، کوئی عام مسلمان اپنی اور قادیانیوں کی تفسیر میں فرق نہیں کر سکتا، عدالت سے دست بستہ استدعا کر رہا ہوں مسلمان مضطرب ہیں، انہیں تسلی دیں ، علمائے کرام کی تجاویز پر عمل کیا جائے۔
قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے
اس موقع پر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ نے کہا کہ قادیانی خود کو غیر مسلم نہیں مانتے اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا جرم ہے، قادیانی چاہے تشہیر چاردیواری میں کریں یا باہر جرم ہے، قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے، قادیانیوں کو اپنے عقائد کو مسلمانوں کی طرح کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے۔
فرید پراچہ نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کیس کا معاملہ نہیں بلکہ سو سالہ جہدوجہد اور تاریخ کا معاملہ ہے، عدالتی فیصلے کے پیرا 7 پر ہمیں اعتراض ہے۔ فیصلے کے پیرا 37،38،39،40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیں۔
دوران سماعت سینئر وکیل لطیف کھوسہ بھی پیش ہوئے ، انہوں نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں اراکین پارلیمنٹ کے طور پر سنا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کھوسہ صاحب! پارلیمنٹ بہت با اختیار ہے، پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ختم کرسکتی ہے، آپ توپارلیمنٹ سے فیصلہ ختم بھی کراسکتےہیں۔
مذہبی اسکالر عطا الرحمان نے کہا کہ قادیانی آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے، آج بھی وہ تفسیر صغیر کی تشہیر کررہے ہیں، اس ہر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفسیر صغیر کی تشہیر پر تو ایف آئی آر کاٹی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق دو صورتوں میں ملیں گے؟ قادیانی خود کو غیر مسلم تصور کریں یا پھر ختم نبوت کو مان لیں۔
عدالت پیرا گراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ تحریر کرے
مذہبی رہنما پروفیسر ساجد میر کے نمائندے حافظ احسان کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور مطالبہ کیا کہ عدالت پیرا گراف حذف کرنے کے بجائے نیا فیصلہ تحریر کرے، کوئی پیراگراف رہ گیا تو مزید ابہام پیدا ہوگا، عدالت مبارک ثانی کیس میں اصلاح اپنے ابتدائی فیصلے سے شروع کرے۔
اس پر مولانا فضل الرحمان نے روسٹم پر آ کر احسان کھوکھر کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ عدالت مبارک ثانی کیس میں دونوں فیصلے کالعدم قرار دے، نہیں چاہتے کہ عدالت کے فیصلے میں ابہام کا کوئی فائدہ اٹھائے، سب ہی علماء اس تجویز سے متفق ہوں گے۔
مبارک ثانی کیس میں کب کیا ہوا؟
سات مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی۔
اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں ’کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو‘ تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔
298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔
اس کے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔
البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔
البتہ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔
اس فیصلے کو مذہبی طبقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مہم چلائی گئی۔
پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے منظور کرتے ہوئے نظرِ ثانی درخواست نمبر دو منظور کر لی جب کہ تین اور چار مسترد کر دیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اس نے 2019 میں تفسیر تقسیم کی جو پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا، اس کا اطلاق 2019 کے واقعات پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک بھی پہنچا۔
کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
اس کے بعد 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دی۔