منگل, جون 24, 2025
ہومٹاپ اسٹوری100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال جس نے 100 ماؤں کو رُلانے...

100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال جس نے 100 ماؤں کو رُلانے کا عہد کیا تھا

قلندر تنولی

انتباہ: اس تحقیقاتی فیچر رپورٹ میں تمام واقعات حقائق پر مبنی ہیں اور اس میں پُرتشدد واقعات کی تفصیلات موجود ہیں جو حساس لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

‘جاوید اقبال 100بچوں کا قاتل ہے۔ اسے مینار پاکستان لے جایا جائے اور مقتول بچوں کے والدین کے سامنے مجرم کے 100 ٹکڑے کیے جائیں اور یہ 100 ٹکڑے تیزاب میں ڈال کر تحلیل کیے جائیں بالکل اسی طرح جیسے مجرم نے 100 بچوں کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا’۔

جاوید اقبال اور اس کے ساتھی ساجد کو یہ سزا 100 بچوں کے قتل، ان کے ٹکڑے کرنے اور ان کے جسم کی اعضا کو تیزاب میں ڈال کر تحلیل کرنے کے جرم میں سنائی گئی تھی۔ قانون کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا موقع نہیں مل سکا کہ مجرم نے جیل ہی میں خودکشی کر لی تھی۔ یہ سارے واقعات گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں رونما ہوئے تھے۔

سارے مقدمے اور عدالت کے فیصلے کو دیکھا جائے تو یہ اتنا شاطر مجرم تھا جس کے خلاف پولیس اپنی پوری تفتیشی صلاحیت کو استعمال کر کے بھی عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی تھی اور اس کو سزا اس کے اقبال جرم کی بنیاد پر ہوئی تھی۔

دشمن کی سفارش پر تمغہ شجاعت پانے والے کیپٹن احسن ملک

تاریخ کے بدنام ترین سیریل کلر جاوید اقبال نے خود اپنی گرفتاری دی تھی اور یہ گرفتاری اس مجرم نے پولیس یا عدالت کو نہیں بلکہ رونامہ جنگ لاہور کے دفتر میں جا کر اور اپنا تعارف کروا کر دی تھی۔ اس موقع پر اس نے اپنے جرائم کو قبول کرتے ہوئے روزنامہ جنگ لاہور کو انٹرویو بھی دیا تھا، یہ اپنے جرائم کی مکمل ڈائری بھی لکھتا تھا۔

شاید اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ ایک خطرناک نفسیاتی مریض تھا جو شہرت کا بھوکا تھا۔ یہ بدنامی آنے والے وقتوں تک اس کے نام کے ساتھ جڑی رہے گی۔

جاوید اقبال کی جوانی کی تصویر بشکریہ مسعود عزیز

مجرم کیسے بچوں کو قتل کرتا رہا، کیوں پولیس کی گرفت سے آزاد رہا؟ اور پھر اس نے کیوں خود گرفتاری پیش کی؟ اس سب پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں مگر پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جاوید اقبال تھا کون؟

بدتمیز، خطرناک اور بگڑا نوجوان

جاوید اقبال کے والدین نے قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے ہجرت کرکے لاہور میں رہائش اختیار کی تھی۔ جاوید اقبال بچپن ہی سے بدتمیز، ضدی اور جھگڑالو تھا۔ یہ اپنی ہر خواہش پوری کرنا فرض سمجھتا تھا اور اس خواہش کے راستے میں اگر کوئی بھی رکاوٹ ہو تو وہ اپنے والدین، بھائیوں کو بھی دھمکیاں دینے سے گریز نہیں کرتا تھا۔

جاوید اقبال کے لڑائی جھگڑے اردگرد کے علاقوں تک پھیل گئے تھے۔ کالج کے زمانے میں بری صحبت کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے والد نے تنگ آ کر اس سے جان چھڑانے کے لیے لوہے کے پائپ کا کام شروع کروا دیا تھا۔

درگاہ میں 20 مریدوں کو قتل کرنے والے جنونی پیر کو موت کی سزا

جاوید اقبال کی اپنی لکھی ہوئی ڈائری کے مطابق اس دور میں اس کی دوستی پولیس کے ایک ریٹائرڈ اہلکار نسیم مرشد سے ہوئی تھی۔ یہ دوستی اتنی بڑھی کہ آنے والے وقت میں نسیم مرشد نے جاوید اقبال کے تھانوں اور پولیس افسران سے کہرے تعلقات بنوا دیے تھے۔

جاوید اقبال نے بچوں کو اپنی جانب متوجہ رکھنے کے لیے لوہے کے کارخانے کے باہر مچھلیوں کی دُکان بھی کھول رکھی تھی حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے کارخانے میں جو بچے کام کرتے تھے یہ ان کو نئے کپڑے دیتا اور انھیں سیر سپاٹے بھی کرواتا تھا۔

پہلا مقدمہ اور صلح کی بنیاد پر رہائی

پولیس ریکارڈ کے مطابق جاوید اقبال پر پہلا مقدمہ شاد باغ تھانے میں درج ہوا تھا۔ یہ مقدمہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام پر بنایا گیا تھا۔ جاوید اقبال نے خود کو کسی نہ کسی طرح گرفتاری سے بچائے رکھا اور معززین علاقہ کی ایک پنچایت میں معافی مانگنے اور بیان حلفی دینے پر یہ مقدمہ ختم ہوا تھا۔

نسیم مرشد کے مطابق شاد باغ میں ہی پہلی مرتبہ اس پر بچوں کے ساتھ بد فعلی کا الزام لگا تھا۔ معاملہ اس قدر سنگین ہو گیا کہ اس واقعے میں جاوید اقبال کے خلاف سنہ 1990 میں شاد باغ تھانے میں مقدمہ بھی درج ہوا لیکن گرفتاری سے قبل جاوید فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا جس پر پولیس نے اس کے والد اور بھائی کو گرفتار کر لیا۔

صدر ایوب کو فاطمہ جناح کے خلاف ووٹ ڈلوانے والا پاکستان کا رابن ہڈ

جاوید اقبال نے دو شادیاں کی تھیں جن سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔

جز وقتی صحافی اور پولیس والوں سے دوستی

پولیس ریکارڈ کے مطابق جاوید اقبال پر دوسرا مقدمہ 1998 میں لاہور کے لوئر مال تھانہ میں درج ہوا اور اس مقدمے میں جاوید اقبال گرفتار ہوا کچھ عرصہ جیل میں رہا مگر پھر رہا ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

جاوید اقبال کے خلاف مختلف تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک انتہائی شاطر انسان تھا۔ یہ اپنے پاس اسلحہ رکھتا، فوٹو گرافی کرتا اور لوگوں سے تعلقات بنانے کے علاوہ شہرت کا بھوکا تھا۔

اس دور میں شائع ہونے والے ایک ماہانہ رسالے اینٹی کرپشن کا ایڈیٹر تھا اور اسی میگزین کی بدولت اس نے پولیس والوں سے تعلقات بنا رکھے تھے۔ رسالے کا نام اینٹی کرپشن بھی شاہد اسی وجہ سے رکھا گیا تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق جاوید اقبال اپنی رہائش اور کاروبار بار بار تبدیل کرتا تھا۔ مگر ہر رہائش اور کاروبار میں اس کے ساتھ کم عمر بچے ضرور ہوتے تھے اور یہ مشہور تھا کہ یہ بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔

گرفتاری کے بعد ملزم کو گاڑی سے اتارا جا رہا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید اقبال نے اس زمانے میں وڈیو گیمز کی دوکانیں بھی کھول رکھی تھیں۔ ان دوکانوں پر زیادہ تر بچے ہی جاتے تھے۔ اس دور میں اس کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جس میں اس کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ واقعہ اس نے خود اپنی ڈائری میں لکھا ہے۔

جاوید اقبال پر قاتلانہ حملہ

لاہور کے تھانہ غازی آباد میں 1998 کو جاوید اقبال کے بھائی پرویز اقبال کی درخواست پر جاوید اقبال پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔

اس مقدمے میں کہا جاتا ہے کہ جاوید اقبال کا 7 سالہ ملازم جس کا نام ارباب بتایا گیا ہے اور ایک مالشیہ جس کو جاوید اقبال مالش کے لیے بلاتا ہے گھر کی بالائی منزل پر سوتے ہیں۔ اس دوران جاوید اقبال کوئی آواز سن کر اوپر جاتا ہے تو مالشیا بھاگ جاتا ہے مگر جاوید اور ملازم زخمی ہوتے ہیں۔

پولیس اس کیس میں مالشی کو گرفتار کرتی ہے تو وہ انکشاف کرتا ہے کہ جاوید اقبال اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا تھا۔ جب جاوید اقبال سو جاتا ہے تو وہ الماری سے بندوق نکال کر اسے زخمی کر کے فرار ہوجاتا ہے۔

پولیس کے سامنے جب سارے حقائق آتے ہیں تو وہ جاوید اقبال کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ جاوید اقبال کافی دنوں تک ہسپتال میں رہتا ہے اور یہاں سے شاطر اور نفسیاتی مریض جاوید اقبال کے دل میں انتقام کی آگ سلگتی ہے اور اس کا نشانہ 100بچے بنتے ہیں۔

خود پر حملے کا انتقام لاوارث بچوں سے

جاوید اقبال نے اپنی ڈائری میں بچوں کے قتل کی کہانی اور تفصیل خود ہی بیان کرتا ہے اور یہ ڈائری سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے۔

جاوید اقبال لکھتا ہے کہ میں مینار پاکستان سیر کے لیے گیا۔ وہاں پر میں نے ایک لڑکے سے کام کا پوچھا تو وہ تیار ہوگیا۔

یہیں پر بس نہیں وہ مزید آگے لکھتا ہے کہ راستے میں ایک اور لڑکا ملا اس سے بھی کام کا پوچھا تو بھی ساتھ آگیا۔ پہلا لڑکا ناروال کا تھا۔ دوسرا کوھاٹ ، بنوں کا رہائشی تھا۔

ایبٹ آباد کے حافظ قاسم رشید کی امجد صابری سمیت قتل کی 43 وارداتوں کی روداد

ریکارڈ اور ڈائری کے مطابق جاوید اقبال ان بچوں کو راوی روڈ لاہور کے ایک مکان جس میں وہ کرایہ پر رہائش پزیز تھا لے جا کر بے رحمانہ طریقے سے قتل کرتا تھا۔ یہ تین کمروں پر مشتمل مکان ہے۔

جاوید اقبال کی ڈائری کے مطابق بچوں کے قتل کا آغاز اس نے 20 جون 1999 کو شروع کیا اور آخری قتل 13 نومبر 1999 کو کیا تھا، سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے پولیس کو خط لکھ کر اپنے جرائم کے بارے میں اطلاع دی تھی۔

پولیس نے مناسب تفتیش نہیں کی

جاوید اقبال کس قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار تھا۔ جس کا تجزیہ اور معائنہ نہیں ہوسکا حالانکہ عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس کا مکمل معائنہ کیوں نہیں کروایا گیا ، ان وارداتوں کے بعد اس نے پولیس اور اعلیٰ احکام کو خط لکھ کر 100 بچوں کے قتل کے بارے میں تمام تفصیلات لکھیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق خط میں اس نے اپنی ڈائری کا بھی ذکر کیا جس میں اس نے ہر ایک قتل کی تفصیل لکھی تھی۔

پولیس کے پاس پہلا خط پہنچتا ہے تو ایک پولیس افسر تفتیش اور تحقیق کے لیے موقع پر پہنچتا ہے جو جاوید اقبال سے بات چیت اور تفتیش کرنے کے بعد پولیس افسر یہ کہہ کر جاوید اقبال کو چھوڑ دیتا ہے کہ یہ تو ایک پاگل شخص ہے۔ یہ اس طرح نہیں کرسکتا۔

پتا نہیں جاوید اقبال کے ذھن میں کیا چل رہا تھا اور وہ کتنا شاطر تھا۔ جب پولیس کو لکھے گئے پہلے خط پر کچھ نہیں ہوا تو اس نے روزنامہ جنگ لاہور کو خط لکھا۔

روزنامہ جنگ میں جاوید اقبال کی گرفتاری کی خبر

روزنامہ جنگ لاہور کو لکھے گئے خط میں تمام قتل کے واقعات کی تفصیلات اور 75 بچوں کی ایک ہی کمرے میں لی ہوئی تصاویر موجود تھیں۔ خط میں کہا گیا تھا کہ راوی روڈ کے مکان میں تمام ثبوت بھی موجود ہیں۔

روزنامہ جنگ لاہور میں مختلف اوقات میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ خط روزنامہ جنگ لاہور کے کرائم ایڈیٹر جمیل چشتی کو ملتا ہے تو وہ اس کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ اس پر خود سے ایک تحقیق کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس تحقیق میں وہ ایک بڑا خطرہ اٹھاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اس مکان میں جا پہنچتے ہیں۔

جمیل چشتی جب اس مکان میں پہنچتے ہیں تو وہاں پر انھیں سو بچوں کے جوتے، ڈرم او روہ سب کچھ نظر آتا ہے جو خط میں تحریر تھا۔

تصویر بشکریہ مسعود عزیز

جمیل چشتی فی الفور اس واقعہ کی پولیس کو اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ جاوید اقبال کی جانب سے خط میں مقتول بچوں کے حوالے سے لکھے گئے پتے پر رابطے کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ بچے اپنے گھروں سے لاپتا ہیں اور ان کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے جس کے بعد روزنامہ جنگ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ خبر سچ ہے اور اس خبر کو چھاپ دیا جاتا ہے۔

خبر چھپنے کی دیر تھی کہ ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے اور لاپتا بچوں کے والدین راوی روڈ کے مکان میں بچوں کے جوتوں سے اپنے بچوں کو شناخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جاوید اقبال غائب مگر ڈائری دستیاب

اب پولیس جاوید اقبال کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر جاوید اقبال تو غائب ہے لیکن ڈائری پولیس کے ہاتھ لگ جاتی ہے جس کا ذکر اس نے اپنے دونوں خطوط میں کیا تھا۔

جاوید اقبال نے ڈائری میں اپنے بھائی، جس پراپرٹی ڈیلر منیر حسین نے کرایہ پر مکان دلایا، پرانے دوست نسیم مرشد، اسحاق بلا سب ان خوفناک جرم میں اپنا شریک کار بتایا تھا۔

جاوید اقبال نے لکھا تھا کہ مرشد نسیم نے بچوں کو تیزاب میں ڈالنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسحاق بلا تیزاب لا کر دیتا تھا۔ اسحاق بلا پولیس تشدد سے ہلاک بھی ہوگیا تھا جس کا مقدمہ پولیس افسران پر درج ہوا تھا۔

جاوید اقبال کہاں غائب ہوا؟ پولیس ریکارڈ میں اس سے متعلق بڑی دلچسپ کہانی موجود ہے۔

جاوید اقبال کے پاس ایک لڑکا ندیم تھا۔ یہ بھی گھر سے بھاگا ہوا تھا۔ ڈسڑکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ندیم کو بھی شریک جرم قرار دیا تھا مگر بعد میں ندیم کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اسے رہا کردیا گیا تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق ندیم نے بتایا کہ جاوید اقبال اس کو لے کر مری کی سیر کو چلا گیا تھا۔ جہاں پر وہ کافی دن تک پہاڑوں میں رہتے رہے تھے۔ جاوید اقبال کے پاس بانڈ تھے۔ جن کے نمبر پولیس نے حاصل کرلیے تھے۔ پولیس نے تقریبا تمام ہی بینکوں میں بانڈ کے نمبر بھجوا دیئے تھے تا کہ اگر ان بانڈ کو کوئی کیش کروانے آئے تو پولیس کو اطلاع دی جائے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق جاوید اقبال نے ایک بانڈ دینہ سے کیش کروایا۔ دوسرا بانڈ سرائے عالمگیر کے بینک سے کیش کروانے گیا تو یہاں شاطر مجرم خود بینک نہیں گیا اور اس نے ندیم کو کیش کروانے بھجا۔ جیسے ہی کیشیر نے نمبر دیکھا اس نے شور شرابہ کیا کہ بینک کے گیٹ بند کیے جائیں۔

جاوید اقبال بینک کا گیٹ بند ہوتے دیکھ کر موقع سے فرار ہو گیا اور پکڑے جانے والے ندیم نے بتایا کہ پہاڑوں میں غاروں میں رہتے تھے۔

پولیس جاوید اقبال کو تلاش کررہی تھی مگر جاوید اقبال نے تو کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ شہرت کا بھوکا تھا۔ گرفتاری دینے روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر میں پہنچ گیا۔ جہاں پر اس نے انٹرویو میں کہا کہ جب حملہ ہوا اور وہ مرنے کے قریب تھا تو اس دوران اس کی ماں مر گئی تھی۔

جس کے بعد اس نے 100 بچوں کی ماؤں کو رلانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب ٹارگٹ پورا ہوا تو اس نے اب اپنا کام بند کردیا تھا۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین