ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومپاکستانفوج کا نظام عدل حرکت میں، ٹاپ سٹی تنازع میں اہم شخصیات...

فوج کا نظام عدل حرکت میں، ٹاپ سٹی تنازع میں اہم شخصیات کے نام شامل

محمد نوید خان

پاک فوج نے کہا ہے کہ سابق آئی ایس ایس سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو مناسب تفتیش کے بعد تحویل میں لے کر کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج نے ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری منعقد کی جس میں لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا گیا تھا جس کے بعد آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل ر فیض حمید نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔

پاکستان اسٹوریز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس وقت پاک فوج کا نظام عدل حرکت میں آچکا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب پاک فوج نے اپنے ہی کسی اعلیٰ افسر کے خلاف کاروائی کی ہو۔ اس سے پہلے بھی ایسی کاروائیوں کی مثالیں موجود ہیں۔

پاک فوج میں کبھی بھی کسی بھی بے ضابطگی کی اجتماعی طور پر حمایت نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ ہمیشہ ایسے واقعات سامنے آنے پر اس کے خلاف سخت ترین کاروائی ہوئی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف کارروائی بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ٹاپ سٹی ہاوسنگ پراجیکٹ کافی متنازع سمجھا جاتا رہا ہے اور اس پر کافی عرصے سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

ٹاپ سٹی پراجیکٹ تنازع ہے کیا؟

نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ انہیں فیض حمید کی جانب سے اپنی ہاوسنگ سوسائٹی میں مداخلت پر شدید تحفظات تھے، وہ یہ کیس لے کر طویل عرصہ سے سپریم کورٹ میں موجود تھے۔

 

ٹاپ سٹی کے مالک معیز خان ایک تقریب میں پیپلزپارٹی رہنما شہلا رضا کے ہمراہ، تصویر اے ایچ ایف

سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ کر رہے نے گزشتہ سال اس کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اگر یہ الزامات درست ثابت ہو گئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے کیس نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورمز سے رجوع کریں۔

واضح رہے کہ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے علاوہ دیگر اداروں میں دائر متفرق درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مجھے اور میرے خاندان کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا۔

درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے حکم پر میری رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور نقد رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس واقعہ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف ثالثی کے لیے سامنے آئے مگر مسئلہ حل نہ ہوا بلکہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کہا کہ چھاپے کے دوران لوٹا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کر دیں گے۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادائیگی اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

درخواست میں الزام لگایا ہے کہ ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔

درخواست کی سماعت کے دوران کئی دلچسپ موڑ آئے جن میں پتا چلا کہ ریکارڈ تلف کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریکارڈ طلب کیا تو عدالتی عملے نے بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے تمام ریکارڈ ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ہمیشہ خبروں میں رہے

واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

ان کی ریٹائرمنٹ پر بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا کییئر تنازعات میں گھرا رہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ان پر فیض آباد دھرنا، کابل کے سرینا ہوٹل میں ان کی موجودگی، سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مبینہ قربت اور سیاسی توڑ جوڑ میں ان کی مداخلت جیسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔ عمران خان نے ان کی آئی ایس آئی سے باہر تعیناتی کو روکا جس سے جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان تلخی اس قدر بڑھی کہ بقول سیاسی تجزیہ کاروں کے جو عمران خان حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ وہ پنڈی میں 10 کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ وہ جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

2019 میں انھیں آئی ایس آئی سربراہ مقرر کیا گیا۔ 2021میں وہ پشاور کے کور کمانڈر تعینات ہوئے اور پھر بہاولپور کے کور کمانڈر بھی تعینات رہے۔

ان کا نام نومبر 2017 میں اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک کے دھرنے کے دوران بھی سامنے آیا تھا۔

اسی دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں وزارت دفاع کے توسط سے آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کریں جنھوں نے ’اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی ہے۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین