پاکستان سٹوریز رپورٹ
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل پر اس کی ٹرانسمپشین لائن کو کوھستان کی وادی پالس سے گزارے پر انتہائی خطرے کا شکار اور کم تعدادمیں رہ جانے والی خوبصورت ترین پرندے جیجل کی دنیا میں آخری بچ جانے والی آمجگاہیں بھی ختم ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت جیجل کی آبادی صرف جنوبی ایشیا کے مغربی ہمالیہ خطے تک محدود ہوچکی ہے جبکہ اس کی مجموعی تعداد 2500 سے لیکر تین ہزار ہوسکتی ہے جبکہ پالس کی ویلی میں اس کی سب سے زیادہ آبادی چھ سو جوڑے یا بارہ پرندے ہیں۔
پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)اس وقت کوھستان کے ضلعی ہیڈ کوارٹر داسو میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پرکام کررہی ہے۔ پراجیکٹ کے مکمل ہونے پر پاکستان کو 5400 میگا واٹ بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔ جس کے لیئے ٹرانسمیشن لائن پالس کی وادی سے گزاری جائے گی۔
کیسے پرندوں کے ماہر نے جیجل کی وجہ سے اسلام قبول کیا، اس کی کہانی سنیں
واپڈا ہی کی تیارہ کردہ ماحولیات کی تشخیصی رپورٹ کے مطابق پالس سے ٹرانسمیشن لائن گزرنے سے جیجل اور دیگر نایاب پرندوں اور جنگلی حیات کو نقصاں پہنچ سکتا ہے۔ رپورت کے مطابق ” داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ منصوبے سے دریا سندھ کی نچلی سمت پچاس کلو دور الگ تھلگ،جس کو ابھی تک ماحولیاتی حوالے سے نقصاں نہیں پہنچا قدیم پالس ویلی ہے۔
یہ ویلی تنوع کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی مجوزہ ٹرانسمیشن لائن پالس ویلی سے گزرے گی جہاں پر دنیا بھر میں جیجل کی سب سے زیادہ آبادی ہے اور اس کے علاوہ دیگر سات نایاب پرندے شامل ہیں۔ پالس ویلی کو پرندوں کے حوالے سے برڈلائف انٹرنیشنل نے انتہائی اہم علاقہ قرار دیا ہے۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پراجیکٹ والے علاقے میں کوئی بھی علاقہ محفوظ قرار نہیں دیا گیا ہے۔
واپڈا کی جانب سے رپورٹ تیاری کے بعد ضلع کوھستان کے محکمہ وائلڈ لائف نے صوبائی حکومت کو تجویز ارسال کی ہے کہ کوھستان کی پالس کی وادی کو محفوظ علاقہ قرار دیکر نایاب اور خطرے کا شکار پرندوں اور جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ جس میں جیجل سر فہرست ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کوھستان کے ڈی ایف اور محمد علیم کے مطابق ٹرانسمیشن لائن کا پالس کی ویلی سے گزرنا جیجل کے لیئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اکثر پرندے ٹرانسمیشن لائن، بجلی کے گھمبوں اور تاروں سے ٹکرا کر ہلاک ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جیجل کے لیے یہ صورتحال خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور غیر فطری ہلاکتوں کا شکار ہونے سے اس کی آبادی مزید کم یا مکمل معدوم ہوسکتی ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف ایبٹ آباد کے ڈی ایف او افتخار احمد کے مطابق ان کے ایک سروے کے مطابق پالس میں جیجل کے 600 جوڑے یا 1200 نر اور مادہ موجودہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے کچھ مقامات پر بھی جیجل موجود ہے ۔
محکمہ وائلڈ لائف ایبٹ آباد کے ڈی ایف او افتخار احمد کا کہنا تھا کہ واپڈا کو بتا دیا گیا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو پالس ویلی سے گزارنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے جیجل خطرے کا شکار ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ آنے والے کچھ دونوں میں پالس ویلی کو محفوظ علاقہ قرار دے دیا جائے گا جس کے بعد واپڈا کے لیئے قانونی طور پر بھی ٹرانسمیشن لائن گزارنا ممکن نہیں ہوگا۔
انٹرنیشنل یونین آف فار کنزویشن آف نیچر(آئی یو سی این) نے جیجل کی مکمل معدومی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دنیا بھر میں جیجل اس وقت صرف جنوبی ایشیا کے مغربی ہمالیہ خطے تک محدود ہوچکا ہے۔ آئی یو سی این کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جیجل کی سب سے زیادہ آبادی پالس ویلی میں موجود ہے۔
برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق جیجل پاکستان کے علاوہ بھارت کے ہماچل پردیش کے علاقوں میں بھی موجود ہے۔ دنیا میں اس کی مجموعی تعداد 2500سے 3000 ہزار ہوسکتی ہے جبکہ پالس کی وادی سے لیکر ہماچل پردیش تک اس کی آجگاہیں صرف 3000اسکوائر کلو میٹر تک محدود ہوچکی ہیں۔
ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم قدرت -نیچر کے چیرمین میجر(ر) عابد حسین کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور خیبر پختوں خواہ جیجل جیسے انتہائی خطرے کے شکار خوبصورت پرندے جس کی آبادی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے کا تحفظ کرنے کے اقدامات کرئے۔ ان کا کہنا تھا کہ واپڈا دو بارہ اپنا سروے کروا کر ٹرانسمیشن لائن کو کسی اور مقام سے گزار سکتا ہے جس سے جیجل اور دیگر نایاب پرندوں اور جنگلی حیات کو نقصاں نہ پہنچے۔
پالس کوھستان کی مقامی آبادی بھی جیجل کی اہمت سے آگاہ ہے اور اس کے تحفظ کے لیئے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ حکومت کے ساتھ مقامی آبادی بھی کسی کو جیجل کے شکار کی اجازت نہیں دیتی۔ مقامی جرگہ کے سربراہ محمد افضل کا کہنا تھا کہ جیجل ہمارے لیئے تعلیم، روزگار اور صحت کے مواقع لیکر آیا ہے۔ اس کا تحفظ ہمارے لیئے سب سے مقدم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے کے سب لوگ جیجل کا تحفظ اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں ٹرانسمیشن لائن کو پالس ویلی میں سے گزانے کی جگہ پر دوسری جگہ سے بھی گزارا جاسکتا ہے۔
واپڈا کے زرائع کا کہنا تھا کہ تجاوزات ملنے کے بعد ٹرانسمیشن لائن کے لیئے دوبارہ کرسروے کروانے پر غور جاری ہے۔