ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماہم خبریںآلودگی پر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ, ہری پور میں سٹون کرشنگ...

آلودگی پر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ, ہری پور میں سٹون کرشنگ بند، 900 پلانٹس کے جائزے کا حکم

نورین محمد سلیم

ضلع ہری پور کے علاقے خان پور جو کہ مالٹوں کے باغات کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے کے رہائشیوں کی جانب سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے سورج گلی میں گالی سٹون کرشنگ پلانٹس کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائرہ کردہ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سٹون کرشنگ پلائنٹس آلودگی پھیلا رہے ہیں۔

ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی دامن کے سلسلے والے علاقوں ٹیکسلا، ہزارہ ڈویژن، مردان، مالاکنڈ اور دیگر علاقوں کے پتھر کو تعمیراتی کاموں کے لیے انتہائی بہترین سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں پہاڑوں کے پتھر پیسنے کیلئے کرش مشینیں لگی ہوئی ہیں۔

محکمہ ماحولیات صوبہ پنجاب کے مطابق پنجاب بھر میں تقریبا 800 کے قریب کرش مشنیں ہیں جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تعداد 900 ہے تاہم مقامی ذرائع کے مطابق یہ تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ کئی مشینیں غیر قانونی طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔

کرش مشنیں کس طرح آلودگی پھیلا رہی ہیں۔ پاکستان سٹوریز کی ڈاکومنیٹری دیکھیں اور پاکستان سٹوریز یو ٹیوب چینل کو سبکرائپ کرئیں

پاکستان سٹوریز نے سٹون کرشنگ کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر مقامی لوگوں اور ماہرین سے بات کی ہے مگر اس سے پہلے دیکھتے ہیں کہ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کیا کہا ہے۔

سپریم کورٹ حکم نامے میں کیا کہا گیا ہے؟

سٹون کرشنگ مشنیوں کے خلاف دائر رٹ پر حکم نامہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے جس پر بینچ کے دیگر ججز کے دستخط بھی موجود ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صاف شفاف ماحول میں رہنا ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے، ہری پور کے علاقے سورج گلی میں قائم سٹون کرشنگ پلانٹس کو بند کیا جائے۔

کراچی مینگروز کا قبرستان بن گیا، 12سال میں 200 ایکڑ جنگلات کا صفایا

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ماحولیات سے متعلق خیبر پختونخواہ کا محکمہ صوبے کے مختلف مقامات پر 900 سٹون کرشنگ پلانٹس کا جائزہ لے اور آلودگی سے متعلق قوانین اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے کرشنگ پلانٹس کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں فضائی آلودگی سے متعلق قوانین کی تجدیدکریں جب کہ پیشرفت پر رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں ہر 9 سے ایک موت فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق فضائی آلودگی سالانہ 70 لاکھ اموات کا باعث بن رہی ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔ دنیا کی کل آبادی کا 22.9% بنگلہ دیش، بھارت نیپال اور پاکستان میں ہے۔ ایئر کوالٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ یہ ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے کہ وہ صاف وشفاف ماحول میں زندگی گزارے۔

آلودگی کے ہاتھوں میرے ماں باپ مر چکے ہیں۔

ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں کے رہائشی ارشاد خان کا کہنا ہے کہ میں اور میرا پورا خاندان ان کرش مشنیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت اچھا ہے میں حکام سے کہتا ہوں کہ وہ آئیں اور دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔ میں خود دمے کا مریض بن چکا ہوں میری اولاد بھی مریض بن رہی ہے۔ میرے ماں باپ آلودگی کے ہاتھوں مرے ہیں۔

انیس خان ایبٹ آباد کے سیاحتی مقام ٹھنڈیانی روڈ کے علاقے گھماواں کے رہائشی ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق اس علاقے میں پہاڑوں پر بھی 8 کرش مشنیں کام کر رہی ہیں۔

60 سال بعد پاکستان کے متعدد شہر رہنے کے قابل نہیں رہیں  گے

انیس خان کا کہنا تھا کہ ان مشنیوں کے ہاتھوں ہر پیدا ہونے والا بچہ دمے کا مریض ہے۔ حکام کو درخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، اب سنا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں خان پور میں کرش مشینیں بند کرنے کا حکم دیا ہے اور باقی مشینیوں کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اب حکام فی الفور ٹھنڈیانی روڈ کا دورہ کریں اور دیکھیں کس طرح پہاڑ تباہ ہورہے ہیں اور لوگ مر رہے ہیں۔

کرش مشینیں ایسوسی ایشن کے ذرائع نے مقامی آبادیوں کے دعووں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم لوگ آئین اور قانون کے مطابق کاروبار کررہے ہیں۔ تمام حکومتی قواعد کو پورا کیا گیا ہے۔

صورتحال گھمبیر ہے فوری اقدامات کرنا ہوں گے

ایوب میڈیکل کمپلیکس کے سابق چیف ایگزیکٹو اور چیسٹ سپیلشسٹ پروٖفیسر ڈاکٹر محمد نثار خان کے مطابق آلودگی سے پیدا ہونے والے امراض بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورتحال خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ اس میں انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے پہاڑی علاقے بھی خطرناک آلودگی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جس میں کرش مشینوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان کرش مشنیوں کے قرب و جوار میں بسنے والی آبادیاں بہت متاثر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ان کرش مشنیوں سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد آتی ہے جو احسن ابدال سے لے کر گلگت بلتستان اور کشمیر تک کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ چند سال پہلے تک دمہ سردیوں میں یا الرجی کی وجہ سے ہوتا تھا مگر اب ایسے مریض زیادہ ہوچکے ہیں جو اوائل عمر ہی میں دمے سے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ دائمی مریض ہوتے ہیں۔ جن میں کئی ایک کینسر کا شکار ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد نثار خان کا کہنا تھا کہ ضلع چارسدہ کے ایک علاقے میں سفید پتھر تیار اور کرش کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کے لوگ بڑی تعداد میں کینسر کا شکار ہیں۔

ن کا کہنا تھا کہ اسی طرح ضلع شانگلہ کے لوگ بھی اس سے بہت بری طرح متاثر ہیں، چیسٹ ایسوسی ایشن کا جائزہ ہے کہ کل آبادی میں سے 5 فیصد لوگ دمے کا شکار ہیں۔ یہ ایک پرانی سٹڈی ہے جس میں اب آلودگی کی وجہ سے ممکنہ اضافہ ہوچکا ہوگا۔

قوانین پر عمل درآمد

صوبہ خیبر پختونخواہ میں سال 2014 میں انوائرمنٹ پروڈیکشن ایکٹ متعارف کروایا گیا ہے۔ اس سے پہلے عملاً پورے ملک کی طرح انوائرمینٹ پروڈیکشن ایکٹ 1998 ہی نافذ العمل تھا۔ جس کے مطابق کرش مشنیوں سمیت کسی بھی کان کنی کے لیے لازم تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی آبادی سے ایک ہزار میٹر دوری کے فاصلے پر ہوں جبکہ نئے قانون میں اس فاصلے کو کم کرکے 300 میڑ کردیا گیا تھا۔

‘سورج 10ہزار سال سے زائد عالمی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے’

محکمہ ماحولیات پختونخواہ کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ماہر ماحولیات نعمان رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت شاندار ہے۔ آلودگی سے معلق قوانین مزید سخت ہونے چاہیں اور ان پرعمل در آمد بھی ہونا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین