پاکستان کے سب سے بڑی شہر کراچی میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران مینگروز (تمر) کے جنگلات کا بے رحمی سے صفایا کیا گیا ہے۔
ماحولیات کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں محکمہ جنگلات سندھ کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی کے کم از کم 200 ایکٹر پر جنگلات کا صفایا کردیا گیا ہے۔ یہ صفایا رہائشی منصوبوں اور کاروباری مقاصد کے لیے کیا گیا ہے جس کے ساحلی شہر پر بدترین اثرات رونما ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اب بھی کراچی میں حفاظتی اقدامات اور قوانین پر فوری عمل در آمد نہ کیا گیا تو ممکنہ طور پر باقی ماندہ مینگروز بھی ختم ہوسکتے ہیں اور ان کی قدرتی افزائش کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے علاقے میں مینگرووز کے جنگلات کا رقبہ بڑھا ہے۔
کراچی میں کیا ہوا؟
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ماہرین نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اندازہ لگایا ہے کہ ہاوسنگ اسکیموں اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے مینگروز کے جنگلات کو بڑی تیزی سے کاٹا گیا ہے جس کے نتیجے میں مینگرووز کے جنگلات کا رقبہ بہت کم ہو گیا ہے۔
محکمہ جنگلات سندھ نے بھی اندازہ لگایا ہے کہ کراچی کے کم از کم 200 ایکٹر کے علاقے پر مینگرووز کے جنگلات ختم ہوئے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بتایا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں رہائشی منصوبوں کے لیے کراچی کے یونس آباد، کاکاپور گاؤں، حاجی علی گوٹھ، ماڑی پور، شمشیر کے جزیرے، کیماڑی، مچھر کالونی، بھٹہ کالونی، پورٹ ٹاور کمپلیکس، مائی کولاچی بائی پاس کے قریب کے علاقوں میں مینگرووز کے درخت کاٹے گئے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق کمرشل اور تفریحی منصوبوں میں ڈی ایچ اے فیز 8 ، ایئر مین گالف کلب اور تفریحی پارک کے قریب کے علاقے شامل ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق صنعتی علاقوں میں کورنگی کے قریب کریک انڈسڑیل پارک، لکی الیکٹرک کمپنی، ایس ایس جی سی ایل پی جی ٹرمینل، ایپیکسل ٹرمینل، پورٹ قاسم پاور پلانٹ، اے ایس جی میٹلز کے قریب کے علاقے شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں مینگروز کے درخت طاقت ور لینڈ مافیا کا بھی شکار ہوئے ہیں۔ مینگروز کے جنگلات والے رقبے میں پلاٹ بنائے گے اور ان کو مہنگے داموں فروخت کیا گیا ہے۔ اس میں زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی گئی ہیں۔ اکثر اوقات قوانین کا خیال نہیں رکھا گیا۔
انڈس ڈیلٹا میں جنگلات بڑھے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی رپورٹ میں جو حوصلہ افزا بات سامنے آئی وہ یہ کہ کراچی کے برعکس انڈس ڈیلٹا کے علاقوں میں بہتری آئی ہے۔ جس میں محکمہ جنگلات اور غیر سرکاری تنظیموں نے مل کر بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں سندھ کی ساحلی پٹی یعنی انڈیس ڈیلتا کے علاقوں میں 55,555 ہیکٹر پر مینگرووز لگائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان کا مینگروو جنگلات کا رقبہ جو کہ 2016 میں 1,338.16 km2 سے بڑھ کر 2020 میں 1,573.57 km2 ہو گیا ہے۔
مینگروز کمی نے سمندری آفات کے خطرات بڑھا دیئے ہیں
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی نظام میں ساحلی علاقوں میں مینگروز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ جنگلات بڑھتی ہوئی بے انتہا آبادی کے ساتھ ساتھ غیر قانونی کٹائی کے علاوہ آلودگی اور ان کے تحفظ کے لیے موجود ناکافی قوانین اور موجود قوانین کے موثر نفاذ نہ ہونے کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مینگروز کے جنگلات انسانی زندگی کا تحفظ کرتے ہیں۔ دیکھا جارہا ہے کہ پورٹ قاسم کے آس پاس کے علاقوں میں بڑے اور جوان درختوں کا صفایا کیا جارہا ہے۔ درختوں کی یہ کٹائی پورے ماحولیاتی نظام کو شدید متاثر کرے گی۔
حماد نقی خان کا کہنا تھا کہ مینگرووز کے درختوں اور جنگلات کی کمی کا سب سے بڑا نقصان کسی بھی سمندری آفت کے خطرے میں اضافہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر جنگلات بالخصوص مینگروز کے جنگلات کی حفاظت کرنی چاہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ روزگار کا بھی زریعہ ہیں مقامی ماہی گیر برادریوں کو ذریعہ معاش فراہم کرتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مینگرووز کا تحفظ کرنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔
[…] […]