قلندر تنولی
گزشتہ سردیوں کے حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ ان گزرتے موسموں میں پاکستان میں بدترین موسمیاتی تبدیلی کامشاہدہ کیا گیا ہے۔ جب سرد موسم، بارشوں اور برفباری کی توقع تھی اس وقت نہیں ہوئی اور بعد ازاں بارشیں اور برفباری ہوئی جو ماحولیات پر کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑیں گی۔
آئی سی آئی ایم او ڈی سے منسلک گلیشیئرز کے ماہر ڈاکٹر شیر محمد کے مطابق مختلف علاقوں میں جہاں پر سرد موسم کا آغاز اکتوبر سے ہوجاتا ہے وہاں فروری کے درمیانی عرصے میں بارشیں تو کم ہوئی ہی تھیں اگر برفباری کا جائزہ لیں تو گزشتہ 20 سالوں کے دوران تیسرے نمبر پر کم ترین برفباری ہوئی ہے جب کہ برف باری سے ڈھکے ہوئے علاقے کم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سرد موسم کا دورانیہ بھی کم ہوتا جارہا ہے اور موسم منتقل بھی ہوتا جارہا ہے یعنی جب سردی پڑنی چاہیے اس وقت سردی نہیں پڑ رہی اور جب بہار کا موسم ہونا چاہیے اس وقت یک دم گرمی شروع ہوجاتی ہے۔
یہ موسمی تبدیلی جہاں زراعت، باغوں، انسانی صحت اور جسم پر مختلف منفی اثرات ڈالے گی وہیں قدرتی حادثات کا سبب بننے کے علاوہ پاکستان کے پانی ذخائر پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گی۔
تاخیر سے برفباری کیسے پانی اور پانی کے ذخائر پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سال مارچ کے مہینے میں برفباری ہوئی ہے۔ یہ برفباری کے لیے مناسب وقت نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں ضلع مانسہرہ میں سیاحتی مقام ناران میں برفانی تودے بھی گرے ہیں۔ جس سے کچھ ہوٹلوں کو نقصان پہچنے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلا تاثر تو یہ ہے کہ ناران میں گلیشیئر گرا یا گلیشیئر سے کوئی نقصان ہوا ۔ ایسا نہیں کیونکہ ناران میں گلیئشیر بہت چھوٹے ہیں۔ وہاں موجود سب سے بڑا گلیشیئر 0.5 کلو اسکوائر پر محیط ہے جو کہ بہت معمولی ہے۔ ہم نے جو سیٹلائیٹ امیجز دیکھی ہیں یہ برفانی تودا اس سے 10 کلو میٹر دور گرا تھا۔
برفانی تیندوا: چار کھالوں کی قیمت تیس لاکھ جبکہ جُرمانہ صرف چار لاکھ
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ یہ برفانی تودا گرنے کی وجہ تاخیر سے برفباری تھی۔ مارچ کے مہینے میں درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتا ہے تو برفباری کو جمنے کے لیے زیادہ موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاخیر سے ہونے والی برف باری کے نتیجے میں ایسے حادثات کا خدشہ رہتا ہے کیونکہ جو برفباری سرد موسم میں اپنے وقت پر ہوتی ہے اس کو جمنے کے لیے کافی وقت ملتا ہے، جب درحہ حرارت بہتر ہوتا ہے تو یہ پھر آرام اور قدرتی نظام کے تحت پگھلتی ہے اور یہ پگھلتی برف پانی، ماحولیاتی بہتری کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی ہے مگر بے وقت کی برفباری ماحولیات اور پانی میں بہتری کے لیے وہ کردار ادا نہیں کرپاتی۔
ڈاکٹر شیر محمد کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ مارچ میں ہونے والی برفباری درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے جلد پگھل جائے گی کیونکہ اس کے پاس جمنے اور مستحکم ہونے کا موقع ملا ہی نہیں ہے جس سے اگر آنے والے دنوں میں مناسب اور اوسط بارشیں نہ ہوئیں تو پھر پانی کے مسائل ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ یا پاکستان کے دریاوں میں 44 فیصد پانی بارشوں، 40 فیصد برفباری، گلیشیئرز سے 5 فیصد اور مختلف ندی نالوں سے 11 فیصد ملتا ہے۔ اب بارشیں اور برفباری کم اور بروقت نہ ہوں تو پھر مسائل کا سامنا عین ممکن ہے۔
نیشنل پروڈکٹیوٹی آرگنائزیشن (این پی او) کے سنیئر انرجی ایڈیٹر انجینئر حماد الطاف کا کہنا تھا کہ موسمی تبدیلیوں سے بڑے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس میں ایک بڑا مسئلہ پانی کی کمی ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں توانائی یا انرجی کا بڑا زریعہ پانی یا پانی کے ذخائر ہیں جس سے توانائی یا انرجی کا بحران شدید ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں عام شہری توانائی یا انرجی کے دیگر ماحول دوست ذرائع پر انحصار کیا جائے جن کے حوالے سے دنیا کے مختلف حصوں میں کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔ کئی تحقیقات، تجربات بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے کئی علاقے مختلف قسم کی توانائی کے قدرتی ذرائع کے لیے انتہائی مناسب ہیں۔
انرجی، پاور کے متبادل ذرائع کون کون سے ہیں؟
انجیئر حماد الطاف کا کہنا تھا کہ وقت، حالات اور ٹیکنالوجی سب کچھ بدل رہا ہے۔ اس وقت دنیا محسوس کر رہی ہے کہ توانائی کے روایتی ذرائع کوئلے، تیل یا یا قدرتی گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں اور ان سے ماحولیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں بھی زیادہ سے زیادہ قدرتی ذرائع پر انحصار کیا جائے جس میں سر فہرست سولر پینل ہے۔ اس کے علاوہ ونڈ ٹربائن، واٹر ٹربائن، جیو تھرمل، بائیو انرجی اور دیگر شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سب ذرائع میں قدرتی وسائل استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ اضافی تعمیرات، ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔ یہ ذرائع کسی حد تک قابل اعتماد اور کئی سالوں تک چل سکتے ہیں۔ جیسے سولر پینل سے حاصل کردہ بجلی شامل ہے۔ سورج بہت زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کو ذخیرہ کر لیا جائے تو 10 ہزار سال سے زیادہ کی عالمی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس کی طرح اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انجیئر حماد الطاف کا کہنا تھا کہ دھوپ آلودگی سے پاک ہے اور با آسانی میسر ہے۔ پاکستان کے اکثر علاقوں کو یہ سال کے 365 دنوں میں سے 250 سے 320 دنوں تک میسر ہوتی ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح اس کے کوئی ماحولیاتی اثرات بھی نہیں اور یہ گرین ہاوس گیسز پیدا کیے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ کم خرچ ہے اس سے عام صارف پر مالی بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے۔
انجیئر حماد الطاف کا کہنا تھا کہ ونڈ ٹربائن میں توانائی حاصل کرنے کے لیے ہوا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر ایک اندازے کے مطابق ہوا میں اتنی طاقت موجود ہے کہ عام سے آلات کے ساتھ توانائی حاصل کی جاسکے جو کہ انتہائی کم خرچ اور ماحول دوست ہے۔ ان علاقوں میں پاکستان کے ساحلی علاقے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ واٹر ٹربائں سے بھی توانائی حاصل کرنے کا طریقہ کافی پرانا ہے اور اس میں کافی جدت بھی آ چکی ہے۔ اس میں بہتے پانی کی توانائی کو مکینیکل توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے عموما تیز بہتے پانی کو استعمال کیا جاتا ہے جس میں پانی کے قدرتی بہاو کو کسی بھی صورت میں متاثر نہیں کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی آبشاریں، چشمے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کے ماحولیاتی اثرات بھی بہت ہی کم ہیں۔
انجیئر حماد الطاف کا کہنا تھا کہ ایک اور قدرتی ذریعہ جیو تھرمل انجری ہے اس میں زمین کی گرمی کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ توانائی اربوں کھربوں سالوں میں بھی ختم نہیں ہو سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بائیو انرجی جانوروں اور درختوں کی باقیات سے قابل تجدید توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان میں لکڑی، کھانے کی فصلیں، جنگلات اور جانوروں کا فضلہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی ایک بڑی رینج ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے یہاں اس کے بڑے مواقع ہیں۔